شہادت یا گواہی چُھپانا اور جھوٹی گواہی دینا دونوں کبیرہ گناہ ہیں

مفتی ندیم احمد انصاری

گواہی بعض صورتوں میں حق و انصاف کے لیے ناگزیر ہوتی ہے، اس لیے شریعت میں بہ وقتِ ضرورت گواہی دینے اور جھوٹی گواہی سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ضرورت کے موقعوں پر گواہی دینے سے بچنا یا کسی مفاد یا ڈر کے سبب جھوٹی گواہی دینا سخت مذموم ہے۔ معاملہ چند لوگوںکا ہو یا پوری قوم کا، ہر دو صورت میں گواہی چھپانے یا جھوٹی گواہی دینے سے اجتناب ضروری ہے، خواہ سچّی گواہی دینے کے نتیجے میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے،اسے بھی ثواب کی خاطر برداشت کر لینا چاہیے۔ احیاے حق کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ جمہوری نظام میں ووٹ کو بھی شہادت شمار کیا جاتا ہے، اسی مناسبت سے یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔

گواہی سے انکار نہ کریں

ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَلَا يَاْبَ الشُّهَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا﴾اور جب گواہوں کو ( گواہی دینے کے لیے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔[البقرۃ]اس میں لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ جب ان کو کسی معاملے میں گواہ بنانے کے لیے بلایا جائے تو وہ آنے سے انکار نہ کریں کیوں کہ شہادت ہی احیاے حق کا ذریعہ اور جھگڑے چکانے کا طریقہ ہے، اس لیے اس کو اہم قومی خدمت سمجھ کر تکلیف برداشت کریں۔[معارف القرآن]

گواہی نہ چھپائیں

بعض مرتبہ کسی کی گواہی سے حق دار کو اس کا حق مل سکتا ہے، اور گواہی نہ دینے کی صورت میں صاحبِ حق اپنے حق سے محروم ہو سکتا ہے، یا ظالم کو اس سے فایدہ حاصل ہو سکتا ہے، پھر بھی کوئی انسان کسی مفاد یا ڈر سے گواہی نہیں دیتا، ایسوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ؁﴾ اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو ایسی شہادت کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے پہنچی ہو ؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے بےخبر نہیں ہے۔ [البقرۃ] ایک مقام پر فرمایا: ﴿وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ؁﴾اور گواہی کو مت چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گناہ گار دل کا حامل ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ [البقرۃ]حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے: تم میں سے کسی کو لوگوں کا خوف ہرگز حق گوئی سے نہ روکے، جب کہ اسے اس کا علم ہو۔ لا يَمنَعَنَّ أحَدَكم مَخافةُ النَّاسِ أنْ يتكلمَ بالحَقِّ إذا عَلِمَه. عن ابن عباس.[کنز العمال]

جھوٹی گواہی سے شہروں کی ویرانی

حضرت مکحولؒ سے مرسلاًروایت ہے: سب سے جلدی جس بھلائی کا ثواب ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے، سب سے جلدی جس برائی کی سزا ملتی ہے وہ بغاوت ہے، اور جھوٹی گواہی شہروں کو ویران کردیتی ہے۔إن أعجل الخير ثوابا صلة الرحم، وإن أعجل الشر عقوبة البغي، واليمين الفاجرة تدع الديار بلاقع.عن مكحول.[کنزالعمال]

قربِ قیامت کی ایک نشانی

حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے قریب ایک وقت ایسا آئےگا کہ ایک شخص پورے مجمع کو سلام کرنے کے بجائے کسی خاص آدمی کو سلام کرنے پر اکتفا کرےگا، تجارت اتنی عام ہوجائے گی کہ عورت اپنے شوہر کی تجارت میں مدد کرے گی (یعنی وہ بھی دکان پر بیٹھےگی)، رشتے داری توڑی جائےگی، تحریر و مضامین عام ہو جائیںگے، جھوٹی گواہی عام ہو جائےگی اور سچی گواہی کو لوگ چھپائیںگے۔عن النبی ﷺ قال: بينَ يدَي السَّاعةِ تسليمُ الخاصَّةِ ، و فُشُوُّ التَّجارةِ حتَّى تُعينَ المرأةُ زوجَهَا علَى التَّجارةِ ، و قَطعُ الأرحامِ ، و فُشُوُّ القلَمِ ، و ظُهورُ الشَّهادةِ بالزُّورِ ، و كِتْمانُ شَهادةِ الحقِّ.[الادب المفرد]

گواہی چھپانا، جھوٹی گواہی کے برابر

حضرت ابو موسی اشعریؓسے روایت ہے: جس نے شہادت چھپائی-جب اس کو شہادت کے لیے بلایا گیا-تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے جھوٹی شہادت دے دی ۔مَن كَتَمَ شَهادَةً إذا دُعِيَ إلَيها كانَ كَمَن شَهِدَ بِالزُّورِ .عن أبي موسى.[کنزالعمال ]

جھوٹی گواہی شرک کے برابر

حضرت ایمن بن خریمؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے برابر ہے۔ پھر آپ ﷺنے یہ آیتِ کریمہ پڑھی﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾[الحج] یعنی بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، أَنّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللّهِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللّهِ ﷺ ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾. [ترمذی]

جھوٹی گواہی: کبیرہ گناہ

حضرت انسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ سے کبائر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (۱)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا (۲)والدین کی نافرمانی کرنا (۳)ناحق کسی کا قتل کرنا (۴)جھوٹی گواہی دینا۔عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْكَبَائِرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ “الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهَادَةُ الزُّورِ”.[بخاری] ایک روایت میں اس طرح ہے؛ حضرت انس بن مالکؓکہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا یا آپ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: (۱)اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا (۲)ناحق کسی کا قتل کرنا (۳)والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر فرمایا: کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ اور فرمایا: جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا۔ شعبہ نے کہا: میرا غالب گمان یہ ہے کہ آپ نے ’جھوٹی گواہی‘ فرمایا۔ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْكَبَائِرَ أَوْ سُئِلَ عَنِ الْكَبَائِرِ فَقَالَ:‏‏‏‏ “الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَوْلُ الزُّورِ أَوْ قَالَ شَهَادَةُ الزُّورِ”قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ وَأَكْثَرُ ظَنِّي أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ الزُّورِ. [بخاری]

کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ

حضرت ابوبکرہؓکہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا:اے اللہ کےرسول ضرور ارشاد فرمائیں! آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا -اس وقت آپ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، پھر (سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمایا-سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، سن لو ! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ آپ اسی طرح فرماتے رہے، یہاں تک کہ میں نے کہا: آپ خاموش نہ ہوں گے۔ ‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟”قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ “الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ”وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ”فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا يَسْكُتُ. [بخاری]

رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی۔ عن ابن عمر قال: لعن رسول الله ﷺ شاهد الزور وهو يعلم.[کنزالعمال]

جھوٹی گواہی دینے والے کا انجام

حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (قیامت کے دن) جھوٹی گواہی دینے والے کے پاؤں ہِل نہ سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ واجب کردیں۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “لَنْ تَزُولَ قَدَمُ شَاهِدِ الزُّورِ حَتَّى يُوجِبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ”. [ابن ماجہ]حضرت انسؓسے روایت ہے: خبردار ! جس شخص نے جھوٹی گواہی دینے کے لیے اپنے آپ کو قاضی کے سامنے بنا کر پیش کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے تارکول کا لباس پہنائیںگے اور اس کے منھ میں آگ کی لگام ڈالیں گے۔ ألا من زين نفسه للقضاة بشهادة الزور زينه الله تعالى يوم القيامة بسربال من قطران وألجمه بلجام من نار.عن أنس. [کنزالعمال]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here