واقعۂ قربانی، قرآن کی زبانی

واقعۂ قربانی، قرآن کی زبانی

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

واقعۂ قربانی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان حضرات کے بارے جاننا ضروری ہے، جن حضرات نے اس مبارک عمل کو پہلے پہل انجام دیا اور جن کی رسمِ عاشقی ہمارے لیے عبادت بنا دی گئی۔ یہ واقعہ ہے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کا، پہلے ہم ان دوونوں کے متعلق نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کر دیں، اس کے بعد اصل واقعے کو بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ

عہدِ عتیق کے سفرِ تلوین میں ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سام بن نوح کی اولاد کے دسویں سلسلے میں تھے اور آپؑ کلدانیوں کے شہر ’اُور‘ میں پیدا ہوئے تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شہر ہے، جو ولایت حلب میں اُوقار کے نام سے مشہور ہے، بعض تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کوفہ کے شہر ’کوئی‘ میں پیدا ہوئے تھے، سفرِ تلوین سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو جب کہ اُن کی عمر ۹۹سال تھی، بشارت دی کہ وہ اُن کی نسل کو پھیلائے گا اور فلسطین کی سرزمین میں اس کی حکومت قائم کرے گا، نیز ان کا نام ’اِبرام‘ کے بجائے ’ابراہیم‘ قرار دیا۔ابراہیم کا پہلا جزو ’اِب‘ عربی کا ’اَب‘ ہے، جس کے معنی ’باپ‘ ہیں اور ’راہیم‘ کلدانی زبان میں جمہور یا عوام کو کہتے ہیں، گویا ابراہیم کے معنی لوگوں کا باپ ہوئے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم ’ابٌ راحمٌ‘ رحم کرنے والا باپ کی بدلی ہوئی شکل ہے، اس صورت میں دونوں جزو عربی ہوں گے۔

آپؑ کے والد یا چچا کا نام تارح یا آزر تھا، آپؑ کی قوم ’صابی‘ یعنی ستارہ پرست تھی، مگر آپؑ کی فطرتِ سلیمہ نے بچپن ہی میں صائبیت۔۔۔جو کہ بُت پرستی ہی کی ایک شکل تھی۔۔۔سے انکار کر دیا اور ہر قسم کی ترغیب و ترہیب سے بے پروا ہو کر اعلان کر دیا کہ میں نے تو ہر طرف سے کٹ کر زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کی طرف اپنا رُخ کر لیاہے، میں مشرکوں میں شامل نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے کہ انبیاء کرامؑ معصوم ہوتے ہیں اور ان کی یہ عصمت ان سے پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی جُدا نہیں ہوتی۔حق پرستی کے جُرم میں بادشاہِ وقت نے آپؑ کو آگ میں ڈال دیا، مگر بحکمِ الٰہی وہ آگ آپ کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔

اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو کر آپؑ نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی، شام سے آپؑ اپنی بیوی سارہ کو ساتھ لے کر بغرضِ تبلیغ مصر گئے، مصر سے پھر شام لوٹ آئے اور وہیں قیام فرمایا۔ شام کے قیام کے زمانے میں جب کہ آپؑ بوڑھے ہو گئے تھے، حضرت ہاجرہؑ جو کہ آپ کی بیوی حضرت سارہؑ کی باندی تھیں اور جنھیں اُنھوں نے آپؑ کو ہبہ کر دیا تھا اور آپؑ نے ان سے نکاح کر لیا تھا، ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے، پھر کچھ مدت کے بعدحضرت سارہؑ کے بطن سے حضرت اسحاقؑ کی ولادت ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ بہ حکمِ خداوندی اپنے پہلے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہؑ کے ساتھ حجاز کے اس چٹیل میدان میں چھوڑ آئے، جو یمن سے شام جانے والے قافلوں کی گزر گاہ تھی۔ اُن کی بھوک و پیاس دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وہاں زم زم کا چشمہ جاری کیا، اس چشمے کی وجہ سے جُرہم کے قبیلے نے وہاں سکونت اختیار کی اور شہرِ مکہ کی آبادی کی بنیاد پڑ گئی۔

حضرت ابراہیم ؑ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بچےکو دیکھنے کے لیے مکہ آتے اور اس شہر کی آبادی اور اس کے باشندوں کی دینی و دنیوی خوش حالی کی دعا فرماتے رہتے تھے۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کچھ بڑ ے ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اُن کی مدد سے خدا کے مقدس گھر ’کعبہ‘ کو تعمیر کیا، پھر حضرت اسماعیل ؑ ہی اس کے امام و متولی قرار پائے۔حضرت اسماعیل ؑ کا نکاح خاندانِ جرہم ہی میں ہوا تھا، آپؑ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور انھیں کی ایک شاخ ’قریش‘ کہلائی اور قریش کے سب سے زیادہ معزز گھرانے بنو ہاشم میں خدا کے آخری نبی محمد ہاشمیﷺ پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دوسرے صاحب زادے حضرت اسحاقؑ ملکِ شام ہی میں رہے، ان کی نسل سے بہت سے نبی پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوبؑ ان ہی کے بیٹے تھے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، اسی لیے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔

حضرت ابراہیم علیہ و علیٰ نبینا الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی خدا پرستی، حق گوئی اور فدا کاری کا بہترین نمونہ ہے، اسی لیے قرآنِ کریم میں انھیں  (حنیفاً مسلماً ) سب طرف سے کٹ کر خدا کا ہو جانے والا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینے والا جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور اسلام کو ملّتِ ابراہیم ؑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔آپؑ اپنے فضائل میں حضورِ اکرم حضرت محمد ﷺ کے بعد سب انبیائے کرامؑ سے ممتاز ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی یوں تو ابتلا و آزمائش سے گھری رہی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مقربین کا یوں ہی امتحان لیا جاتا ہے تاکہ کوئی نِرا دعویٰ نہ کر سکے لیکن ان آزمائشوں میں حضرت ابراہیم ؑ ہرقدم پر تسلیم و رضا کا پیکر بنے رہے، جس کے نتیجے میں خیرِ اُمم کو بھی اس برگزیدہ ہستی کے اتباع کا حکم دیا گیا۔حضرت ابراہیم ؑ کو بچپن ہی میں جب بادشاہِ وقت نے توحید کی بات پر جمے رہنے کے جُرم میں آگ میں ڈالا تھا، اس وقت بھی انھوں نے فرشتوں تک کی مدد لینے سے انکار کرکے صبر و استقامت کے ساتھ توحیدِ خالص کا ثبوت پیش کیا تھا، اس کے بعد بڑھاپے میں ملے ہوئے اکلوتے شیر خوار بیٹے اور نیک بیوی کو وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر مکمل تسلیم و رضا کا ثبوت فراہم کیا۔ اسی پر بس نہیں، جب وہ بیٹا قوتِ بازو بننے کے قابل ہوا تو خواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پاکر اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔حضرت ابراہیم ؑ کے یہ تمام واقعات اور خصوصاً بیٹے کی قربانی کا یہ واقعہ ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو بلا چوں و چرا مان لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر جبینِ نیاز خم کر دینا ہی مسلمان کا شیوع ہے اور ہر سال عید الاضحی و حج کے موقع پر اس خاندانِ خلیل اللہ کی ان عاشقانہ اداؤں کو دہرانے کا مقصد اسی جذبے کو موجزن کرنا ہے کہ کسی بھی حال میں اطاعت اور تسلیم و رضا کا دامن ہاتھ چھوٹنے نہ دیا جائے۔

معارف الحدیث میں ہے:

دس ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں امتِ مسلمہ کے موسّس ومورثِ اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر اپنے لختِ جگر سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق ومحبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ وسلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمالی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ’امامت‘کا تاج رکھ دیا اور ان کی اس نقل کو قیامت تک کے لیے ’رسمِ عاشقی‘ قرار دے دیا، پس اِس دن کو اُس عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت سے تہوار قرار دے دیا گیا، چوں کہ امتِ مسلمہ ملتِ ابراہیمی کی وارث اور اسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے، اس موقع پر یعنی دس ذی الحجہ میں پورے عالمِ اسلامی کا حج میں اجتماع اور اس کے مناسکِ حج میں قربانی وغیرہ اس واقعے کی گویا اصل واول درجے کی یادگار ہیں اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عید الاضحی کی تقریبات؛ نماز وقربانی وغیرہ اس کی گویا نقل اور دوم درجے کی یادگار ہیں، انھیں وجوہات کی بنا پر اس دن کو ’یوم العید‘ یعنی عید کا دن کہتے ہیں۔

آگے ہم قرآنِ کریم کی سورۂ صافات کی آیاتِ مبارکہ(۹۹تا ۱۰۷) کے حوالے سے قربانی کا پورا واقعہ پیش کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نصیحت لینے والابنائے، آمین۔

ارشادِ ربانی ہے:

وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ۔

اور ابراہیم ؑنے کہا کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں۔

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ آپؑ کے وطن میں آپ کے بھانجے حضرت لوطؑ کے سوا کوئی اور آپ ؑ پر ایمان لانے والا نہیں تھا اور یہاں رب کی طرف جانے سے مراد دارالکفر کو ترک کرکے کسی ایسے مقام پر جانا ہے، جہاں حقیقی رب کی عبادت سے روکنے والا کوئی نہ ہو۔اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھانجے حضرت لوطؑ کے ساتھ عراق کے مختلف مقامات کا سفر طے کیا اور باالآخر شام میں سکونت اختیار کی، اس وقت تک آپؑ کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لیے آپؑ نے دعا فرمائی؛

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ  الصّٰلِحِیْنَ۔

اے میرے رب! مجھے کوئی نیک بیٹا عطا فرما۔

چناں چہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کو ایک نیک فرزند کی خوش خبری سنائی گئی، جیسا کہ ارشاد ہے؛

فَبَشَّرْنٰہُ  بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ۔

پس ہم نے انھیں ایک حلیم المزاج بیٹے کی خوش خبری دی۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے بیٹے کی آپؑ کو بشارت سنائی، جو کہ حلیم المزاج و صاحبِ برداشت ہو اور حلیم بھی اس درجے کا کہ باپ نے اپنے خواب سناکر خود انھیں ذبح کرنے پر مشورہ کیا تو انھوں نے نہایت متانت کے ساتھ اس عظیم ترین امتحان کے لیے خود کو پیش کر دیا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

فَلَمَّا  بَلَغَ  مَعَہُ السَّعْیَ  قَالَ  ٰیبُنَیَّ  اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ۔

پس جب وہ (بیٹا اس عمر کو) پہنچا کہ ان کے ساتھ دوڑنے لگے، تو (حضرت ابراہیم ؑنے اس سے) کہا؛ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کرتا ہوں۔

 بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ خلیل ؑ نے یہ خواب تین راتوں تک مسلسل دیکھا اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ حضراتِ انبیاء کرامؑ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس طرح حضرتِ خلیل ؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔نیز خواب کے ذریعے اس حکم کے نازل ہونے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ خلیل ؑ کی آزمائش تام ہواور باوجود تاویلات کی گنجائش کے حضرت خلیل ؑ اس پر سرِ تسلیم خم کر دیں، جو مزاجِ یار میں آئے۔

متذکرہ آیت میں فَلَمَّا  بَلَغَ  مَعَہُ السَّعْی کہہ کر حضرت ابراہیم ؑ کی مشکلوں کی طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ بڑھاپے کی اکلوتی اولاد جب ایسی عمر کو پہنچ گئی، جب کہ وہ اپنے باپ کی قوّتِ بازو بنے، اس وقت کہا جا رہا ہے کہ اسے ہمارے حکم و اشارہ پا کر قربان کر دو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا خواب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتلایا اور ارشاد فرمایا؛

فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی۔

تو تم دیکھوتمھارا کیا خیال ہے؟

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت اسماعیل ؑ کو بھی آزمانا چاہتے تھے کہ دیکھیں ابن خلیل کیا جواب دیتا ہے؟ظاہر ہے کہ جس کا والد خلیل اللہ ہو اس کا فرزند بھی ذبیح اللہ ہی ہوگا، نیز اس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو بھی حکمِ الٰہی کی تکمیل میں اپنا شریک کر لیاورنہ عین ممکن تھا کہ ایسا نہ کیا جاتا تو آگے کا مرحلہ باپ بیٹے، دونوں کے لیے مزید دشوار ہوتا،اب بیٹے نے بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے حامی بھر دی اور ظاہر ہے کہ جسے خود آگے چل کر منصبِ نبوت پر فائز ہونا تھا، اس کا وہی جواب ہو سکتا تھاجو کہ حضرت ذبیح اللہ نے دیا؛

 قَالَ یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ۔

انھوں نے کہا؛ اے ابّا! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، آپ اسے کر گزریے۔

دیکھیے حضرت اسماعیل ؑ میں سپاس گزاری اور ذہانت وغیرہ کی صفات کس درجے موجود تھیںکہ انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کے خواب سنانے پرجواباً اسے اللہ کے حکم سے تعبیر کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر کامل رضا کا اظہار کیا اور اپنے والدِ بزرگوار کو اطمینان دلایا کہ

سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَاءَ  اللہُ مِنَ  الصّٰبِرِیْنَ۔

اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

اس جواب میں اوّل تو انھوں نے ادب کے ساتھ ’ان شاء اللہ‘ کا استعمال کیا، دوسرے خود کو اس عظیم ترین آزمائش پر صبر کرنے والا کہنے کے بجائے تواضع و انکساری کے ساتھ عرض کیا کہ جیسے اللہ کے اور بہت سے بندے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، آپ انھیں میں مجھے بھی شامل پائیں گے۔ اس میں خود پسندی کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود نہیں اور یہی اللہ کے نیک بندوں کی شان ہوتی ہے۔

فَلَمَّآ  اَسْلَمَا۔

پس جب وہ دونوں جھک گئے (اللہ کے حکم کے آگے، اس لیے کہ اَسْلَمَکے صحیح معنی جھک جانا ہی ہیں)۔

یعنی جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے پر کمر کس لی۔۔۔یہاں یہ جو ارشاد ہوا (لَمَّآ) یعنی ’جب‘ آگے اس کا جواب یعنی ’تب‘ کیا ہوا کا ذکر نہیں، جس سے یہ بتلانا اور جتلانا مقصود ہے کہ ان دونوں باپ بیٹے کا یہ معاملہ اس قدر محیر العقول اور حیرت انگیز ہے، جس کو الفاظ کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔

الغرض! جب ان دونوں میں سے ایک نے اللہ کے لیے ذبح ہونے کا اور دوسرے نے ذبح کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا، تو بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ اللہ کے خلیل ؑ کو بہکانے کی کوشش کی، جس پر انھوں نے ہر مرتبہ اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا اور آج تک لاکھوں مسلمان ہر سال اسی یاد کو تازہ کرتے ہوئے حج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں۔

وَتَلَّہٗ  لِلْجَبِیْنِ۔

اور (باپ نے بیٹے کو) پیشانی کے بَل لٹا دیا۔

حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ اس طرح کروٹ کے بَل لٹایا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین سے لگ گیا اور لغت کے اعتبار سے یہی تفسیر راجح ہے، اس لیے کہ عربی زبان میں پیشانی کی دونوں کروٹوں کو جبین اورپیشانی کے درمیانی حصّے کو جبہہ کہتے ہیں۔اس کے بعد حضرت خلیل اللہ نے نبوّت کا پورا زور ڈال کراور چھری تیز کرکے اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دوسری طرح چھری کو یہ اجازت نہ تھی کہ اسماعیل ؑ کا ایک رونگٹا بھی کاٹے، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل ؑ اور چُھری کے درمیان پیتل کا ایک ٹکڑا حائل کر دیااور یہ باپ بیٹے یوں ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے میں مشغول تھے، یہاں تک کہ

وَنَادَیْنٰہُاَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ۔

اور ہم نے انھیں پُکارا؛ اے ابراہیم!

حضرت ابراہیم ؑ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حضرت جبرئیل ؑ ایک مینڈھا لیے کھڑے ہیں، جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت آدمؑ کے بیٹے ہابیلؓ نے پیش کی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ سے وہ مینڈھا ذبح کروایا گیا اور ارشاد ہوا؛

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا۔

تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔

اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اس حکم کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، اس لیے ایسا کہا گیا اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خواب میں حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا نہ کہ انھیں پورے طور پر ذبح ہوتے ہوئے، جیسا کہ آیتِ مبارکہ کے ظاہر الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اس کے بعد اس عظیم ترین امتحان کا نتیجہ بھی یوں ظاہر کیا گیا؛

اِنَّاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔ اِنَّ  ھٰذَا  لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا  الْمُبِیْنُ۔

ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، بے شک! یہ صریح آزمائش تھی۔

واقعی ان باپ بیٹوں کا اپنے تمام تر جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا، اس سے بڑی اور کیا آزمائش ہو سکتی ہے، پھر وہ تو اس بات کو جانتے بھی نہ تھے کہ عین موقع پر اللہ تعالیٰ بیٹے کی جگہ جانور کو فدیہ بنا دیں گےلیکن ارشادِ ربانی ہوا؛

 وَفَدَیْنٰہُ  بِذِبْحٍ  عَظِیْمٍ۔

اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔

اس ذبیحے کو عظیم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھیجا گیا تھا۔

یہ ہے قربانی کا وہ واقعہ جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی مبارک زندگی میں پیش آیا اور ان دونوں نے برضا و رغبت اس عظیم ترین امتحان میں کامیابی حاصل کر رہتی دنیا تک کے لیے یہ معیار قائم کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے میں اپنی جان اور جاں سے زیادہ عزیز کسی شئے کی بھی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here