اجتماعی اعتکاف کا ثبوت اور اس کے فوائد
ندیم احمد انصری
اجتماعی اعتکاف یعنی اس طرح اعتکاف کرنا کہ کسی عالم یا شیخ کی تربیت و نگرانی میں نیک اعمال انجام دیے جائیں اور اس کی صحبت سے فیض یاب ہوا جائے، جائز اور احادیث سے ثابت ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص شریعت و سنت سے باخبر ہو، تاکہ خیر کے بجائے شر اور سنت کے بجائے بدعت کا عادی نہ بنائے۔ ورنہ ایسے نظارے بھی دیکھے گئے ہیں کہ اعتکاف کرنے والوں نے از خود اس عظیم الشان سنت کو ادا کرنے کی ٹھانی تو نیکی کے مستحق ہونے کے بجائے جہالت یا سادگی کے سبب اعتکاف کی قضا باقی رہ جانے کا گناہ سروں پر لیے ہوئے لوٹے، جس کا انھیں علم تھا اور نہ احساس۔ یہی عمل وہ اگر کسی صاحبِ علم کی صحبت میں رہ کر کرتے تو یقیناً انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا اور ان کا اعتکاف بھی درست ہوتا۔
اسی لیے رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ۔
ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ابوداود)
اس میں کلام نہیں کہ اعتکاف کا مقصد برائیوں سے اجتناب، خلوت نشینی اور نفس کی اصلاح ہے، لیکن کیا یہ سب چیزیں صالحین بلکہ مصلح کی صحبت کے بغیر بار آور ہو سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔
بخاری و مسلم میں ہے، حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں: میں (ایک روز) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ فلاں درخت کی طرف کیوں نہیں چلتے، تاکہ ہم ذکر و تذکرہ کریں، پس وہ نکلے، ابوسلمہ کہتے ہیں؛ میں نے کہا کہ مجھ سے بیان کیجیے کہ حضرت نبی کریمﷺ سے آپ نے شبِ قدر کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ وہ بولے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم لوگوں نے بھی آپ کے ہم راہ اعتکاف کیا، اس عرصے میں جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے یعنی شبِ قدر اس عشرے کے آگے ہے، لہٰذا آپ نے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرمایا اور ہم نے بھی آپ کے ہم راہ اعتکاف کیا، پھر جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے وہ اس عشرے کے آگے ہے، پس بیسویں رمضان کی صبح کو آپ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور فرمایا حضرت نبی کریمﷺ کے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ پھر کرے، کیوں کہ میں نے شب قدر کو دیکھ لیا لیکن میں اسے بھول گیا اور اب صرف اتنا یاد ہے کہ وہ آخری عشرے میں طاق رات ہے اور میں نے خواب میں یہ دیکھا کہ گویا میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں، اس وقت تک مسجد کی چھت چھوہارے کی شاخ سے بنی تھی اور اس وقت ہم آسمان میں کوئی چیز ابر وغیرہ نہ دیکھتے تھے، اتنے میں ایک ٹکڑا بادل کا آیا اور ہم پر پانی برسا تو نبیﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ میں نے کیچڑ کا نشان رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر اور آپ کی ناک پر دیکھا، یہ آپ ﷺ کے خواب کی تصدیق تھی۔ (بخاری ، مسلم)
اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ اجتماعی اعتکاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ رسولِ خدا اس میں اپنے اصحاب کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہوں گے۔
جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺنے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے، لہٰذا کوئی دوسرے کو ایذا نہ دے اور نہ اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلے میں بلند کرے، یا یہ فرمایا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلے میں نماز کے اندر بلند نہ کرے۔ (ابوداود )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرامؓکی ایک جماعت کے ساتھ پورے ماہ کا اعتکاف فرمایا ہے، جس میں ابتداء ً دس یوم کی نیت فرمائی ،بعدہ عشرۂ وسطیٰ کی نیت فرمائی ،پھر جب کسی مخبرِ غیبی نے بتلایا کہ شبِ قدر اخیر عشرے میں ہے تو آپ ﷺنے عشرۂ اخیرہ کی نیت فرمائی ۔اس لیے آج بھی کوئی شخص پورے ماہ کا اعتکاف کرنا چاہے اور ساتھ میں معتکفین کی ایک جماعت بھی ہو تو(اس طرح کرنا) عین سنتِ نبوی ہوگی،نیز حضور اقدسﷺ کا (اپنے) ساتھیوں کو ترغیب دے کر اعتکاف کروانا بھی اس جملے سے معلوم ہوتا ہے: فمن کان اعتکف معی فلیعتکف العشر الاواخر یعنی جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، اس کو چاہیےکہ عشرۂ اخیرہ کا بھی اعتکاف کرے ۔ اس طریقے کے سنت ہونے میں شبہ کرنا یا بدعت وغیرہ کے جملے سے یاد کرنا بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسی چیز کا انکار ہے جس کا ثبوت بخاری و مسلم کی صحیح حدیث سے ہے ۔
نیز بعض اکابرِ امت کا بھی اس پر عمل رہا ہے ،چناں چہ مسندِ ہند، مجددِ وقت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلو یؒ کے متعلق آپ کے سوانح نگار ’الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ‘ میں رقم طراز ہیں:یعنی اس زمانے میں بہت سے بزرگ اور بہت سے اولیاء والد ماجد کے دوستوں میں سے مسجد میں معتکف ہوتے تھے ۔
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ (مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند) نے بھی اجتماعی اعتکاف پر نکیر نہیں کی، بلکہ تائید فرمائی ہے۔(دیکھیے ملفوظات فقیہ الامت)
بس یہ عمل محض رسمی نہ ہو،بلکہ دینی فوائد پر مشتمل ہو۔ اجتماعی اعتکاف جب کہ اصول کی پابندی کے ساتھ ہو تو انفرادی اعتکاف سے افضل ہوسکتا ہے، اس لیے کہ انفرادی اعتکاف میں انسان آخر کب تک عبادت کرتا رہے گا، جب کہ اجتماعی اعتکاف میں بعض وقتی معمولات کے ذریعے سیکھنا سکھانا بھی جاری رہتا ہے اور ذکر و اذکار بھی۔ ورنہ تو آدمی کچھ دیر عبادتیں کر کے خاموش بیٹھ جایا کرتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
أما أن لا تکلم أحداً فلعمري! لأن تکلم بمعروف وتنهي عن منکر خير من أن تسکت۔
جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمھارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔(مسند احمد،معجم کبیر طبرانی)
علمِ دین سیکھنا سکھانا اور تعلیم و تعلّم کا شغل رکھنا جس طرح غیر اعتکاف میں درست ہے، اسی طرح اعتکاف میں بھی درست ہے۔البتہ جو تنہائی میں اس سنت پر عمل کرنا چاہے ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں، جیسا کہ علامہ ابن رشدؒ لکھتے ہیں:
فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال : لا يجوز للمعتکف إلا الصلة والقراء ة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها أجاز له غير ذلک۔
جس نے اعتکاف کے معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا، اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا، اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔(بدایۃ المجتہد)
اس سب کے بعد بھی جو لوگ اجتماعی اعتکاف پر نکیر کرتے ہیں ان کا قول بلا دلیل ہے، جب کہ امام شافعیؒ کا فرمان ہے:
ولا بأس أن يشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما أحب ما لم يکن إثم۔
معتکف کے لیے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سی لینے، علما کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔ (کتاب الام)
اور علامہ کاسانیؒ کا ارشاد ہے:
ولا بأس للمعتکف أن يبيع ويشتري ويتزوج ويراجع ويلبس ويتطيب ويدهن ويأکل ويشرب بعد غروب الشمس إلی طلوع الفجر ويتحدث ما بدا له بعد أن لا يکون مأثما وينام في المسجد۔
معتکف کے لیے غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک خرید و فروخت ، نکاح، مراجعت کرنے، لباس وغیرہ تبدیل کرنے، خوشبو اور تیل لگانے، کھانے پینے اور ایسی گفتگو کرنے میں جس میں کوئی گناہ کی بات شامل نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔(بدائع الصنائع، المجموع)
خلاصہ یہ کہ کوئی اہلِ علم یا شیخ اپنے متعلقین کے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کرتا ہے تو یہ حدیث سے ثابت ہے، اس لیے کہ نبی کریمﷺ اہتمام کے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے اور آپ کے ساتھ صحابۂ کرام کی ایک بڑی تعداد اعتکاف میں شرکت فرماتی تھی، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ پہلے اور دوسرے عشرے میں لیلۃ القدر کا نہ ہونا متعین ہو جانے کے بعد آپ نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ جو لوگ پہلے میرے ساتھ اعتکاف کر چکے ہیں، وہ اب چاہیں تو میرے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کر لیں۔ فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہندحضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، محدث العصر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا عبد الرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ وغیرہ تمام اکابرین کا عمل رمضان کے آخری عشرے میں اپنے متعلقین کے ساتھ اعتکاف کرنے کا تھا۔(مستفاد از فتاویٰ قاسمیہ) یعنی اگر بلا تداعی اعتکاف میں اجتماع کی شکل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر لوگوں کو مدعو کرکے اجتماع کرنا یا باقاعدہ تشہیر کرانا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسی عبادت میں اخفا زیادہ مناسب ہے۔ اپنے یہاں معتکفین کی تعداد بڑھانے کے لیے باقاعدہ اعلان اور اشتہار چسپاں کرانا جس سے اعتکاف کا مقصود فوت ہو جائے، شریعت میں محمود نہیں بلکہ سخت ممنوع ہے، کیوں کہ یہ تداعی الی النوافل ہے، جو مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ اعلان کرانا کہ ہمارے یہاں قیام و طعام کا بھی نظم ہے تاکہ لوگ وہاں پہنچیں اور اعتکاف کریں، درست نہیں۔ (حوالہ سابق،ملخصاً)
یہ بھی یاد رہے منکر پر نکیر کرنا ثواب اور معروف پر نکیر کرنا گناہ ہے اوراصول کے ساتھ کیے گئے اجتماعی اعتکاف کا ثمرہ دیکھتے ہوئے ہی اکثر مشائخین نے اپنے منتسبین کے ساتھ اعتکاف کا معمول رکھا ہے، جس کے فوائد سے کوئی دانا و بینا انکار نہیں کر سکتا۔
وما توفیقی الا باللہ