اسرا و معراج: کیا، کب اور کیوں؟

مولانا ندیم احمد انصاری

’معراج‘ حضرت محمد ﷺ کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔ معراج کے واقعے کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اور حدیثوں میں اس کے سفر کی تفصیلات ملتی ہیں۔ تقریباً تیس صحابۂ کرام سے معراج کا واقعہ منقول ہے، جن میں سات راوی وہ ہیںجو خود معراج کے زمانے میں موجود تھے اور باقی حضرات وہ ہیں، جنھوں نے حضرت نبیﷺ کی زبانِ مبارک سے اس واقعے کو سنا ہے۔حضرت انس بن مالک، مالک بن صعصعہ، ابوذر غفاری، ابوہریرہ، عمر، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابو سعید خدری، حذیفہ بن یمان اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے تفصیلاً واجمالاً روایات منقول ہیں۔ [روح القرآن]

’معراج‘ کا لفظ ’عروج‘ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: چڑھنا اور اوپر جانا۔ معراج اس چیز کو کہتے ہیں جو ’اوپر چڑھنے کا ذریعہ بنے‘ یعنی سیڑھی یا آج کے دور میں لفٹ (LIFT) وغیرہ۔ [المعجم الوسیط، المنجد، بیان اللسان] معراج کو بھی ’معراج‘ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ گویا آں حضرتﷺ کے لیے سیڑھی رکھی گئی، جس پر چڑھ کر آپﷺ آسمان پر تشریف لے گئے اور ایک روایت میں سیڑھی کا تذکرہ بھی آیا ہے کہ جب آں حضرتﷺ کا عالمِ بالا کا سفر شروع ہوا تو آپﷺ کے لیے ایک سیڑھی رکھی گئی۔ [مظاہر حق جدید]

’معراج‘ اور ’اسراء‘ دو الگ چیزیں ہیں۔ اسراء اس سفر کو کہتے ہیں، جو آںحضرتﷺ نے اس شب میں مسجدِ حرام (بیت اللہ) سے مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدس) تک کیا، اور مسجدِ اقصیٰ سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسراء نصِ قرآن سے ثابت ہے، اور اس کا انکار کرنا اسلام سے خارج ہونا ہے، اور معراج مشہور ومتواتر روایات سے ثابت ہے، اس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدعتی کہلاتا ہے۔ [مظاہر حق جدید]

تاریخِ معراج

معراج کا واقعہ کس تاریخ میں پیش آیا، اس میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں۔ راجح یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعتِ عقبہ سے پہلے معراج ہوئی، کثرت اسی جانب ہے۔ نیز یہ امر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئیں، اور یہ بھی مسلَّم ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شعبِ ابی طالب میں آپ کے ہمراہ تھیں۔ شعبِ ابی طالب سے نکلنے کے بعد ان کا انتقال ہوا، اور آپﷺ اور آپ کے رُفقا شعب ابی طالب سے ۱۰ /نبوی میں باہر نکلے۔ لہٰذا ان تمام مقدمات سے نتیجہ یہی نکلا کہ معراج ۱۰ /نبوی کے بعد ۱۱ /نبوی میں سفرِ طائف سے واپسی کے بعد کسی مہینے میں ہوئی۔ رہا یہ امر کہ کس مہینے میں ہوئی؟ اس میں اختلاف ہے۔ ربیع الاول یا ربیع الآخر، یا رجب یا رمضان یا شوال میں ہوئی؟ پانچ قول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب میں ہوئی۔ علامہ زرقانیؒ کی رائے یہ ہے کہ جب کسی قول کو دوسرے قول پر ترجیح دینے کے لیے کافی دلائل موجود نہیں ہیں، تو مشہور قول ہی کو اختیار کرلینا بہتر ہے۔[سیرۃ المصطفیٰ]

معراج کا واقعہ کیوں پیش آیا؟

جب حضور ﷺ کی ہمت وارادہ اور وعدۂ الٰہی کے پورا ہونے کا یقینِ محکم اپنے پورے معیار پر پہنچ گیا اور آپﷺ اس طرح کے تمام سہاروں کے ختم ہوجانے پر بھی‘ جن سے آپﷺ کو سخت حالات کا مقابلہ کرنے میں کچھ مدد مل رہی تھی، آپﷺکے یقینِ محکم اور عملِ پیہم اور صبر ورضا کی برقراری میں فرق نہیں آیا، یعنی ۱۰/نبوی گزر گیا اور ابتلا وآزمائش کی سب منزلیں طے ہوچکیں، ذلت ورسوائی کی کوئی نوع ایسی باقی نہ رہی، جو خداوند ذوالجلال کی راہ میں برداشت نہ کی گئی ہو،اور ظاہر ہے کہ خدائے رب العزت کی راہ میں ذلت اور رسوائی کا انجام سوائے عزت اور رفعت، سوائے معراج اور ترقی کے کیا ہوسکتا ہے؟ چناںچہ جب شعب ابی طالب اور سفرِ طائف سے ذلت انتہا کو پہنچ گئی، تو خداوند ذوالجلال نے اسراء ومعراج کی عزت سے سرفراز فرمایا اور آپﷺ کو اس قدر اونچا کیا کہ افضل الملائکۃ المقربین یعنی جبرئیل علیہ السلام بھی پیچھے اور نیچے رہ گئے اور ایسے مقام تک سیر کرائی کہ جو کائنات کا منتہیٰ ہے، یعنی عرشِ عظیم تک‘ جس کے بعد کوئی مقام نہیں۔[ماخوذ من سراجاً منیراً، سیرۃ المصطفیٰ]

واقعۂ معراج کا تاریخی پس منظر

یہ واقعہ تحریکِ اسلامی کے اس مرحلے میں پیش آیا، جب کہ نبی کریمﷺ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے تقریباً ۱۲؍ سال گزر چکے تھے۔ آپﷺ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کرچکے تھے، مگر ان کی مزاحمتوں کے باوجود آپﷺ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا، جس میں دوچار آدمی آپﷺ کی دعوت سے متاثر نہ ہوچکے ہوں۔ خود مکّے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا، جو اس دعوتِ حق کی کامیابی کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھے۔ مدینے میں اَوس وخزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپﷺ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت تقریباً آلگا تھا، جب آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ منتقل ہوجانے اور منتشر مسلمانوں کو ایک جگہ سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کردینے کا موقع ملنے والا تھا۔ ان حالات میں معراج پیش آئی، اور واپسی پر وہ پیغام نبیﷺ نے لوگوں کو سنایا، جو سورۂ نبی اسرائیل میں درج ہے۔ [سیرتِ سرورِ عالم]

معراج کا تفصیلی واقعہ

حضرت قتادہ حضرت انس بن مالکؓاور وہ حضرت مالک بن صعصعہؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے اسراء اور معراج کی رات کے احوال وواردات کی تفصیل صحابہؓسے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’اس رات میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، اور بعض موقعوں پر آپﷺنے ’حِجر‘ میں لیٹنے کا ذکر فرمایا‘ کہ اچانک ایک آنے والا (فرشتہ) میرے پاس آیا، اور اس نے (میرے جسم کے) یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چاک کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ (’یہاں سے یہاں تک‘ سے) آںحضرتﷺ کی مراد گردن کے گڑھے سے زیرِ ناف بالوں تک کا پورا حصہ تھا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اس فرشتے نے اس طرح میرا سینہ چاک کرکے) میرے دل کو نکالا، اس کے بعد میرے سامنے سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں میرے دل کو دھویا گیا، پھر میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ومحبت یا علم وایمان کی دولت) بھردی گئی، اور پھر دل کو سینے میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا، اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ (کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ) کو آبِ زمزم سے دھویا گیا، اور اس میں ایمان وحکمت بھرا گیا۔ اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام بُراق تھا۔ وہ اس قدر تیز رو تھا کہ جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا، اور جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمانِ دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر پہنچا۔ جبرئیل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو (دربان) کی طرف سے پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ؑ ہوں۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا: محمدﷺ ہیں۔ سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے یا از خود آئے ہیں؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا: بلایا گیا ہے۔ فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کا خیر مقدم کرتے ہیں، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت آدم ؑ سامنے کھڑے ہیں۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپﷺ کے ابّا (یعنی جدِ اعلیٰ) آدم ؑ ہیں، انھیں سلام کیجیے۔ میں نے حضرت آدمؑ کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: میں نیک بخت بیٹے اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل ؑ مجھ کو لے کر دوسرے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبریلؑ نے کہا: میں جبریل ؑ ہوں، پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا آپﷺ کو بلایا گیا ہے؟ جبریلؑنے کہا: ہاں! دربان نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپﷺ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کھڑے ہیں، جو ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ ہیں، انھیں سلام کیجیے۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور دونوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: نیک بخت بھائی اور نبیِ صالح کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے بعد جبریل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور تیسرے آسمان پر آئے، انھوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کون ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ؑہوں۔ پھر پوچھا گیا: آپؑ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: ہاں! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا۔ جب میں تیسرے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں۔ جبریل ؑنے کہا: یہ یوسف ہیں، ان کو سلام کیجیے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چوتھے آسمان پر آئے، انھوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: ہاں! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا۔ جب میں چوتھے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ادریس علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ ادریس ؑ ہیں، انھیں سلام کیجیے، میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور پانچویں آسمان پر آئے، انھوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں۔ پھر سوال کیا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: ہاں! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں پانچویں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ ہارون ؑ ہیں، انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چھٹے آسمان پر آئے، انھوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: میں جبریل ہوں، پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: ہاں! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺکو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا۔جب میں چھٹے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ موسیٰ ہیں، انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جب میں آگے بڑھا تو حضرت موسیٰ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ حضرت موسیٰ نے کہا: ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بناکر دنیا میں بھیجا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اس چھٹے آسمان سے گذر کرجبریل ؑ مجھے لے اور اوپر چلے اور ساتویں آسمان پر آئے، انھوں نے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کون ہے؟ جبریل ؑ نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمدﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبریل ؑنے کہا: ہاں! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دراوزہ کھولا گیا اور جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ آپ کے ابّا (مورثِ اعلیٰ) ابراہیم ؑ ہیں، انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بحت بیٹے اور نبیِ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں، اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں۔ جبریل ؑ نے وہاں پہنچ کر کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہی۔ میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی، میں نے پوچھا: جبریل ؑ! یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں؟ جبریل ؑ نے بتایا: یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں، اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اورفرات ہیں۔ پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جس چیز کا پسند ہوپیالہ لے لوں ، چناں چہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ جبریل ؑ نے کہا: دودھ فطرت ہے، اور یقینا آپ ﷺ کی امت اسی فطرت پر رہے گی۔ اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ایک دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر جب میں واپس ہوا تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے رخصت ہوکر چھٹے آسمان پر حضرت موسیؑ کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: آپ کو کس عبادت کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے ان کو بتایا: پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیؑنے (یہ سن کر) کہا: آپ کی امت نسبتاً کمزور ہے، وہ دن رات میں پچاس نمازیں ادا نہیں کرسکے گی، خدا کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت ترین کوشش کرچکا ہوں۔ لہٰذا آپ اللہ رب العزت کے پاس واپس جائیے اور اپنی امت کے حق میں تخفیف اور آسانی کی درخواست کیجیے۔ چناں چہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور میرے پروردگار نے دس نمازیں کم کردیں۔ میں پھر حضرت موسیٰ کے پاس آیا، لیکن انھوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناں چہ میں پھر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوا اور (چالیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں، میں پھر حضرت موسیٰ کے پاس آیا، انھوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناںنچہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور (تیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں۔ میں پھر حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناںچہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور مجھ کو دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ میں پھر حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناںنچہ میں پھر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوا اور مزید پانچ نمازوں کی تخفیف کرکے مجھے ہر دن ورات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ میں پھر حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر پوچھا ، میں نے ان کو بتایا کہ اب دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا: آپ کی امت کے بہت لوگ دن رات میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکیں گے، میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزماچکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت کوشش کرکے دیکھ چکا ہوں، آپ بارگاہِ الٰہی میں مزید تخفیف کی درخواست کیجیے۔ آں حضرتﷺ نے فرمایا کہ میں بار بار اپنے پروردگار سے تخفیف کی درخواست کرچکا ہوں، اب مجھے شرم آتی ہے۔ میں اپنے پروردگار کے اس حکم کو قبول کرتا ہوں۔ حضرت نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ سے اس گفتگو کے بعد جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو غیب سے ندا آئی: میں نے اپنے فرض کو جاری کرکے پھر اپنے بندوں کے حق میں تخفیف کردی، یعنی اب میرے بندوں کو نمازیں تو پانچ ہی پڑھنی پڑیں گی، لیکن ان کو ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔[مشکوۃ المصابیح]

مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here