عاشورا یعنی دس محرم میں مسلمان کیا کریں

عاشورا یعنی دس محرم میں مسلمان کیا کریں ؟
ندیم احمد انصاری

سنت پر عمل کرنے اور بدعت سے بچنے کے لیے ان کا علم ہونا ناگزیر ہے، جب تک کسی عمل کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کارِ ثواب ہے تو کیوں کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور جب تک کسی عمل کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ یہ گناہ ہے تو کس طرح اس سے بچنے کی کوشش کی جا سکتی ہے؟ اسی کے پیشِ نظر اس مختصر تحریر میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جن کا تعلق عاشورا یعنی دس محرم سےہے، درجِ ذیل امور میں سے بعض کام وہ ہیں، جن کے کرنے پر ثواب کی امید ہے اور بعض وہ جن کے کرنے پر بازپرس کا اندیشہ ہے اور ظاہر یہ محرر کا موقف ہے، اگر کسی کو اس سے اختلاف ہو تو ہو۔  سنت پر عمل کرنے اور بدعت سے بچنے کے لیے ان کا علم ہونا ناگزیر ہے، جب تک کسی عمل کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کارِ ثواب ہے تو کیوں کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور جب تک کسی عمل کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ یہ گناہ ہے تو کس طرح اس سے بچنے کی کوشش کی جا سکتی ہے؟ اسی کے پیشِ نظر اس مختصر تحریر میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جن کا تعلق عاشورا یعنی دس محرم سےہے، درجِ ذیل امور میں سے بعض کام وہ ہیں، جن کے کرنے پر ثواب کی امید ہے اور بعض وہ جن کے کرنے پر بازپرس کا اندیشہ ہے اور ظاہر یہ محرر کا موقف ہے، اگر کسی کو اس سے اختلاف ہو تو ہو۔  حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہﷺ سے عاشورا کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:عاشورا کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب آں حضرتﷺ نے یومِ عاشورا میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺوفات پاگئے۔ (مسلم، ابن ماجہ ) اسی لیے فقہاے کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارھویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔(شامی)البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے لکھا ہے کہ ہمارے زمانے میں چوں کہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا کوئی اور کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارھویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔ (الترغیب، بیہقی)  شیخ الفقہا ومحدثین شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیثمی مصری( مفتی مکہ معظمہ) نے اپنی تالیف ’صواعقِ محرقہ‘ میں یومِ عاشورا کے ضمن میں لکھا ہے کہ لوگو! اچھی طرح سمجھ لو کہ عاشورا کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ مصائب سے دوچار ہوئے اور آپ کی شہادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے مراتب ودرجات کی رفعت کا ثبوت ہے، اس شہادت کے ذریعے اہلِ بیتِ اطہار کے درجات بلند کرنا بھی اللہ کو منظور تھا، اس لیے عاشورا کے دن جو شخص مصائب کا تذکرہ کرے تو اسے لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے میں مشغول رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ثواب کا مستحق ہوسکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ، وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ} یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے رحم وکرم ہوتا ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ عاشورا کے دن انا للہ الخ پڑھتے رہے، یا بڑی سے بڑی نیکی روزہ رکھنے کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول نہ ہو۔ (ما ثبت بالسنۃ)کرنے کے کام متذکرہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یومِ عاشورا سے متعلق شریعت نے خاص دو چیزیں بتلائی ہیں: (۱) روزہ رکھنا (۲) اہل وعیال پر کھانے پینے وغیرہ میں وسعت کرنا،نیز مصیبت کے وقت استرجاع کا حکم ہے اور اس تاریخ میں ایک الم انگیز واقعہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیش آیا، اس کی یاد سے صدمہ ضرور ہوگا، لہٰذا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتے رہیں، اس کے علاوہ اس دن کے لیے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ (فتاویٰ رحیمیہ)کھچڑا پکانا بعض حضرات (ان دنوں میں) کھچڑے کی پابندی کرتے ہیں، اصل اس کی صرف وہ (حدیث) تھی جو کہ (اہل وعیال پر وسعت کے عنوان  سے) لکھی گئی، شاید کسی نے یہ سمجھ کر کہ کھچڑے میں (بہت سے) اناج آجائیں گے، کھچڑا پکالیا ہوگا، مگر اب اس کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ نماز قضاء ہوجائے، مگر یہ قضا نہ ہو۔ سو ایسا اصرار بدعت ہے، نیز اکثر ان امور میں خلوص بھی نہیں ہوتا اور یہی نیت ہوتی ہے کہ لوگ کہیں گے کہ ایک سال پکا کر رہ گئے، اس لیے اگر یہ بدعت بھی نہ ہوتا، تب بھی ثواب کچھ نہ ملتا۔ (زوال السنۃ)شربت پلانا بعض لوگ ان ایام میں شربت پلاتے ہیں اور اس میں ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس سے شہیدوں کی پیاں بجھے گی، کیوں کہ وہ پیاسے شہید ہوئے تھے، تو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس شربت نہیں پہنچتا بلکہ اگر خلوص سے شرع کے موافق ہوتا تو ثواب پہنچتا اور ثواب گرم اور ٹھنڈی چیز کا یکساں ہے، یہ نہیں کہ گرم شئے کا ثواب گرم ہو اور ٹھنڈی شئے کا ثواب ٹھنڈا ہو اور پھر طرہ یہ کہ خواہ سردی ہو، خواہ برسات، خواہ گرمی، چاہے کوئی بیمار ہوجائے، مگر شربت ضرور ہو۔ (زوال السنۃ)یہ شربت نہ وہاں پہنچتا ہے، نہ ان کو شربت کی ضرورت ہے، اللہ پاک نے ان کے لیے جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں عطا کر رکھی ہیں، جن کے مقابلے میں یہاں کا شربت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔( فتاویٰ محمودیہ)دسویں محرم کی چھٹی کرنا اس دن چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں؛ ایک یہ کہ اس میں اہلِ تشیع کے ساتھ تشبہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی تائید وتقویت ہے، دوسری قباحت یہ کہ اس دن شیعہ اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کے برعکس مسلمان تمام دینی ودنیوی کاموں کی چھٹی کرکے اپنی بے کاری اور بے ہمتی کا مظاہر کرتے ہیں، تیسری قباحت یہ کہ چھٹی کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوسوں اور ماتم کی مجلسوں میں چلے جاتے ہیں، جس پر کئی گناہوں کا بیان اوپر گذر چکا ہے۔ (احسن الفتاویٰ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here