ترویحے کی مروج دعاؤں سے متعلق وضاحت (آخری قسط)

ترویحے کی مروج دعاؤں سے متعلق وضاحت (آخری قسط)

اب آپ کے قائم فرمودہ سوالات کے جوابات بالترتیب عرض ہیں:۝۱ ان تسبیحات کا کوئی ثبوت بوقتِ تراویح مخصوص طور پر قرآن وحدیث یا کتبِ فقہ سے نہیں، محض رسمی ورواجی ہیں۝۲ جواب ۱؍ کے مطابق۝۳ نہیں۝۴ معلوم نہیں۝۵ درست نہیں۝۶ نہیں۝۷ ناجائز اور گناہ ہے۝۸ جہالت ہے۝۹ علامہ شامی نے قہستانی کے حوالہ سے یہ تسبیح نقل فرمائی ہے: سبحان ذی الملك والملکوت، سبحان ذی العزة والعظمة والقدرة والکبریاء والجبروت، سبحان الملك الحی الذی ولایموت، سبوح قدوس رب الملائکة والروح، لااله الا اللہ نستغفر اللہ نسألك الجنة ونعوذبك من النار۔(شامی۱ /۵۲۲)لیکن یہ بھی سنت یا واجب نہیں ہے۝۱۰مذکورہ تسبیح قرآن وحدیث میں نہیں ہے بلکہ فقہاء نے اس کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور اس کو بھی ہر نمازی انفرادی طور پر آہستہ آہستہ پڑھے، اجتماعی طور پر جہراً پڑھنا درست نہیں ہے۔ ہر نمازی کو اختیار ہے چاہے وہ تسبیح پڑھے، تلاوت کرے، نفل پڑھے یا خاموش رہے۔یخیرون بین تسبیح وقراءة وسکوت وصلوة فرادیٰ. (درمختار علی هامش الشامی۱ /۵۲۲) اجتماعی طور پر جہراً پڑھنے سے شریعت کا دیا ہوا اختیار اور آزادی مجروح ہوتی ہے ۝۱۱ امام اورمقتدی کا مل کر ہر ترویحے کے بعد دعا کرنا سنت کے مطابق نہیں، انفرادی طور پر جو دعاکرنا چاہے کر سکتا ہے، اس لیے ہرترویحے کے بعد اجتماعی دعا کو ضروری سمجھنا اور اس میں حصہ نہ لینے والوں پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۱/۳۴۷)

حضرت اقدس فقیہ الامت مولانا مفتی محمود حسن صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: ہر چار رکعت تراویح کے بعد استراحت مستحب ہے اور اس وقت اس کو اختیار ہے کہ چاہے تلاوت کرے، چاہے تسبیح وتہلیل، درود پڑھے، دعا کرے، چاہے نوافل پڑھے۔ لیکن دعا کا التزام کرنا اور مجموعی حیثیت سے دعا پر اصرار کرنا، تارک پر ملامت کیا جانا منع ہے، کیوںکہ شریعت میں اس کا ثبوت نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ۲/۳۶۱)البتہ تراویح کی بیس رکعات پردعا مانگنا مستحب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ۲/۳۶۲) لیکن اس کو بھی ضروری نہ سمجھے اور نہ مانگنے والے پر ملامت نہ کرے۔

مروّجہ دعائے ترویحہ اور اسے دیوارِ قبلہ پر لٹکانا

زبہت سی مساجد میں آج کل نمازِ تراویح کے ترویحہ کی مشہور دعا: ’’سبحان الملك القدوس إلخ‘‘ بڑے بڑے حروف میں لکھ کر نمازیوں کے سامنے قبلے والی دیوار پر چسپاں کی جاتی ہے۔ جہاں تک بندہ کی نظر سے یہ مسئلہ گذرا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز میں مکتوب کو پڑھ لیا تو نماز فاسد ہوجاتی ہے، نیز ایک قول شاید یہ بھی ہے کہ اگر پڑھا نہیں صرف اس کا معنی سمجھ لیا تو بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں اس دعا کو سامنے رکھنا کیسا ہے؟ نیز اس دعا کی کیا حیثیت ہے؟ آج کل سلفیوں کی طرف سے ’نمازِ نبوی‘ ایک کتاب آئی ہے، اس میں لکھا ہے کہ یہ دعا کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں ملتی اور ہمارے علماء نے جہاں پر اس کو لکھا ہے وہ بھی صرف شامی کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا اس دعا کو کتنی اہمیت دی جائے؟ اس کے بر خلاف تراویح کے ترویحے میں کون سے اعمال قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، اس سے بھی مطلع فرمائیں۔

لفقہا نے یہ لکھا ہے کہ تراویح کے ترویحے میں یعنی چار رکعات کے بعد اختیار ہے کہ تسبیح پڑھے یا نفل پڑھے یا قرآن شریف پڑھے یا کچھ نہ پڑھے۔ تراویح میں چار رکعات کے بعد جو ذکر مشہور ہے وہ کسی روایت یا حدیث میں نہیں ملتا، البتہ علامہ شامی نے قہستانی وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترویحے کے بعد یہ ذکر کیا جائے۔ بہرحال! اس ذکر کو اس انداز سے دیوارِ قبلہ پر لٹکانا کہ دورانِ نماز نمازیوں کی نظر اس پر پڑے، مناسب نہیں۔ لیکن اگر کسی نے یہ پڑھ بھی لیا، تب بھی نماز فاسد نہ ہوگی۔٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here