امت محمدیہ کا وجود لوگوں کے فایدے کے لیے

امتِ محمدیہ کا وجود لوگوں کے فایدے کے لیے

مولانا ندیم احمد انصاری

کہتے ہیں کہ اس وقت اسلاموفوبیا کا مرض بہت شدت کے ساتھ پاؤں پسار رہا ہے۔ اس کی بڑی یہ ہے کہ دعوت اور امر بالموروف و نہی عن المنکر کا جو فریضہ اس امت پر عائد کیا گیا تھا، اس میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیا گیا ۔ حال یہ ہے کہ وہ امت جو دوسروں کے فایدے اور ہدایت کے لیے بھیجی گئی تھی، خود اس کو دعوت کی شدید ضرورت ہے۔ نئی نسل پر اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی محنت نہ کی گئی، تو یہ نام کے مسلمان ہی اسلام کے لیے بدنامی کا سبب بن کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

اس وقت خصوصیت یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ امتِ محمدیہ کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے، ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر اصل مقصد ہی سے غافل ہو جائیں۔ درجِ ذیل آیت میں ہمارا سبق یاد دلاتے ہوئے ،اس امت کی فضیلت کا سبب بھی نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۔ (مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فایدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(آل عمران)

امت محمدیہ کی امتیازی صفات

اس آیت شریفہ میں امت محمدیہ کو خَیْرَ اُمَّۃٍ فرمایا ہے اور اس امت کا نبی بھی خیر الانبیاء اور سید الانبیاء ہے۔ جس کا آیت:لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ  میں ذکر فرمایا ہے۔ نیز آں حضرت سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا: اَنَا سید ولد اٰدم یوم القیامۃ کہ میں قیامت کے دن آدم کی تمام اولاد کا سردار ہوں گا۔ (رواہ مسلم) اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں آدم کی تمام اولاد کا سردار ہوں گا اور بہ طور فخر کے نہیں کہہ رہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ہوں۔ اس دن آدم ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور نبی، سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، جس سے زمین پھٹے گی (یعنی قبر سے سب سے پہلےمَیں ظاہر ہوں گا)، اور میں بہ طور فخر نہیں کہہ رہا ہوں۔ (رواہ الترمذی)نیز رسول اللہ ﷺنے آیت:کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ کی تلاوت فرمائی، پھر فرمایا کہ تم سترویں (٧٠) امت کو پورا کر رہے ہو، تم سب امتوں سے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک سب امتوں سے بڑھ کر اکرم ہو۔ (رواہ الترمذی) اس امت کو خیر الامم بتاتے ہوئے اس کے اوصاف بھی بتا دیے اور وہ یہ کہ تم بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ معلوم ہوا کہ اس امت کا طرۂ امتیاز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، امت کا ہر فرد اس کام میں لگے، البتہ اس میں تفصیلات ہیں کہ کبھی فرضِ عین ہوتا ہے، کبھی فرضِ کفایہ، کبھی واجب اور کبھی سنت۔ (دیکھیے تفسیر انوار البیان)

اس آیت میں امتِ محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق اللہ کو نفع پہنچانے ہی کے لیے وجود میں آئی ہے اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے اور پچھلی سب امتوں سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل اس امت کے ذریعے ہوئی۔ اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پر عائد تھا، جس کی تفصیل احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہے، مگر اول تو پچھلی بہت سی امتوں میں جہاد کا حکم نہیں تھا، اس لیے ان کا امر بالمعروف صرف دل اور زبان سے ہوسکتا تھا، امتِ محمدیہ میں اس کا تیسرا درجہ ہاتھ کی قوت سے امر بالمعروف کا بھی ہے جس میں جہاد کی تمام اقسام بھی داخل ہیں اور بہ زورِ حکومتِ اسلامی قوانین کی تنفیذ بھی اس کا جزو ہے۔ اس کے علاوہ اممِ سابقہ میں جس طرح دین کے دوسرے شعائر، غفلت ِعام ہو کر محو ہوگئے تھے، اسی طرح فریضۂ امر بالمعروف بھی بالکل متروک ہوگیا تھااور اس امتِ محمدیہ کے متعلق آں حضرت ﷺ کی یہ پیش گوئی ہے کہ اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم رہے گی۔دوسری امتیازی صفت اس امت کی’تؤمنون باللہ‘ بیان فرمائی ہے۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ ایمان باللہ تو تمام انبیاے سابقین اور ان کی امتوں کا مشترک وصف ہے، پھر اس کو وجۂ امتیازی کس بنا پر قرار دیا؟ جواب واضح ہے کہ اصل ایمان تو سب میں مشترک ہے، مگر کمالِ ایمان کے درجات مختلف ہیں۔ ان میں امتِ محمدیہ کو جو درجہ حاصل ہے وہ سابقہ امتوں کے مقابلے میں خاص امتیاز رکھتا ہے۔(معارف القرآن)

معروف/ منکر/ دعوت

لفظ’ معروف‘، معرفہ سے اور منکر ’انکار‘ سے ماخوذ ہے۔ معرفہ کہتے ہیں کسی چیز کو غور وفکر کرکے سمجھنے یا پہچاننے کو، اس کے بالمقابل انکار کہتے ہیں نہ سمجھنے یا نہ پہچاننے کو۔ یہ دونوں لفظ متقابل سمجھے جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے :يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا۔(النحل) یعنی اللہ کی قدرتِ کاملہ کے مظاہر دیکھ کر اس کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں، مگر پھر ازروئے عناد انکار کرتے ہیں،گویا ان نعمتوں کو جانتے نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ لغوی معنی کے اعتبار سے معروف و منکر کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ معروف ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جس کا مستحسن یعنی اچھا ہونا عقل یا شرع سے پہچانا ہوا ہو، اور منکر ہر اس فعل کا نام ہے جو ازروئے عقل و شرع برا اور نہ پہچانا ہوا ہو، یعنی برا سمجھا جاتا ہو۔اس لیے امر بالمعروف کے معنی اچھے کام کی طرف بلانے کے اور نہی عن المنکر کے معنی برے کام سے روکنے کے ہوگئے۔ (معارف القرآن)

تبلیغ و دعوت کی مختلف صورتیں

قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل ہوں۔ (فصلت)یعنی مومنین کاملین صرف خود ہی اپنے ایمان و عمل پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں۔معلوم ہوا کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوتِ حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں۔ زبان سے، تحریر سے یا کسی عنوان سے۔(معارف القرآن)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم

ایک مقام پر ارشادِ ربانی ہے:ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ۔ پھر وہ ان لوگوں میں سے ہوا جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے۔ (البلد) اس آیت میں ایمان کے بعد مومن کا یہ فرض بتلایا گیا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرتا رہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل درآمد کروانا ہے اور رحمت سے مراد دوسروں کے حال پر رحم کھانا، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ان کی ایذا اور ان پر ظلم سے بچنا ہے۔(معارف القرآن، بتغیر)

سورۂ نصر میں مزید تاکید اس طرح فرمائی گئی:اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور بھلے کام کیےاور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی۔ (العصر)مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سورت نے مسلمانوں کو ایک بڑی ہدایت یہ دی کہ ان کا اپنے عمل کو قرآن و سنت کے تابع کرلینا جتنا اہم اور ضروری ہے، اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عملِ صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کریں، ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لیے کافی نہ ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال اور احباب و متعلقین کے اعمالِ سیسہ سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے، اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمالِ صالحہ کا پابند ہو۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی اپنی مقدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں، خود عمل کرنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، اولاد و عیال کچھ بھی کرتے رہیں اس کی فکر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت کی ہدایت پر عمل کی توفیق نصیب فرما دیں۔ (معارف القرآن)

(مضمون نگار الفلاح اسلامک فآنڈٰیشن، انڈیا کے محقق و ڈیرکٹر ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here