اعتکاف کے مباحات مستحبات مکروہات مفسدات اور قضا

اعتکاف کے مباحات، مستحبات، مکروہات، مفسدات اور قضا، ندیم احمد انصاری

روزے میں جس طرح انسان بہت سی ایسی باتوں سے رک جاتا ہے جو غیرروزے دار کے لیے جائز و درست ہوتی ہیں، اسی طرح اعتکاف میں بھی معتکف کو بعض ایسی چیزوں سے رکنا ہوتا ہے جو غیر معتکف کے لیے بالکل جائز و درست ہے۔وہ مسجدِ شرعی میں اپنے آپ کو ایک خاص مدت تک روکے رکھتا ہے اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ بلا ضرورت شرعی حدود سے باہر نہ نکل جائے۔ یہ احساس اسے زندگی میں بہت سے منکرات و مکروہات سے دور رکھتا ہے۔آگے ہم اختصار کے ساتھ اعتکاف کے مستحبات، مباحات، مکروہات اور مفسدات کا بیان کرتے ہیں، جن کو جاننے سے اعتکاف کو صحیح طور پر پورا کرنا آسان ہوگا۔ ان شاء اللہ

مستحبات
اعتکاف میں مندرجۂ ذیل باتوں پر عمل کرنا مستحب ہے: (۱) اعتکاف کے لیے افضل ترین مسجد کا انتخاب کرنا (۲) نیک اور اچھی باتیں کرنا (۳) قرآن مجید کی تلاوت کرنا(۴) علومِ دینیہ پڑھنا؍ پڑھانا ۔وأما آدابہ :فان لا یتکلم الا بخیروان یلازم بالاعتکاف عشرا من رمضان وان یختار أفضل المساجد کالمسجد الحرام الجامع،ویلازم التلاوۃ والحدیث والعلم وتدریسہ وسیرۃ النبیﷺ والانبیاء علیہم السلام الخ۔(ہندیۃ)

مباحات
وہ باتیں جو اعتکاف میں جائز و مباح ہیں: (۱) مسجد میں کھانا، پینا وغیرہ (۲) کوئی حاجت کی چیز خریدنا، بشر طیکہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو اور (۳) نکاح کرنا۔اذاأکل المعتکف نہاراً ناسیاً لا یضرہ لان حرمۃ الاکل لا جل الصوم لا جل الاعتکاف، ولا بأس للمعتکف أن یبیع ویشری الطعام وما لا بد منہ الخ،ویجوز للمعتکف أن یتزوج الخ۔(ہندیۃ)

مکروہات
وہ باتیں، جن سے اعتکاف مکروہ ہوجاتا ہے، یہ ہیں: (۱) خاموشی کو عبادت سمجھ کر مستقل خاموش رہنا (۲) فضول اور لا یعنی باتیں کرنا (۳) بلا ضرورت خرید و فروخت کا سامان مسجد میں لانا۔ فمنہا الصمت الذی یعتقدہ عبادۃ فانہ یکرہ،ولا یفسد الاعتکاف سباب ولا جدال،ولا بأس للمعتکف أن یبیع ویشتری الطعام وما لا بد منہ وأما اذا أراد أن یتخذ متجرا فیکرہ لہ ذلک۔(ہندیۃ)

مفسدات
وہ باتیں، جن سے اعتکاف فاسد ہو جاتا یعنی ٹوٹ جاتا ہے، یہ ہیں: (۱) بلا عذر مسجد سے باہر نکلنا، خواہ عمداً ہو یا سہواً (۲) جماع کرنا، خواہ عمداً ہو یا سہواً، انزال ہو یا نہ ہو، مسجد میں ہو یا باہر (۳) بیوی سے دل لگی کے دوران انزال ہوجانا (۴) جان بوجھ کر روزہ توڑدینا (۵) مرتَد ہو جانا (۶) پاگل ہوجانا، جب کہ اس حالت میں کوئی روزہ فوت ہوجائے (۷) ایسا بے ہوش ہوجانا کہ کوئی روزہ فوت ہوجائے (۸) عورت کو حیض یا نفاس جاری ہوجانا (۹) کسی عذر سے باہر نکل کر ضرورت سے زائد ٹھہرنا۔ مثلاًاستنجا کے لیےگیا اور فارغ ہوکر کچھ دیر وہاں ٹھہرا رہا (۱۰) بیماری یا خوف کی وجہ سے مسجد سے نکلنا۔وأما مفسداتہ:فمنہا الخروج من المسجد فلا یخرج المعتکف من معتکفہ لیلاً ونہاراً الا بعذر وان خرج من غیر عذر ساعتہ فسداعتکافہ۔والجماع عامداً أو ناسیاً لیلاً أونہاراً یفسد الاعتکاف أنزل أولم ینزل وما سواہ یفسد اذا أنزل وان لم ینزل لا یفسد۔(ہندیۃ)وبطل بانزال بقبلۃ اولمس۔(الدرالمختار مع الرد دار)ومنہا الصوم وہو شرط۔ومنہا الغماء والجنون :نفس الاغماء والجنون لا تفسد بلاخلاف حتی لا ینقطع التتابع الخ ۔(٨)والجنب والحائض والنفساء ممنوعون عن المسجد۔(٩)فاذا خرج لبول أو غائط لا بأس بأن یدخل بیتہ ویرجع الی المسجد کما فرع من الوضوء ولو مکث فی بیتہ فسد اعتکافہ۔(١٠)وکذا اذا خرج ساعۃ بعذر المرض فسدا اعتکافہ ۔(ہندیۃ)

قضا
اگر معتکف بلا عذر تھوڑی دیر کے لیے بھی مسجد سے نکلے گا خواہ بھول کر ہی کیوں نہ ہو، اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا اور اسے اس کی قضا کرنی ہوگی اور واجب اعتکاف میں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے، عذر کی بنا پر توڑ دیا جائے یا بھول سے ٹوٹ جائے تو جس دن کا اعتکاف ٹوٹا ہے اس دن کے اعتکاف کی قضا روزے سمیت لازم ہے لیکن احتیاطاً اختلاف سے بچنے کے لیے رمضان کے بعد دس دن روزہ سمیت قضا کرلے تو بہتر ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ ترتیب صالح)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here