مفتی ندیم احمد انصاری
’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ ایک خاص اسلامی اصطلاح ہے، اس کے معنی لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہیں۔ قرآن و سنت میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ بے شمار آیات و روایات اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں۔ لاتعداد کتابیں اور مضامین اس موضوع پر مختلف زبانوں میں موجود ہیں، جس سے اس کی اہمیت ظاہر وباہرہے۔ہر زمانے میں علما و عوام مختلف طریقوں سے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے آرہے ہیں۔ مفسر کی تفسیر، محدث کی حدیث، متکلم کا علمِ کلام سے بحث کرنا، صوفی کا تصوف کے نکات سمجھانا، مجاہد کا جہاد کرنا، مدرس کا درس دینا، مصلح کا اصلاح کرنا، مصنف کی تصنیف، مقرر کی تقریر، مبلغ کی تبلیغ، داعی کی دعوت، مؤذن کی اذان، امام کی امامت، خطیب کی خطابت اور ایمان دار صحافی کی صحافت وغیرہ سب کچھ اس زمرے میں شامل ہیں۔امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا کوئی مخصوص و متعین طریقہ نہیں، اس کے لیے حسبِ ضرورت ہر مؤثر جائز طریقہ اپنانا فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ناگزیر ہے۔
لغوی تعریف
لغوی معنی کے اعتبار سے ’معروف‘ ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جس کا مستحسن یعنی اچھا ہونا عقل یا شرع سے پہچانا ہوا ہو، اور ’منکر‘ ہر اس فعل کا نام ہے جو ازروئے عقل و شرع برا اور نہ پہچانا ہوا ہو، یعنی برا سمجھا جاتا ہو۔اس لیے ’امر بالمعروف‘ کے معنی ’اچھے کام کی طرف بلانے‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کے معنی برے کام سے روکنے کے ہوگئے۔[معارف القرآن]
امتِ محمدیہ کے بہترین کہے جانے کی ایک وجہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امتِ محمدیہ کی فضیلت اور اس کا سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فایدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ [آلِ عمران]
امتِ محمدیہ کی ذمّےداری
امتِ محمدیہ کو اس کی ذمّےداری کا احساس دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: اور تمھارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ [آلِ عمران]
ایسے لوگوں کو صالحین میں شمار کیا گیا
امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو صالحین میں شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔ [آلِ عمران]
برائی کی تلقین کرنے اور بھلائی سے روکنے والے
امربالمعروف ونہی عن المنکر کے برخلاف برائی کی تلقین کرنے اور بھلائی سے روکنے والوں کو منافق کہا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی طرح کے ہیں، وہ برائی کی تلقین کرتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے، تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا۔ بلاشبہ یہ منافق بڑے نافرمان ہیں۔ [التوبۃ]
مومنین کے بعض اوصاف
امربالمعروف ونہی عن المنکر کو مومنین کے اوصاف میں شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قایم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماںبرداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقیناً اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ [التوبۃ]
حضرت لقمانؑ کی نصیحت
حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹوں کو جو قیمتی نصیحتیں کی تھیں من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ نیکی کی تلقین کی جائے اور برائی سے روکا جائے اور اس پر جو تکلیف برداشت کرنی پڑے اسے برداشت کیا جائے۔ سورۂ لقمان میں ہے:بیٹا ! نماز قایم کرو، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمھیں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرو، بےشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ [لقمان]
اپنی ذات کو بھول جانا کم عقلی کی نشانی
دوسروں کو امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ اپنی اصلاح کی بھی فکر کرتا رہے، غیر کی فکر میں اپنی ذات کو فراموش کر دینا کم عقلی کی نشانی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ حالاں کہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو ! کیا تمھیں اتنی بھی سمجھ نہیں ۔[البقرۃ]
سب سے کم درجے کا ایمان
امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے حتی المقدور سعی کرنا ہر ایک ایمان والے پر لازم ہے، زیادہ استطاعت ہوتے ہوئے کم پر اکتفا کرنا بھی جائز نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓکہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے، اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے بدل دے (یعنی دل میں اسے برا سمجھے)، یہ سب سے کم درجے کا ایمان ہے۔[مسلم]
ابنِ آدم کا ہر کلام وبال ہوگا
ام المومنین حضرت ام حبیبہؓفرماتی ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابنِ آدم کا ہر کلام اس پر وبال ہوگا اور کسی بات سے فایدہ نہ ہوگا سوائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ذکرِ الٰہی کے۔[ابن ماجہ]
امربالمعروف ونہی عن المنکر چھوڑنے کا وبال
ام المؤمنین حضرت عائشہؓفرماتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئےسنا: امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہو، قبل اس کے کہ تم دعائیں مانگوگے اور تمھاری دعائیں قبول نہیں کی جائیںگی۔[ابن ماجہ]
امربالمعروف ونہی عن المنکر چھوڑنے پر عذاب
حضرت حذیفہ بن یمانؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر عذاب بھیج دے اور تم اس سے دعائیں مانگو تو وہ قبول نہ کی جائیں۔[ترمذی]
امربالمعروف ونہی عن المنکر نہ کرنے والا
حضرت ابن عباسؓسے مرفوعاً مروی ہے: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ کرے۔[مجمع الزوائد]
امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہو
حضرت عبداللہ بن مسعودؓکہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : تمھاری مدد کی جائےگی، تمھیں مال و دولت عطا کیا جائے گا اور تمھارے ذریعے ممالک فتح ہوں گے، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانے کو پائے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اور جو شخص جان پوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔[ترمذی]
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی سخت تاکید
حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علما نے انھیں روکنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ باز نہیں آئے تو علما ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے لگے، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دل آپس میں ایک دوسرے سے ملا دیے۔ پھر حضرت داود علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان پر لعنت کی گئی، کیوں کہ وہ لوگ نافرمانی کرتے ہوئے حد سے گزر جاتے تھے۔ حضرت نبی کریم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے -پہلے تکیہ لگائے ہوئے تھے-اور ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت تک نجات نہیں پاؤ گے جب تک بدکاروں کو برائی سے روک نہ دو، ان کو بھلائی کی طرف موڑ نہ دو۔[ترمذی]