کربلا کا سبق آموز تاریخی واقعہ

کربلا کا سبق آموز تاریخی واقعہ: ایک نظر میں

ندیم احمد انصاری

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعداسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد بہت سے حضرات اس مصرعے کو مختلف حوالوں سے پڑھتے ہیں‘لیکن یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ واقعی سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تو اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ کس طرح باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہنا اور راہِ حق میں جان کی بازی لگادینے سے گریز نہ کرنا مومن کا فرض ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ’اسلام کربلاسے پہلے بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا‘ انشاء اللہ۔ جن عظیم ہستیوں نے اپنے خونِ جگر سے گلشنِ اسلام کو سینچا وہ یقینا عالی مقام کے حامل تھے ، لیکن ان سب سے اعلیٰ مقام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقدس دین ’اسلام‘ کو حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں ایسے سینکڑوں واقعات پیش آئے ہیں جس میں اسلام کے مجاہدین نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر باطل کے سامنے بہ شوق جامِ شہادت نوش کیا اور بعض واقعات تو اس واقعۂ کربلا سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ مثلاً آپ کو اسلام کی پہلی شہید حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا‘ کس طرح ناہنجار ابوجہل نے اس ستر سالہ بوڑھی کے دونوں پائوں کو الگ الگ اونٹوں کے پائوں میں رسی سے باندھ کر انھیں مخالف سمت میں دوڑا دیا اور جسم کے دو ٹکڑے کر دیے۔ کیا آپ رسول اللہﷺ کے دودھ شریک بھائی اور جان نثار چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور بعدہٗ ان کے جسم مبارک کی اہانت کو بھول گئے ہیں کہ کس طرح حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے اسلام کے دامن میں آنے سے قبل غزوۂ احد میں ناک کان وغیرہ کاٹ کر ان کا مثلہ کیا تھا اور رحمت للعالمینﷺ نے آب دیدہ ہو کر ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھے اپنی پھوپھی کا خیال نہ ہوتا تو میں حضرت حمزہؓ کے جسمِ مبارک کو چیل کووں کی غذا بننے کے لیے چھوڑ دیتا تاکہ قیامت میں جب اللہ تعالیٰ حضرت حمزہؓ کو پکارے تو ان کے جسم کے ٹکڑے پرندوں کی چونچوں سے ٹپک پڑتے۔ آپ کے علم میں شرم وحیا کے پیکر، دامادِ رسول حضرت عثمان ذی النورینؓ کا وہ روح فرسا واقعہ بھی ہوگا کہ کس طرح باوجود پوری استطاعت اور قدرت کے کبر سنی میں اس خلیفۂ راشد نے محض اس لیے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی کہ وہ خود پر دوسروں کو فوقیت دیتے تھے اور انھیں یہ پسند نہ تھا کہ صحابۂ کرامؓ اور بلوائیوں میں جنگ اور مدینہ منورہ میںخون خرابہ ہو۔ نیز خلاصۂ کائنات، فخر موجودات، حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰﷺ کا طائف میں پتھر کھانا اور احد کے میدان میں دندانِ مبارک شہید کروانا‘ یہ سب وہ واقعات ہیں، جن کو گویا عملی طور پر لوگوں نے کم درجے کا سمجھ لیا ہے۔ اللہ کی قسم! خاتم الانبیاء کے خونِ مبارک کا ایک قطرہ تمام انسانیت کے خون سے کہیں زیادہ قیمتی ہے! عرض یہ کرنا ہے کہ کسی ایک بزرگ کی تعریف کرتے ہوئے ہرگز دوسروں کی شان میں ایسا لہجہ اختیار نہ کرنا چاہیے جس میں ادنیٰ گستاخی کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ اب نہایت اختصار کے ساتھ کربلا کا عبرت ناک اور سبق آموز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے، جو کچھ یوں ہے کہ اہلِ کوفہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے بیعت کی خاطر بارہا خط لکھے اور صحابہ میں ابن عباس،ابو سعید خدری،جابر بن عبداللہ،عبداللہ بن جعفر اور ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہم نے حضرت حسینؓ کو کوفے کی طرف رخ نہ کرنے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد پر اعتماد کرتے ہوئے اور اہلِ کوفہ کے مسلسل خطوط کی وجہ سے کوفہ روانہ ہوگئے۔ کوفہ ملکِ عراق کا ایک شہر ، اس وقت وہاں کا نائب سلطان (گورنر) عبید اللہ بن زیاد بن مرجانہ تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ابن مرجانہ کے روانہ کردہ لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد بن ابی وقاص کے آگے تین باتوں کی پیش کش کی؛(۱)یا تو انھیں واپس جانے کی اجازت دی جائے(۲) یا یزید بن معاویہؓ سے ملاقات کے لیے ملکِ شام روانہ ہونے دیا جائے(۳) یا پھر اسلامی سرحدوں پر جان فشانی کا موقع دیں۔ جس پر ابن مرجانہ نے ملکِ شام روانگی کی منظوری دے دی، لیکن حاشیہ برداروں میں شمر بن ذی الجوشن الضبی نے مداخلت کرتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید بن معاویہؓ کے پاس بھیجنے سے منع کیا، اور خود اسے فیصلہ کرنے پر ابھارا، نتیجتاً دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مثالی شجاعت کا مظاہر کیا، لیکن شمر بن ذی الجوشن الضبی نے سپاہیوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے اور انھیں قتل کرنے کا حکم دے دیا، جس کی تعمیل کرتے ہوئے زرعہ بن شریک التمیمی نے ضرب لگائی اور سنان بن انس النخعی نے سرقلم کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اس وقت ۵۶ سال کی عمر تھی اور آپؓ ملک عراق میں واقع شہر کوفہ سے قریب نہر فرات سے نزدیک میدانِ کربلا میں جمعہ کے دن صبح کے وقت ۱۰؍ محرم الحرام  ۶۱ھ؁ م ۱۲؍ اکتوبر ۶۸۰ء؁ کو بروز عاشوراء اس جنگ میں شہید کردیے گئے، جس کی رسول اللہﷺ پیشین گوئی فرما چکے تھے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ شہادت کے بعد سر کو ابن مرجانہ کے پاس لایا گیاپھر اسے مدینہ منورہ روانہ کیا گیا اور وہیں پر سر کی تدفین عمل میں آئی۔ جب ابن مرجانہ نے ملک عراق میں واقع شہر کوفہ سے ملک شام میں واقع شہر دمشق میں یزید بن معاویہؓ کو اس سانحے کی اطلاع کا مکتوب روانہ کیا تو یزید بن معاویہ روتے ہوئے کہنے لگے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بغیر ہی میں اہلِ عراق کی فرماں برداری سے خوش ہوجاتا، اللہ کی لعنت برسے ابن مرجانہ پر، اگر میں وہاں ہوتا تو چشم پوشی سے کام لیتا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں۔اس کے بعد یزید بن معاویہؓ نے حضرت حسینؓکے قتل کے جرم میں ابن مرجانہ کو سزائے موت سنائی اور جان کے بدلے جان کی حد نافذ کی، بعد ازاں بہ صد تکریم وتعظیم بقیہ مردانِ آلِ بیت اور خواتین کو شاہی اعزاز کے ساتھ مدینے روانہ کردیا۔ یقینا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت امتِ مسلمہ کے لیے ایک دردناک مصیبت ہے اور مصیبت میں صبر کرنے کی ہدایت اور صبر کرنے پر رب کی نوازشوں اور رحمتوں کی بشارت بھی ہے اور جو (مصیبت وغم میں نوحہ کرتے ہوئے) اپنے چہروں پر مارے، کپڑوں کو پھاڑے، اور (غیر اسلامی) جاہلانہ الفاظ استعمال کرے‘اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ عہدِ نبوت میں بیوی کے علاوہ کسی اور کو اپنے متعلقین کی وفات پر تین دن سے زیادہ غم منانے سے منع کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دین اسلام کے لیے صرف ایک صحابی نے جامِ شہادت نوش نہیں کیا بلکہ بے شمار جلیل القدر صحابہؓ، اسلام کی سربلندی کے لیے شہید کیے گئے ہیں، عین کفر کے بالمقابل حضرت حمزہ، حضرت جعفر، حضرت علی، حضرت عثمان اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کی عظیم وتاریخ ساز شہادتوں کو نظر انداز کرنا اور صرف ایک خاص صحابی ہی کی شہادت کو اہمیت دینا، کہیں بہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ عصبیت اور دورخے پن میں شمار نہ ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here