آبِ زمزم کی مستند تاریخ اور مختصر فضائل

آبِ زم زم کی مستند تاریخ اور مختصر فضائل
ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

زمزم کی ابتدا ور تاریخ مشہور ہے اور صحیح احادیث میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے کہ حضرت اسماعیل شیر خوار تھے کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے انھیں ان کی والدہ سمیت مسجدِ حرام کے اوپری حصے میں جہاں سے زمزم جاری ہوا، کعبے کے قریب ایک درخت کے پاس چھوڑ آئے۔ اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی۔ ابراہیم نے انھیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزے میں پانی رکھ دیا، اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم! ہمیں کہاں چھوڑ کر جا رہے ہو، ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ؟ اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگر ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اسماعیل کی والدہ نے کہا:کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ انھوں نے کہا: ہاں ! ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو ضایع نہیں کرے گا، پھر وہ واپس چلی آئیں اور ابراہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انھیں دیکھ نہ سکتے تھے، پس انھوں نے اپنا منہ کعبے کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی: زمزم کی ابتدا ور تاریخ مشہور ہے اور صحیح احادیث میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے کہ حضرت اسماعیل شیر خوار تھے کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے انھیں ان کی والدہ سمیت مسجدِ حرام کے اوپری حصے میں جہاں سے زمزم جاری ہوا، کعبے کے قریب ایک درخت کے پاس چھوڑ آئے۔ اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی۔ ابراہیم نے انھیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزے میں پانی رکھ دیا، اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم! ہمیں کہاں چھوڑ کر جا رہے ہو، ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ؟ اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگر ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اسماعیل کی والدہ نے کہا:کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ انھوں نے کہا: ہاں ! ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو ضایع نہیں کرے گا، پھر وہ واپس چلی آئیں اور ابراہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انھیں دیکھ نہ سکتے تھے، پس انھوں نے اپنا منہ کعبے کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی: رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ ۔ اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں لا بسایا ہے جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی، ہمارے پروردگار ! (یہ میں نے اس لیے کیا) تاکہ یہ نماز قائم کریں، لہٰذا لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے کشش پیدا کردیجیے اور ان کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے، تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔ (ابراہیم:37) اسی حالت میںاسماعیل کی والدہ انھیں دودھ پلاتی تھیں اور اس مشکیزے کا پانی پیتی تھیں، حتی کہ جب وہ پانی ختم ہوگیا تو انھیں اور ان کے بچے کو پیاس لگی، وہ اس بچے کو دیکھنے لگیں کہ وہ مارے پیاس کے تڑپ رہا ہے، یا فرمایا کہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ وہ اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلیں اور انھوں نے اپنے قریب جو اس جگہ کے متصل تھا کوہِ صفا کو دیکھا، پس وہ اس پر چڑھ کر کھڑی ہوئیں اور جنگل کی طرف منہ کرکے دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں ؟ تو ان کو کوئی نظر نہ آیا جس سے پانی مانگیں، پھر وہ صفا سے اتریں، جب وہ نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کے ایسے دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیب زدہ آدمی دوڑتا ہے یہاں تک کہ اس نشیب سے گزر گئیں، پھر وہ کوہِ مروہ پر آکر کھڑی ہوئیں اور اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں، تو انھیں کوئی نظر نہ آیا، اسی طرح انھوں نے سات مرتبہ کیا۔ ابن عباسؓنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی لیے لوگ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ جب وہ آخری دفعہ کوہِ مروہ پر چڑھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی،تو خود ہی کہنے لگیں ذرا ٹھہر کر سننا چاہیے۔ انھوں نے کان لگایا تو پھر بھی آواز سنی، پھر خود ہی کہنے لگیں: تو نے آواز تو سنا دی، کاش کہ تیرے پاس فریاد رسی بھی ہو۔ یکایک ایک فرشتے کو مقامِ زمزم میں دیکھا، اس فرشتے نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ اپنا پر مارا حتیٰ کہ پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اسے حوض کی شکل میں بنا کر روکنے لگیں اور اِدھر اُدھر کرنے لگیں اور چلّو بھر بھر کے اپنی مشک میں ڈالنے لگیں۔ ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔(بخاری) ابن عباسؓکہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو روکتی نہیں بلکہ چھوڑ دیتیں یا فرمایا چلو بھر بھر کے نہ ڈالتیں تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا۔انھوں نے پانی پیا اور بچےکو پلایا، پھر ان سے فرشتے نے کہا کہ تم اپنی ہلاکت کا اندیشہ نہ کرو کیوں کہ یہاں بیت اللہ ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہلاک و برباد نہیں کرتا۔ اس وقت بیت اللہ زمین سے ٹیلے کی طرح اونچا تھا، سیلاب آتے تھے تو اس کے دائیں بائیں کٹ جاتے تھے ،ہاجرہ اسی طرح رہتی رہیںیہاں تک کہ چند لوگ قبیلۂ بنو جرہم کے ان کی طرف سے گزرے، یا یہ فرمایا کہ بنو جرہم کے کچھ لوگ خدا کے راستے سے لوٹ ر ہے تھے تو وہ مکّے کے نشیب میں اترے۔ انھوں نے کچھ پرندوں کو چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو آپس میں کہا:بے شک! یہ پرندے پانی پر چکر لگا رہے ہیں، جب کہ ہمارا زمانہ اس وادی میں گزرا تو اس میں پانی نہ تھا۔ انھوں نے ایک یا دو آدمیوں کو بھیجا تو انھوں نے پانی دیکھا اور واپس آکرسب کو پانی کے موجود ہونے کی اطلاع دی۔ وہ سب لوگ ادھر آئے، اسماعیل کی والدہ پانی کے پاس بیٹھی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا: کیا تم اجازت دیتی ہو کہ ہم تمھارے پاس قیام کریں؟ انھوں نے کہا اجازت ہے، مگر پانی پر تمھارا کوئی حق نہ ہوگا۔ انھوں نے شرط منظور کرلی۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛ اسماعیل کی والدہ نے اسے غنیمت سمجھا، وہ انسانوں سے انس رکھتی تھیں۔ وہ لوگ مقیم ہوگئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی پیغام بھیج کر وہاں بلا لیا، انھوں نے بھی وہیں قیام کیا حتیٰ کہ ان کے پاس چند خاندان آباد ہوگئے اور اب اسماعیل بچے سے بڑے ہوگئے اور انھوں نے بنوجرہم سے عربی سیکھ لی اور ان کی حالت بھی معلوم کرلی۔ اسماعیل جب جوان ہوئے تو انھیں بڑے بھلے معلوم ہوئے اور جب وہ بالغ ہوئے تو انھوں نے اپنے قبیلے کی ایک عورت سے ان کا نکاح کردیا اور اسماعیل کی والدہ وفات پاگئیں۔(بخاری)چاہِ زمزم کا اجرا عرصۂ دراز کے بعد چاہِ زمزم ناپید ہو گیا اور اس کے نشانات تک مٹ گئے۔علامہ یاقوت حموی ’معجم البلدان‘ میں لکھتے ہیں کہ زمزم کے اجرا پر طویل زمانہ گزر گیا، یہاں تک کہ سیلابوں اور بارشوں نے اس کے نشانات تک مٹا دیے۔ صحیح بات یہ ہے کہ بنو جرہم جب مکّے سے گئے تو انھوں نے اس کنویں کو مٹی وغیرہ سے بھر دیا تھا۔ (تاریخِ مکہ مکرمہ)جس کی تفصیل سیرۃ المصطفیٰ میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ قبیلۂ جرہم کا اصلی وطن یمن تھا، مشیتِ ایزدی سے یمن میں قحط پڑا، اس وجہ سے بنی جرہم معاش کی تلاش میں نکلے۔ اتفاق سے اثناے راہ میں اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ سے چاہِ زمزم کے قریب ملاقات ہو گئی۔ بنو جرہم کو یہ جگہ پسند آئی اور اسی جگہ قیام پذیر ہو گئے اور پھر بعد چندے اسماعیل علیہ السلام کی شادی اسی قبیلے میں ہوئی اور نبی ہونے کے بعد عمالقہ اور جرہم اور اہلِ یمن کی طرف مبعوث ہوئے۔ ایک سو تیس سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا، حطیم میں اپنی والدہ ماجدہ کے قریب مدفون ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام کے وصال کے بعد حسبِ وصیت ان کے بیٹے قیدار، خانۂ کعبہ کے متولی ہوئے، اسی طرح بنو اسماعیل خانۂ کعبہ کے متولی ہوتے رہے۔ مرورِ زمانہ کے بعد بنو اسماعیل اور بنی جرہم میں منازعت اور مخاصمت کی نوبت آئی، بالآخر بنی جرہم غالب آگئے اور مکّے میں جرہم کی حکومت قائم ہوگئی۔ چند روز کے بعد جرہم کے حکام لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگے،یہاں تک ظلم کیا کہ اولادِ اسماعیل مکّے کے اطراف و جوانب میں آباد ہو گئی۔ جرہم کا جب ظلم و ستم اور فسق و فجور اور بیت اللہ کی بے حرمتی حد سے گذر گئی تو ہر طرف سے قبائلِ عرب مقابلے کے لیے کھڑے ہو گئے، مجبوراً قبیلۂ جرہم کو مکّے سے نکلنا اور بھاگنا پڑا لیکن جس وقت مکّے سے نکلنے لگے تو خانۂ کعبہ کی چیزوں کو بیرِ زمزم میں دفن کر گئے اور بیرِ زمزم کو اس طرح بند کر گئے کہ زمین کے ہم وار ہو گیا اور اس کا نام و نشان بھی نہ رہا۔ بنی جرہم کے چلے جانے کے بعد بنی اسماعیل مکّے میں واپس آگئے اور آباد ہو گئے، مگر بیرِ زمزم کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ مرورِ زمانہ سے اس کا نام و نشان بھی نہ رہا، یہاں تک جب مکّے کی حکومت اور سرداری عبد المطلب کے قبضے میں آئی اور ارادۂ خداوندی اس جانب متوجہ ہوا کہ چاہِ زمزم جو عرصے سے بند اور بے نام و نشان پڑا ہے اس کو ظاہر کیا جائے، تو رویاے صالحہ یعنی سچے خواب کے ذریعے سے عبد المطلب کو اس جگہ کے کھودنے کا حکم دیا گیا اور اس جگہ کے نشانات اور علامات خواب میں بتلائے گئے، چناں چہ عبد المطلب کہتے ہیں کہ میں حطیم میں سو رہا تھا کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور مجھ سے خواب میں کہا: إحفِر برۃ۔ برہ کو کھودو۔ میں نے دریافت کیا: وما برّۃَ؟ برہ کیا ہے؟ اگلے روز پھر اسی جگہ سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا وہ شخص یہ کہہ رہا ہے: إحفر المضنونۃ۔ مضنونہ کو کھودو۔ میں نے دریافت کیا: وما المضنونۃ؟ مضنونہ کیا ہے؟تو وہ شخص چلا گیا۔ تیسرے روز پھر اسی جگہ خواب میں دیکھا کہ وہ شخص یہ کہہ رہا ہے: إحفر طیبۃ۔ طیبہ کو کھودو۔ میں نے کہا: وما طیبۃ؟ طیبہ کیا ہے؟ تو وہ شخص چلا گیا۔ چو تھے روز پھر اسی جگہ خواب دیکھا کہ وہ شخص یہ کہتا ہے: إحفر زمزم۔ زمزم کو کھودو۔ میں نے کہا: وما زمزم؟ زمزم کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: لا تنزِفُ أبداً ولا تُذمّ تسقی الحجیج الأعظم۔ وہ پانی کا ایک کنواں ہے کہ جس کا پانی نہ کبھی ٹوٹتا ہے اور نہ کبھی کم ہوتا ہے، بے شمار حجاج کو سیراب کرتا ہے۔ اور پھر اس جگہ کے کچھ نشانات اور علامات بتلائے گئے کہ اس جگہ کو کھودو۔اس طرح بار بار دیکھنے اور نشانات کے بتلانے سے عبد المطلب کو یقین ہو گیا کہ یہ سچا خواب ہے یعنی رویاے صادقہ ہے۔ عبد المطلب نے قریش سے اپنا خواب ذکر کیا اور کہا کہ میرا ارادہ اس جگہ کو کھودنے کا ہے۔ قریش نے کھودنے کی مخالفت کی، مگر عبد المطلب نے مخالفت کی کوئی پروا نہیں کی اور کدال اور پھاوڑہ لے کر اپنے بیٹے حارث کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئے اور نشان کے مطابق کھودنا شروع کر دیا۔ عبد المطلب کھودتے جاتے تھے اور حارث مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے۔ تین روز کے بعد ایک من ظاہر ہوئی، عبد المطلب نے فرطِ مسرت سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا:ھذا طوی اسماعیل۔یہی اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے۔ اس کے بعد عبد المطلب نے چاہِ زمزم کے قریب کچھ حوض تیار کرائے جن میں آبِ زمزم بھر کر حاجیوں کو پلاتے۔ چند حاسدوں نے یہ شرارت شروع کی کہ شب میں اُن حوضوں کو خراب کر جاتے، جب صبح ہوتی تو عبد المطلب ان کو درست کرتے، بالآخر گھبرا کر اس بارے میں اللہ سے دعا مانگی، اس وقت اُن کو خواب میں یہ بتلایا گیا کہ تم یہ دعا مانگو:اللہم إنی لا أحلھا المغتسل ولکن ھی لشارب حِلّ۔اے اللہ میں اس زمزم سے لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، صرف پینے کی اجازت ہے۔صبح اٹھتے ہی عبد المطلب نے اس کا اعلان کر دیا، اس کے بعد جس کسی نے حوض کے خراب کرنے کا ارادہ کیا، وہ ضرور کسی بیماری میں مبتلا ہوا۔ جب بار بار اس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہوئے تو حاسدوں نے عبد المطلب کے حوضوں سے تعرض کرنا چھوڑ دیا۔ (سیرۃ المصطفیٰ) سب سے افضل پانی آبِ زمزم کی فضیلت میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں،حضرت ابن عباسؓکا ارشاد ہے: خیر ما علی وجہ الأرض ماء زمزم، فیہ طعام [من] الُعم، و شفاء السقم۔ روئے زمین پر سب سے افضل پانی زمزم ہے، یہ خوراک بھی ہے اور بیماری سے شفا بھی۔(مجمع الزوائد) اسی لیے علما اس پر متفق ہیں کہ آبِ زمزم دنیا کے تمام پانیوں سے افضل اور تمام پانیوں کا سردار ہے، سواے اس پانی کے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے بہ طور معجزہ نکلا تھا۔ (تاریخِ حرمین شریفین)زمزم اپنے ساتھ لے جانا اسی لیے حج و عمرہ کرنے والے دور دراز سے آئے ہوئے لوگ اسے تبرکاً ساتھ لے جاتے ہیں اور ایسا کرنا مستحب ہے، جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے: عن عائشۃ رضی اللہ عنھا، أنھا کانت تَحمِلُ من ماء زمزم و تُخبرُ أن رسول اللہﷺ کان یحَملہ۔  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ زمزم لے جایا کرتی تھیں اور ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمزم اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ (ترمذی) علما نے لکھا ہے کہ اس روایت سے آبِ زمزم کو دوسرے علاقوں میں لے جانے کا جواز بلکہ اس کا سنتِ مطلوبہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (درسِ ترمذی بتغیر) علامہ شامی فرماتے ہیں: و یستحب حملہ إلی البلاد۔۔۔أنہ کان یحملہ، وکان یصبُّہ علی المرضی و یسقیھم، وأنہ حنک بہ الحسن و الحسین رضی اللہ عنھما۔ زمزم اپنے ساتھ لے جانا مستحب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ زمزم لے جاتے تھے اور مریضوں پر چھڑکتے تھے اور انھیں پلاتے تھے، حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کی تحنیک بھی آپ نے آبِ زمزم سے فرمائی۔ (شامی)غیر مسلم کو زمزم پلانا غیر مسلم شخص کو بھی آبِ زمزم پلانا درست ہے۔ (کتاب الفتاویٰ)اسے ناجائز کہنے کی کوئی دلیل نہیں، البتہ چوں کہ زمزم کا پانی نہایت پاکیزہ ہے،اس لیے کافر اور منافق کو دینے میں بخل کرنا چاہیے، یہ پانی مومن کے مناسب ہے، کافر اور منافق کے مناسب نہیں۔(حاشیہ سیرۃ المصطفیٰ بتغیر)زمزم میں کوئی اور پانی ملانا علما نے لکھا ہے کہ جو افراد لوگوں کو آبِ زمزم بہ طور تبرک پیش کرتے ہیں اور آبِ زمزم میں پانی ملا کر پلاتے ہیں، ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آبِ زمزم میں پانی غالب ہو جائے تو وہ آبِ زمزم ہی نہ رہے گا اور اس کو آبِ زمزم کہہ کر پلانا درست نہ ہوگا، بلکہ ایک جھوٹ بات ہوگی۔ ہاں اگر آبِ زمزم غالب ہوگا تو اس کو آبِ زمزم کہا جا سکتا ہے، جیسا کہ دودھ میں اگر پانی ملا دیا جائے اور اگر پانی غالب ہوگا تو وہ شرعاً دودھ کے دایرے سے خارج ہو جاتا ہے، حتیّٰ کہ اگر دودھ پیتے بچّے کو کسی عورت کے دودھ میں دودھ سے زیادہ پانی ملا کر پلایا جائے گا تو اس سے شرعی طور پر رضاعت کا حکم ثابت نہ ہوگا۔ اسی طرح آبِ زمزم میں کوئی اورپانی غالب ہوگا تو یہ آبِ زمزم نہ ہوگا بلکہ دوسرا پانی ہو جائے گا، اس کو آبِ زمزم کہہ کر پلانا ثابت نہ ہوگا، اس لیے خواہ ایک ایک قطرہ ہو‘ خالص آبِ زمزم پلایا جائے اور دوسرا پانی ملا کر نہ پلایا جائے، ورنہ محض دھوکہ ہوگا۔ (مستفاد از انوارِ مناسک) زمزم پینے کی دعا زمزم پیتے وقت حضرت عبد اللہ بن عباسؓ یوں دعا فرماتے تھے: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً، وَ رِزْقاً وَاسِعاً، و َشِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاء۔ اے اللہ! میں آپ سے نفع دینے والے علم، وسیع رزق اور ہر بیماری ست شفا مانگتا ہوں۔(مستدرک حاکم )[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here