پروویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ کے بعض مسائل

پروویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ کے بعض مسائل

ز ۝۱سرکاری ملازم کے پراویڈنٹ فنڈ کے نام سے جو پیسے سرکاری تجوری میں جمع ہوتے ہیں، اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟(پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ملازم اپنے اختیار سے جب چاہے نکال نہیں سکتا)۝۲پراویڈنٹ فنڈ دو قسم کا ہوتا ہے: ایک فرضیات، دوسرا مرضیات۔ فرضیات فنڈ تنخواہ پر ا ؍سے ۱۰؍ فی صد تک ہوتا ہے، وہ جمع کرنا ہر ملازم پر ضروری ہوتا ہے۔ دوسرا مرضیات فنڈ یعنی اپنی مرضی سے ہرماہ جتنی چاہے رقم اس فنڈ میں جمع کروائے، تو وہ رقم بھی اسی پراویڈنٹ میںجمع ہوجاتی ہے اور اس کو بھی ملازم اپنی مرضی سے جب چاہے نکال نہیں سکتا۔ تو اسی فرضیات فنڈ کے علاوہ مزید جمع کی گئی رقم پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟۝۳پراویڈنٹ فنڈ کی جمع کی ہوئی رقم پر دو قسم سے سود ملتا ہے:۱) ملازم اگر سرکاری ہے تو اس کو ہر سال کی جمع رقم ۱۰؍ پر سے ۱۲؍ فی صد سود جمع کیا جاتا ہے۔۲) اور اگر ملازم غیرسرکاری یعنی کسی فیکٹری یا پرائیویٹ کمپنی کا ہے، تو جتنی رقم فنڈ میں ملازم کی ہے، اتنی ہی رقم کمپنی اپنی طرف سے ملازم کے فنڈ میں جمع کرائے گی اور دونوں رقمیں مل کر جمع ہوئی رقم پر سرکار سے چھ فی صد سود جمع کرے گی، ان دونوں صورتوں میں سود کی جمع رقم ملازمت ختم ہونے سے ملازم کے قبضے میں آتی ہے، ایسی سود کی رقم حرام یا حلال؟۝۴پراویڈنٹ فنڈ کی جمع رقم جو سرکاری ملازم کو ملازمت کے ۱۵- ۲۰ سال پورے ہونے پر اور ملازمت کے ختم ہونے پر نقد ملتی ہے، تو تب یہ نقدی رقم ملنے پر رقم کی زکوۃ ادا کرنی ضروری ہے یا نہیں؟۝۵بہت سے ملازمین انکم ٹیکس معاف ہوجانے یا گھٹانے کی غرض سے مجبوراً پراویڈنٹ فنڈ میں زیادہ رقم جمع کرادیتے ہیں، اور اس زیادہ رقم پر بھی سود ملتا ہے اور رقم بھی اچھی خاصی جمع ہوجاتی ہے، توایسی مجبوری سے جمع کی گئی رقم جو انکم ٹیکس کوبچانے کے لیے جمع کرائی ہے، اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟۝۶انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے پراویڈنٹ فنڈ میں زیادہ رقم جمع کرنے کے بعد بھی اگر انکم ٹیکس سے راحت نہیں ہوتی، تو بیمہ پالیسی خریدنی پڑتی ہے، اور بیمہ (انشورنس) میں رقمیں بھرنی ہوتی ہے، ایسی مجبوری میں انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے بیموں میں ڈالی گئی رقم پر بھی سود اور دیگر منافع حاصل ہوتے ہیں، ایسی حالت میں سودی کاروبار کی لعنت کا مصداق ہوگا یانہیں؟ ۝۷کوئی سرکاری ملازم جس کے پاس اپنے خود کا مکان نہیں ہے وہ اپنے پراویڈنٹ فنڈ یا بیمہ پالیسی سے لون لے کر مکان بنانا یاخریدنا چاہتا ہے، ایسی لون کی ادائیگی کے ہفتے کی رقم ہر مہینہ متعین ہوتی ہے جو ۱۵- ۲۰ سال تک ادا کرتا رہتا ہے، اور ایسے مہینوں کی رقم پر بھی انکم ٹیکس میں راحت ملتی ہے، تو کیا ایسے ملازم کو جس کا اپنا مکان نہیں لون لے کر اپنا مکان بنانا یا خریدنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

ل۝۱،۝۲تنخواہ سے جو رقم پراویڈنٹ فنڈ میں کاٹی جاتی ہے اور اس پر ماہ بہ ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے، پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ (بہ نام سود یا انٹرسٹ) ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب پر ان میں سے کسی رقم پر سالہا ئے گذشتہ کی زکوۃ واجب نہیں ہے۔ ہاں! وصول ہونے کے بعد سے ضابطے کے مطابق اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔ مگر صاحبین کے نزدیک یہ رقم وصول ہونے کے بعد سالہائے گذشتہ کی زکوۃ بھی واجب ہوگی، لہٰذا اگر کوئی شخص تقویٰ اور احتیاط پر عمل کرتے ہوئے سالہائے گذشتہ کی زکوۃ بھی دے دے،تو افضل اور بہتر ہے، نہ دے تو گناہ نہیں، کیوںکہ فتویٰ امام اعظم کے قول پر ہے۔فنڈ خواہ جبری ہو یا اختیاری، زکوۃ کے مسائل میں دونوں کے احکام یکساں ہیں۔یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ملازم نے اپنے فنڈ کی رقم اپنی ذمہ داری پر کسی دوسرے شخص یا کمپنی وغیرہ کی تحویل میں منتقل نہ کروادی ہو، اگر ایسا کیا یعنی اپنے فنڈ کی رقم اپنی طرف سے اپنی ذمہ داری پر کسی شخص یا بینک بیمہ کمپنی یاکسی اَور مستقل تجارتی کمپنی یا ملازمین کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ وغیرہ کی تحویل میں دلوادی، تو یہ ایسا ہے جیسے خود اپنے قبضے میں لے لی ہو، کیوںکہ اس طرح جس کمپنی وغیرہ کو یہ رقم منتقل ہوئی وہ اس ملازم کی وکیل ہوگئی اور وکیل کا قبضہ شرعاً مؤکل کے قبضے کے حکم میں ہے، لہٰذا جب سے یہ رقم اس کمپنی وغیرہ کی طرف منتقل ہوگئی اس وقت سے اس پر زکوۃ کے احکام جاری ہوجائیںگے اور ہر سال کی زکوۃ ضابطے کے مطابق واجب ہوتی رہے گی۔ (ضمیمہ پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ ص:۲۶،۲۷)۝۳ جبری پروویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بہ ماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہر ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے، پھر مجموعے پر جو رقم سالانہ بہ نام سود جمع کرتا ہے، شرعاً ان تینوں رقموں کا حکم ایک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب رقمیں درحقیقت تنخواہ ہی کا حصہ ہیں، اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائے،لہٰذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لاناجائز ہے،ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاً سود نہیںالبتہ پروویڈنٹ فنڈ میں رقم اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس پر جو رقم محکمہ بہ نام سود دے گا، اس سے اجتناب کیا جاوے کیوںکہ اس میں تشبہ بالربا بھی ہے اور سود خوری کا ذریعہ بنالینے کا خطرہ بھی۔ اس لیے خواہ وصول ہی نہ کرے یا وصول کرکے صدقہ کردے۔یہ حکم اس وقت ہے جب کہ پروویڈنٹ فنڈ کی رقم ملازم نے اپنی طرف سے کسی شخص یا کمپنی وغیرہ کی تحویل میں نہ دلوائی ہو، بلکہ محکمے نے اپنے تصرف میں رکھی ہو، یا کسی شخص یا کمپنی وغیرہ کو دی ہو تو اپنے طور سے اپنی ذمہ داری پر دی ہو اور اگر ملازم نے اپنی ذمہ داری پر یہ رقم کسی شخص یا بینک یا بیمہ کمپنی یا کسی اَور مستقل کمیٹی مثلاً ملازمین کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ وغیرہ کی تحویل میں دلوادی، تو یہ ایسا ہے جیسے خود وصول کرکے اس کی تحویل میں دی ہو۔ اب اگر بینک یا کمپنی وغیرہ اس رقم پر کچھ سود دیں تو یہ شرعاً بھی سود ہی ہوگا، جس کا لینا ملازم کے لیے قطعاً حرام ہے، فنڈ خواہ جبری ہو یا اختیاری۔(ایضاً ص:۲۵،۲۶)۝۴جواب نمبر ۱،۲ دیکھ لیں ۝۵جواب نمبر ۱،۲ دیکھ لیں۝۶اس نے انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے جو بیمہ پالیسی خریدی اپنے اختیار سے خریدی ہے، اس لیے سودی معاملے کی وعیدیں اس پر لاگوہوںگی۝۷پروویڈنٹ فنڈ کی رقم اس کا حق ہے، اس کو مکان بنانے کے لیے بہ طور قرض لے سکتا ہے۔٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here