زکوٰۃ اسلام کا اسای و بنیادی رکن

زکوٰۃ اسلام کا اساسی و بنیادی رکن، ندیم احمد انصاری

زکاۃ دینِ اسلام کا اساسی و بنیادی رکن ہے اور اسلام میں زکاۃکا حکم نہایت اہتمام کے ساتھ دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ’الزکاۃ‘ کا لفظ (معرفہ) تیس مرتبہ وارد ہوا ہے، ان میں سے آٹھ مقامات مکی سورتوں سے تعلق رکھتے ہیںاور بقیہ مدنی سورتوں سے۔ اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے، اس لیے اسلام نے سماج سے فقر وفاقہ ختم کرنے اور فقراکے مسئلے کو حل کرنے کا غایت درجے اہتمام کیا ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس نے انسانی اور سماجی پہلوؤں کی جانب مکی دور ہی میں توجہ کی، جب کہ اسلام کی روشنی ابھی ابھی نمودار ہوئی تھی اور مسلمان گنتی کے چند افراد تھے اور وہ بھی بڑی مظلومی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے اوران کے پاس حکومت تھی نہ سیاسی طاقت۔ان حالات میں بھی قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو کہیں کھانا کھلانے کی ترغیب دی تو کہیں انفاق کا حکم دیا اور کہیں ادائیگیِ زکوٰۃ کے عنوان سے سائل ومحروم اور مسکین ومسافر کا حق ادا کرنے کی تاکید کی۔جب رسول اللہﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی توآپ ﷺ نے زکاۃ کے احکام اور زیادہ مؤثر انداز میں پیش فرمائے۔ آپ ﷺ نے اسلام میں اس کا مقام بتایا اور واضح کیا کہ زکاۃ دین کا اساسی رکن ہے، اس کی ادائیگی کی آپ ﷺ نے ترغیب دی اور عدمِ ادائیگی پر وعید بھی ارشاد فرمائی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور استطاعت ہو تو حج کرو۔بہت سی احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید بھی سنائی تاکہ غفلت میں پڑے لوگ بیدار ہوں اور اس طرح انھیں ترغیب وترہیب کے ذریعے اس حکم کی ادائیگی پر آمادہ کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جسے مال سے نوازا اور پھر اس نے زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا، جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑے پکڑ کر کہے گا: میں ہوں تیرا مال اور میں ہوں تیرا خزانہ۔پھر رسول اللہ ﷺ نے سورہ آلِ عمران کی یہ آیت(۱۸۰) تلاوت فرمائی: (مفہوم)جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں، وہ اچھا نہیں بلکہ ان کے لیے برا ہے، وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن اس کا طوق بناکر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کا تعلق نصاب پر سال گزرنے سے ہے نہ کہ کسی خاص مہینے سے، اس کے باوجود ہمارے دیار میں اکثر لوگ رمضان المبارک میں اپنی زکاۃ نکالتے ہیں، جب کہ صحابۂ کرامؓ شعبان ہی میں اس ذمّے داری سے بری ہو جاتے تھے، ان کے پیشِ نظر رمضان کے مبارک مہینے میں فقرا کی ضرورتوں کا انتظام تھا،جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان (یعنی صحابۂ کرامؓ) قرآن کی طرف جھک جاتے اوراپنے اموال کی زکاۃ نکالتے تھے،تاکہ غریب و مسکین لوگ روزے اور ماہِ رمضان کو بہتر طریقے سے گزار سکیں۔(لطائف المعارف)افسوس اب اس جانب توجہ نہیں کی جاتی اور غریبوں کا رمضان اور عید دونوں فکر ورنج کی تاریکی میں ڈاب جاتے ہیں۔ویسے زکوٰۃ کی ادایگی کا معمول حسبِ موقع سال بھر ہونا چاہیے، اس لیے کہ غریبوں کو ضرورت بھی سال بھر لاحق رہتی ہے، جو لوگ رمضان المبارک میں زکاۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں ان کے پیش نظر شاید وہ روایات ہیں جن کے مطابق رمضان میں کیے گئے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملتا ہے، ویسے اگر زکاۃ کا حساب درست رکھا جائے تو اس میں مضایقہ بھی نہیںبس یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ زکاۃ کا شعبان یا رمضان وغیرہ سے کوئی تعلق نہیںبلکہ جب نصاب پر سال پورا ہو جائے اس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے، دوسرے یہ کہ جن لوگوں کو اللہ نے استطاعت دی ہےوہ زکوٰۃ ہی سے اور یا اس کے علاوہ بھی ضرورت مند مستحقین کا سارے سال خیال رکھیں۔اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت (البقرہ:۱۷۷) میں زکوٰۃ اور محتاجوں پر خرچ کرنے کو علاحدہ علاحدہ نیکی کہہ کر بیان کیا ہےاور رسول اللہﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے: إن فی المال لحقاً سوی الزکوٰۃ یعنی مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی بہت سے حقوق ہیں۔ (مشکوٰۃ: ۱۹۱۴)ان سب سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ صاحبِ استطاعت کو زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کے نام [پر] صدقہ خیرات کرتے رہنا چاہیے۔ (اغلاط العوام)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here