اعتکاف کی فضیلت و سنّیت، قرآن مجید میں

اعتکاف کی فضیلت و سنّیت، قرآن مجید میں

ندیم احمد انصاری

قرآن مجید میں نہ صرف اعتکاف کا ذکر بلکہ اس کی عظیم فضیلت کی طرف واضح اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے از خود اپنے گھر کی تعمیر کے مقاصد میں اعتکاف کا مستقلاً ذکر فرمایا اور اپنے نبیوں کو حکم دیا کہ وہ اعتکاف کرنے والوں کے لیے اُس کے گھر کو پاک و صاف کریں۔
ارشادِ ربانی ہے:
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ۭ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ایسی جگہ بنایا جس کی طرف وہ لوٹ لوٹ کر جائیں اور جو سراپا امن ہو! اور تم مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو یہ تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک کرو جو (یہاں) طواف کریں اور اعتکاف میں بیٹھیں اور رکوع اور سجدہ بجا لائیں۔ (البقرۃ)

مذکورہ بالا آیت سے جہاں اعتکاف کی نہایت فضیلت کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اعتکاف کا عمل اس امت کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ سابقہ اُمم میں بھی یہ عمل کسی نہ کسی صورت میں رہا ہے۔ نیز اعتکاف روحانیت اور قربِ خداوندی کا ایسا عظیم الشان مجرب عمل ہے کہ جلیل القدر پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی مبارک عمل کے بعد کتابِ الٰہی عنایت کی گئی۔
جیسا کہ ارشاد ہے:
وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ۔
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھیرایا (کہ ان راتوں میں کوہ طور پر آکر اعتکاف کریں) پھر دس راتیں مزید بڑھا کر ان کی تکمیل کی، اور اس طرح ان کے رب کی ٹھیرائی ہوئی میعاد کل چالیس راتیں ہوگئیں، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے پیچھے تم میری قوم میں میرے قائم مقام بن جانا، تمام معاملات درست رکھنا اور فساد بپا کرنے والے لوگوں کے پیچھے نہ چلنا۔ (الاعراف)

لفظ وٰعَدْنَا کے اصلی معنی دو طرف سے وعدے اور معاہدے کے آتے ہیں، یہاں بھی حضرت حق جل شانہ کی طرف سے عطاے تورات کا وعدہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تیس چالیس راتوں کے اعتکاف کا، اس لیے بجائے وَعَدنَا کے وٰعَدْنَا فرمایا۔ (معارف القرآن)

علامہ راغب اصفہانیؒ (مفردات القرآن، مادہ:ع، ک،ف کے تحت)فرماتے ہیں:
العُكُوفُ: الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلک قال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [الحج:25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة: 125]، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء: 71]، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [الأعراف: 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه: 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [البقرة: 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً[ الفتح: 25] ، أي : محبوسا ممنوعا۔
عکوف کے معنی تعظیماً کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سے وابستہ رہنا ہیں، اور اصطلاحِ شریعت میںاعتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔
قرآن میں ہے:
وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ۔
جب تم مسجدوں میں اعتکاف کر رہے ہوں ۔ [ البقرۃ]
سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ۔
خواہ وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔[ الحج]
وَالْعاكِفِينَ۔
اور اعتکاف کرنے والوں۔[ البقرۃ]
فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ۔
اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔[ الشعراء]
عکفتہ علٰی کذا،کسی چیز پر روکے رکھنا۔
يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُم۔
یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لیے بیٹھے رہتے تھے ۔[ الأعراف]
ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً۔
جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا۔[ طہ]
وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً۔
اور قربانی کے جانور بھی روک دیے گئے ہیں ۔[ الفتح]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ۭ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۭعَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ۔
تمھارے لیے حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بےتکلف صحبت کرو، وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، پھر اس نے تم پر عنایت کی اور تمھاری غلطی معاف فرمادی، چناںچہ اب تم ان سے صحبت کرلیا کرو، اور جو کچھ اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو، اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیادہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو، اور ان (اپنی بیویوں) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو۔ (البقرۃ)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا کہ اس میں اعتکاف کے آداب تو بتلائے گئے، مگر اس کے فرض و واجب ہونے سے سکوت فرمایا، پس یہ اشارہ اس طرف ہو گیا کہ واجب نہیں، ورنہ اور مامورات و واجبات کی طرح اس کے لیے بھی وجوب کا صیغہ استعمال فرماتے، مگر اس کے آداب و احکام مثل نہی عن المباشرت (مباشرت سے منع کرنا)کے ذکر فرمانے سے اس کا مہتم بالشان ہونا بھی قرآن ہی میں مذکور ہے۔ ادھر حدیث میں ہے: کان خلقہ القرآن، یعنی حضورﷺ کی عادت تھی قرآن شریف پر عمل کرنا۔(مسند احمد، کنز العمال)

پس حضورﷺ نے ضرور اعتکاف فرمایا ہے اور آپ کا فعل سنیت کو مفید ہوتا ہے اور عدمِ وجوب سیاقِ قرآنی سے معلوم ہو چکا ہے۔ پس اعتکاف کا سنت ہونا اس طرح قرآن سے ثابت ہو گیا، اس اعتبار سے بھی ایک قسم کا اعتدال ہے کہ نہ فرض و واجب، نہ مباح، بلکہ سنت ہے، گو فرض میں بھی دوسری قسم کا اعتدال ہے، مگر وہ اور معنی کو اور یہ اور معنی کو، پس اگر اسے فرض کر دیتے تو اس کے مناسب اعتدال کا جو مقتضیٰ ہے یعنی یُسرِ مطلق وہ نہ رہتا۔اس میں یہ خاص اعتدال رکھا ہے کہ کوئی کرے اور کوئی نہ کرے اور چوں کہ حضورﷺ نے خود ہمیشہ کیا ہے اور نہ کرنے والوں پر ملامت بھی نہیں فرمائی۔(دیکھیےخطبات حکیم الامت)
mmmm

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here