بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کا نمونہ اور باب الریان

بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کاایک نمونہ اور باب الریان
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
روزہ دار کے منھ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ یہ دراصل بندوں کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت اوربندوں کی قدرو عظمت کاایک نمونہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے خاطر بھوکا رہا جس کے نتیجہ میں معدہ کے خالی رہنے کی وجہ سے منھ میں بدبوپیداہوئی، اس کی اللہ تعالیٰ کے یہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ قدر ہے۔وزہ دار کےلیے دوچیزیں خوشی کی ہیں، ایک توہر روزہ دار جانتا ہے کہ افطار کاوقت آتا ہے تو کیسی خوشی ہوتی ہے، اوراسی روزہ کی وجہ سے کل اللہ تعالیٰ سے ملنے کاوقت آئے گا تو یہی روزہ چوںکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاباعث ہے، اس لیے وہاں پر بھی اس کوخوشی ہوگی، تو دنیا میں بھی خوشی ملتی ہےاورآخرت میں بھی خوشی ملے گی۔
روزہ دارکوجنت میںباب الریّان سےبلایاجائے گا
أنَّ رسول الله ﷺ قَالَ: مَنْ أنْفَقَ زَوْجَيْنِ في سَبِيلِ اللهِ نُودِيَ مِنْ أبْوَابِ الجَنَّةِ ، يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا خَيرٌ ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ الصّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الجِهَادِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ الصّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ الصّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصّدَقَةِ . قَالَ أَبُوبَكْرٍ؄: بِأبي أنْتَ وَأُمِّي يَا رسولَ اللهِ ! مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرورةٍ ، فهل يُدْعى أحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأبوَابِ كُلِّهَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَأرْجُو أنْ تَكُونَ مِنْهُمْ۔(متفقٌ عَلَيْهِ )(ریاض الصالحین:۱۲۱۶)
حضرت ابوہریرہ؄سےروایت ہے کہ نبیٔ کریمﷺنےارشاد فرمایا:جس آدمی نےجوڑاجوڑا(یعنی دودوچیزیں)اللہ کی راہ میںدینے کااہتمام کیا(جیسے: کپڑے دیےتوجوڑی دیے، بکری دی تودو بکریاں دیں، اسی طرح اورچیزوں میں بھی اس کا اہتمام کیا)تو جنّت کے دروازوں سے اس کو پکارا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ خیر ہے(اورجیسی نیکی کی ہوگی اس کے مطابق ہی جنت کے دروازوں سے اس کوپکارا جائےگا) اگرکسی نے نماز والی نیکی کی ہے تو نماز والے دروازہ سے پکارا جائے گا (جنّت میں ایک دروازہ باب الصلوٰۃ کے نام سے ہے،نمازیوں کووہاں سے جنّت میں داخل کیاجائے گا)اورجس نےجہاد والا عمل کیاہے،تو اس کو جہاد والے دروازہ سے بلایا جائے گا، اوراگر روزہ والا عمل کیاہے تو اس کوجنّت میں باب الریّان سے بلایا جائے گا، اور کسی نے صدقہ وخیرات کی ہوگی تو باب الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ حضرت ابوبکر ؄نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، ان دروازوں میں سے اگرکسی ایک بھی دروازہ سے بلایاجائے توپھر دوسرے دروازہ سے بلانے کی ضرورت تو نہیں ہے( مقصد تو جنّت میں داخل ہوناہے،کسی ایک دروازے سےبھی بلایاجائےتومقصدحاصل ہوگیا،لیکن میںپوچھنےکے طورپرپوچھ رہا ہوں کہ) کوئی ایسابھی آدمی ہوگا جس کو جنّت کے تمام دروازوں سے پکارا جائے؟ حضوراکرم ﷺنے جواب میںارشاد فرمایا: جی ہاں! اورمجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ آدمی جتنی نیکیوں کااہتمام کرتا ہے اسی کے مناسب اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاملہ کیاجاتا ہے۔ یہاں تو روزہ رکھنے والوں کو باب الریّان سے بلایا جائے گااسی مناسبت سے یہ روایت لائے ہیں ۔
عن سهل بن سعد؄عن النبيِّ ﷺقَالَ: إنَّ في الجَنَّةِ بَاباً يُقَالُ لَهُ : الرَّيَّانُ ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَومَ القِيَامَةِ، لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أحدٌ غَيْرُهُمْ، يقال: أيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ لاَ يَدخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ .(متفقٌ عَلَيْهِ ) (ریاض الصالحین:۱۲۱۷)
حضرت سہل بن سعد؄فرماتے ہیں کہ جنّت میں ایک دروازہ ہے جس کوریّان کہا جاتا ہے ،قیامت میں روزہ داراُس دروازہ سے داخل ہوںگے، اور روزہ داروں کے علاوہ کسی کو اُس دروازہ سے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چناںچہ اعلان ہوگا:روزہ دار کہاں ہیں؟ توسب روزہ دار اٹھیں گے اوراس دروازہ سے ان کے علاوہ کوئی نہیںجا سکے گا،جب سب روزہ دار اُس دروازہ سے داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند ہوجائے گا ۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here