صفر کے مہینے کی حیثیت، اس متعلق توہمات اور اسلامی تعلیمات

صفر کے مہینے کی حیثیت، اس متعلق توہمات اور اسلامی تعلیمات
ندیم احمد انصاری

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ’صفر ‘ہے،اس مہینے سے متعلق قرآن و ست میں کوئی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے نہ نحوست۔وجہِ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً عربوں کے گھر خالی رہتے تھے،کیوں کہ وہ ذو القعدہ ،ذو الحجہ اور محرم الحرام کے مہینوں میں‘ان کے حرمت والا ہونے کی وجہ سے جنگ و جدال بند رکھتے تھے اور یہ مہینے مسلسل ہوتے ہیں،اس لیے ان کے گزرتے ہی عرب اپنی موقوف جنگوں کو ازسرِ نو شروع کردیتے تھے اور سفر پر چلے جاتے تھے،جس سے مکان خالی ہو جاتے تھے، جس کی وجہ سے عرب کہتے’صفر المکان‘۔صفر کی جمع ’اصفار‘ہے۔(تفسیر ابن کثیر) ’صفر‘ کے مفہوم کی وضاحت میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں،جن کا خلاصہ تین باتیں ہیں:(۱) اول یہ کہ اس سے مراد مشہور ماہِ صفر ہے(۲)دوم یہ کہ اس سے مراد پیٹ کے کیڑے ہیں(۳)سوم یہ کہ اس سے مراد’نسی‘ہے یعنی اشہرِحرم میں سے کسی مہینے کی عظمت کو طول دے کراس میں دوسرا مہینہ شریک کر لینا۔(ماثبت بالسنۃ)دورِ حاضر کی طرح زمانۂ جاہلیت میں لوگوں نے بہت سی غلط اور بے بنیادباتیں اس مہینے سے منسوب کر رکھی تھیں اور وہ مختلف وجوہ سے اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، وہ پیٹ کے کیڑے کو صفر کہتے تھے اوران کا ماننا تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہے جو بھوک کے وقت ڈستا ہے، اسلام نے ان سب باتوں کو باطل قرار دیا۔(بذل المجہود) چوں کہ ان کے ہاں اس مہینے سے متعلق بہت سی بے سروپا باتیں منسوب تھیں،اس لیے وہ ان بد فالیوں سے بچنے کے لیے اس ماہ کی تقدیم و تاخیر کر دیا کرتے تھے، جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{اِنَّمَا النَّسِیئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ  الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَاحَرَّمَ اللّٰہُ، زُیِّنَ لَھُمْ  سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِین}ادب کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کردینا کفر میں بڑھ جانا ہے،اس سے کافر گم راہی میں پڑ ے رہتے ہیں،ایک سال تو اس کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام،تاکہ ادب کے مہینوں کی‘ جو اللہ نے مقرّر کیے ہیں،گنتی پوری کر لیںاور جو اللہ نے منع کیا ہے،اس کو جائز کر لیں،ان کے برے اعمال ان کوبھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔(التوبہ)اسی لیے بعض لوگوں کے نزدیک صفر سے مراد نسی ہے،یعنی ماہِ محرم کے ایام کو بڑھاکر صفر کا مہینہ اس میں شامل کر لینا اور ماہِ صفر کو ماہِ محرم ٹھہراکراسے ایک معزز مہینہ بنا لینا۔(ما ثبت بالسنۃ) زمانۂ جاہلیت کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آگیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے،ان میں سے چار مہینے احترام وادب والے ہیں۔تین مہینے مسلسل؛ذی القعدہ،ذی الحجہ،محرم الحرام اور ایک مہینہ مضر کا رجب ہے،جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(مسنداحمد، بخاری، مسلم)اس حدیث میں ماہِ رجب کی نسبت قبیلۂ مضَر کی طرف اس لیے کی گئی کہ یہ قبیلہ دیگر قبائل کے بالمقابل اس ماہ کی حرمت کے سلسلے میں زیادہ متشدد تھا۔ماہِ صفر کی حیثیت  اسلام سے قبل لوگ اس ماہ کو منحوس سمجھتے تھے،لیکن رسول اللہﷺنے اس توہم کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا: صفر کے مہینے میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں۔(بخاری،مسلم)اس حدیث میں صراحتاً رسول اللہﷺ نے ارشاد فرما دیا کہ مرض کی تعدی کوئی چیز ہے نہ بدفالی،الّو کے بولنے سے کوئی نحوست آتی ہے اور نہ ماہِ صفر میں نحوست ہے۔صفر گزرنے کی خوش خبری بعض کتبِ تصوف میں ایک حدیث لکھ دی ہے: {من بشرنی بخروج صفر،بشرتہ بالجنۃ}حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے ماہِ صفر کے گزرنے کی بشارت دے گا،میں اس کو جنت کی بشارت دوںگا۔اس روایت سے بعض لوگوں نے اس ماہ کی نحوست پر استدلال کیا ہے، مگر یہ دلیل ثبوتاً ودلالتاًدونوں طرح مخدوش ہے۔علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ نے اس روایت کو موضوعات میںشمار کیا ہے۔(کتاب الموضوعات)یعنی نہ تو یہ حدیث ثابت ہے اور نہ یہ مضمون اس پر دال ہے۔اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہو جائے تو اس کا اصل مفہوم یہ ہوگا کہ آپﷺ کی وفات چوں کہ ماہِ ربیع الاول میںہونے والی تھی اور آپﷺ انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار وملاقات کے مشتاق تھے،اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے اور صفر کے پورا ہونے کی خبر کا آپﷺ کو انتظار تھا،پس اس خبر کے لانے پر آپﷺ نے بشارت کو مرتب فرمایا،چناں چہ کتبِ تصوف میں اسی مقصد کے اثبات وتائید کے لیے اس کو وارد کیا ہے۔بہ ہر حال!نہ یہ دلیل ثابت ہے اور نہ اس کی دلالت ثابت، پس دعویٰ نحوست باقی اور درست نہ رہا۔(زوال السنۃ) اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ماہِ صفر سے متعلق نہ کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے نہ نحوست۔ویسے بھی مسلمان کا بڑا کام اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سرورِ کائناتﷺ کا اتباع کریں اور اتباع کرنے میں اس کو اچھی طرح علماسے تحقیق کریں کہ یہ قول وفعل حضورﷺ سے ثابت ہے یا نہیں،سنی سنائی بے سند باتوں کی اتباع کرنا گناہ ہے۔(اغلاط العوام بتغیر)سفر و نکاح  بعض لوگ 13صفرکو گھر سے باہر جانا یا سفر کرنا–ممنوع سمجھتے ہیں،لیکن قرآنِ وحدیث اور فقہ‘کہیں سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ 13صفر کو سفر کرنا جائز نہیں۔(خیر الفتاویٰ) مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری علیہ الرحمہ نے درست لکھا ہے کہ واقع میں دن،مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے،نحوست تو بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے۔ماہِ صفر اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس سمجھ کر شادی ،منگنی اور سفر وغیرہ جیسے کاموں سے رک جانا سخت گناہ ہے۔’نصاب الاحتساب ‘ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ کوئی شخص سفر کے ارادہ سے گھر سے نکلے اور کوّے کی آواز سن کر سفر سے رک جائے تو بزرگوں کے نزدیک وہ شخص کافر شمار ہوتا ہے۔(مجالس الابرار)مشرکین ماہِ صفر کوتیرہ تاریخوں تک منحوں سمجھتے تھے اس لیے آنحضرتﷺ نے (اس نحوست )کی تردید فرمائی۔افسوس!مسلمان اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے فرمان کے خلاف مشرکین کے عقیدہ کی اقتدا کر رہے ہیں۔(فتاویٰ رحیمیہ ملخصاً)بلا اعتقاد اگر نحوست کا خیال آجائے ؟ جو بات مشہور ہوتی ہے، وقت پر اس کا خیال آ ہی جاتا ہے،لیکن اس خیال پر عمل کرنا یا اس کو دل میں جمائے رکھنا،یہ جائز نہیں،بلکہ توکّل کو غالب کرے تو باطل خیال فوراًرفع دفع ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔(الفضائل والاحکام للشہور والایام)آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیںہے جس کے دل میں اس طرح کی کوئی بات نہ آتی ہو،مگر اللہ پر توکل سے یہ دور ہوجاتی ہے۔(ابو داود)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بد فالی سے ڈر محسوس کرتا ہو یا اس سے (اس کے گمان کے مطابق)کچھ نقصان پہنچتا ہو،اس کے متعلق اس طرح دعا کرے:اَللّٰہُمَّ لَا طِیْرَ اِلَّا طِیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔اے اللہ!آپ کے شگون کے سوا کوئی شگون نہیں اور آپ کی خیر کے سوا کوئی خیر نہیںاور آپ کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں۔(فتح الباری)ماہِ صفر کاآخری بدھ بعض لوگ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو خوشی کی تقریب مناتے ہیں اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں،جب کہ یہ سب بلا دلیل ہے۔لوگوں میں اصلاً یہ غلط بات مشہور ہو گئی کہ اس دن حضرت نبی کریمﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا اور آپ کے مرض میں افاقہ ہوا تھا،جب کہ یہ درست نہیں ،البتہ شدتِ مرض کی روایت وارد ہوئی ہے۔(مدارج النبوۃ، سیرۃ المصطفیٰ)لیکن چوں کہ مسلمان رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت ہونے کی یہ خوشی نہیں مناتے اور نہ یہودیوں کی موافقت میں ایسا کیاجاتا ہے،پھر یہ امر فی نفسہٖ بھی کفر وشرک نہیں ہے،اس لیے ان حالات میں اس عمل پر کفر وشرک کا حکم نہیں لگایا جائے گا،لیکن یہ ایک نامناسب طریقہ ہے،اس لیے اس سے بچنا  چاہیے۔یہ بھی خیال رہے کہ غیروں کی مشابہت دانستاً کی جائے یا نا دانستہ طور پرہو جائے،بچنا اس سے بھی چاہیے۔اب شاید کسی کو یہ خیال آئے کے چوں کہ اس ماہ میں خلاصۂ کائنات کا مرض شدت اختیار کر گیا تھا،اس لیے یہ مہینہ نامبارک ہے، تو یہ خیال بھی دررست نہیں،اس لیے کہ اس مہینے میں آپﷺ کا مرض بڑھا تھا نہ کہ اس مہینے کی وجہ سے۔دونوں میں واضح فرق ہے،پھر یہ بھی تو سوچیے کہ اس ماہ میں یہ واقعہ نہ ہوتا تو کسی اور مہینے میں ہوتااور اگر آپﷺ کے اس مہینے میں بیمار ہونے یا بیماری میں اضافہ ہو جانے کی وجہ سے اس مہینے کو نامبارک سمجھتے ہیں تو ربیع الاول کو اس سے زیادہ منحوس سمجھنا  چاہیے کہ اس میں آپ کی وفات ہوئی ہے، جب کہ ایسا کوئی نہیں سمجھتا۔معلوم ہوا یہ سب واہیات ہیں،شریعت میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں۔( فتاویٰ محمودیہ جدید)آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا بعض لوگ کہتے ہیں ؛ چو کہ حضرت نبی کریمﷺ کو ماہ ِ صفر کے آخری بدھ میں مرض سے شفا ہوئی تھی ، اس لیے اس دن عمدہ کھانا وغیرہ پکانا چاہیے ۔ اس واقعے سے اس طرح کا کوئی مسئلہ نکالنا اور اپنے طور پر اس دن کو ہر سال خوشی اور مسرت کا باعث سمجھنا بھی غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے ، اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔ (احسن الفتاویٰ ) ماہِ صفر کا روزہ بعض لوگ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو خصوصیت سے روزہ رکھتے ہیں، جب کہ اسلام میں یہ مشروع نہیں۔’امدادالمفتیین‘میں اس سوال کے جواب میں — ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ ، بلاد ِہند میں اس طور پر مشہور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوا پکا کر کھایا جاتا ہے، اس روزے کو کچوری روزہ یا پیر کا روزہ کہتے ہیں،شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں ؟—مرقوم ہے: بالکل غلط اور بے اصل ہے ۔ اس کو خاص طورپر رکھنا اور اس پر خاص ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت او رناجائز ہے ۔حضرت نبی کریمﷺ اور تمام صحابہ کرامؓ سے ، کسی ایک ضعیف حدیث میں بھی اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی،کیوں کہ کوئی عبادت ایسی نہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ نے امت کو تعلیم کرنے اور سکھانے سے بخل کیا ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here