تلاوت قرآن مجید اور رمضان المبارک، ندیم احمد انصاری (اسلامی اسکالر و صحافی)
اللہ تعالیٰ نے تمام آسمانی کتابیںرمضان المبارک میں نازل فرمائی ہیںاور قرآنِ کریم بھی اسی ماہ میں نازل کیا گیا ۔ارشادِ ربانی ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن،اس لیے اس مہینے کو کلام اللہ شریف سے خاص مناسبت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت ماحول میں ہر مسلمان رات دن تلاوتِ کلام پاک میں منہمک نظر آتا ہے اورالحمد للہ صرف رمضان کے مہینے میں پوری دنیا میں جتنا قرآنِ کریم پڑھا جاتا ہے،شاید سال بھر میں(کُل ملاکر) اتنا نہ پڑھاجاتاہوگا۔تمام اہل اللہ کا تجربہ ہے کہ دل کی صفائی ،ایمانی کیفیت میں زیادتی اور انسان میں استقامت کی صفات پیدا کرنے میں سب سے زیادہ پُر اثر اور اہم ترین عمل ، قرآنِ کریم کی تلاوت ہے۔اس لیے وہ حضرات جنھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے، ان کی زندگی میں تلاوت میں اشتغال سب سے زیادہ نظر آتا ہے اور فطری طور پر رمضان المبارک آتے ہی یہ شوق روز افزوں ہوجاتا ہے،اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ تلاوتِ کلام پاک سے متعلق چند اہم باتیں عرض کر دی جائیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ فرماتے ہیں:
عموماً اللہ جل شانہ کی تمام کتابیں ،اسی ماہ (رمضان المبارک ) میں نازل ہوئی ہیں ۔چناں چہ قرآن پاک ،لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ،تمام کا تمام،اسی ماہ میں نازل ہوا اور وہاں سے حسب موقع تھوڑا تھوڑا ۲۳؍ سال کے عرصے میں نازل ہوا ۔ اس کی علاوہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کوصحیفے اسی ماہ کی ۱؍ یا ۳؍تاریخ کو عطا ہوئے اور حضرت داودعلیہ السلام کو زبور ۸؍یا ۱۲؍رمضان کو ملی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توریت ۶؍رمضان المبارک کو عطا ہوئی اور حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل ۱۲؍یا ۱۳ ؍رمضان کو ملی ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو کلام ِ الٰہی کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ اسی وجہ سے تلاوت کی کثرت اس مہینہ میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول۔(فضائل رمضان)
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صحفِ ابراہیم علیہ السلام رمضان کی تیسری تاریخ میں، تورات چھٹی تاریخ میں ،انجیل تیرھویں تاریخ میں، زبور اٹھارھویں تاریخ میںاور قرآنِ کریم چوبیس تاریخ میں نازل ہوا۔(الغنیۃ۔۸،مسنداحمد)
یہ قرآن کریم رسول اللہ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ارشادربانی ہے :یقیناً یہ آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔(سورہ زخرف : ۴۴) اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ قرآن کریم سے متعلق امت محمدیہ ﷺ سے سوال کیا جائے گا ۔ معلوم ہوا ہر مسلمان پر قرآن سے وابستہ چند حقوق ہیں ، جن کا ادا کرنا لازم و ضروری ہے، من جملہ ان کے قرآنِ کریم کی تلاوت بھی ہے۔
بعض لوگ تلاوتِ قرآنِ کریم کو معمولی اور بے فائدہ چیز سمجھتے ہیں ، جب کہ اس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر عظیم اجر وثوب کے وعدے ہیں، یہاں مختصراً عرض ہے ؛تلاوت قرآن سے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے :(اے پیغمبر!) جو کتاب تمھارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے ، اس کی تلاوت کرو۔(سورہ عنکبوت : ۴۵)ایک مقام پر ارشاد ہے :جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور جنھوں نے نماز کی پابندی رکھی ہے اور ہم نے انھیں جو رزق دیا ہے ، اُس میں سے وہ (نیک کاموں میں ) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں ، جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی، ان کے اعمال کا انھیں پورا اجر وثواب دیا جائے گا۔(سورہ فاطر : ۲۹) اسی لیے ہمارے اسلاف نے قرآنِ کریم کی تلاوت کو اپنے رات و دن کا مشغلہ اور اپنے دلوں کی بہار بنا لیا تھا لیکن امت رفتہ رفتہ اس عظیم نعمت سے محروم ہوتی جا رہی ہے ۔
تلاوت سے متعلق چندآداب
قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہے اور ظاہر ہے کلام الملوک ملوک الکلام ۔اس لیے اس کا نہایت احترام لازم ہے اور اس کی تلاوت کے بہت سے آداب ہیں۔ہم یہاں مختصراً چند کے ذکرپر اکتفا کرتے ہیں؛(۱)تلاوت میں اخلاص پیدا کرنا (۲)اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت وارادہ رکھنا اوراس کے علاوہ کوئی فاسد ارادہ ریا وغیرہ کا ہرگز نہ ہونا (۳)قرآنِ کریم کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ کرنا (۴)اپنے ذہن میں یہ استحضار رکھنا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مناجات و ہم کلامی میں مشغول ہے(۵)دل میں یہ سوچنا کہ ربِ کائنات کی عظیم کتاب کی تلاوت کر رہا ہوں،اس حال میں کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں(۶) اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہوتواتنا ہرگزفراموش نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں(٧) اپنے پاس موجود ، اچھالباس پہن کر تلاوت کرنا(٨) اگر ممکن ہوتو قبلہ رخ ہو کر تلاوت کرنا(٩) دل جمعی اورغور وفکر کے ساتھ کے ساتھ تلاوت کرنا(١٠) جنت وغیرہ سے متعلق آیات پر جنت کی طلب کرنا اور جہنم وغیرہ سے متعلق آیات پر اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہنا(١١) تلاوت سے قبل منہ کو مسواک اور کلی وغیرہ سے صاف کر لینا(١٢) حتی الامکان اچھی آواز سے تلاوت کرنا(١٣) ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا(١٤)(عام دنوں میں)تین دن سے کم میں پوراقرآن کریم ختم نہ کرنا(١٥) رمضان المبارک میں اوردِنوں سے زیادہ تلاوت کرنا۔(دیکھیے کتاب الأذکار:٨٦ ،ہندیۃ :٥ ؍ ٣١٦ ،شعب الایمان للبیہقی:٢؍ )
تلاوت قرآن سے متعلق چند فضائل
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛
٭ جس نے رات کے وقت میں دس آیتیں پڑھ لیں ، اسے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا۔(حاکم)
٭ جو شخص کسی رات میں دس آیتیں پڑھ لے ، اس کے لیے ایک قنطار لکھ دیا جاتا ہے اور(جانتے ہو قنطار کیا ہے ؟ ) قنطار دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے، ان سب سے بہتر ہے ۔( مجمع الزوائد )
٭(ہمیشہ ) قرآن پڑھنے والا ، بڑھاپے کے ضعف اور ناکارہ ہو جانے سے محفوظ رہے گا ۔( الترغیب والترہیب)
٭نماز میں قرآن کی تلاوت ؛ خارجِ نماز تلاوت سے افضل ہے اور خارجِ نماز میں قرآن کی تلاوت ؛ تسبیح و تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح ؛ صدقہ سے افضل ہے اور صدقہ؛روزہ سے افضل ہے ، اور روزہ ؛ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے ۔(کنز العمال)
٭تم لوگ اللہ تعالیٰ کا قُرب اس سے زیادہ کسی چیز سے حاصل نہیں کر سکتے ، جو خود اللہ تعالیٰ سے نکلی ہے ؛ یعنی ’قرآنِ کریم ۔‘( مستدرک حاکم)
٭قرآن ِ کریم کی تلاوت اور(مختلف طریقے سے ) اللہ کے ذکر کا اہتمام کیا کرو، ایسا کرنے سے آسمانوں میں تمھارا ذکر ہوگا اوریہ عمل زمین میں تمھارے لیے( ہدایت کا) نور ہوگا۔ (شعب الایمان)
ماہِ رمضان میں تلاوت کا ثواب
جیسا کہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ ماہِ رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابراور ایک فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملتا ہے یعنی جو عمل بھی ماہِ رمضان میں کیا جائے،وہ غیرِ رمضان کے عمل سے ستر گنازیادہ ہوتا ہے۔پس اگر کو ئی رمضان المبارک کے مہینے میں ایک حرف کی تلاوت کرے تو اسے اس کے بدلے سات سو نیکیاں ملیں گی اور اگر کوئی مسجدِ حرام میں اس مبارک مہینے میںایک حرف کی تلاوت کرے گا،اسے ستر لاکھ نیکیاں ملیں گی او رجو شخص پورا قرآن وہاں ختم کر لے،اس کا ثواب ۳۳کھرب،۸۵؍ارب اور ۱۸؍کروڑہوجائے گا۔(مستفادفضائلِ حفظِ قرآن)
ماضی بعید کے اکابرین کا معمول
حضرت سفیان ثوریؒ کے متعلق لکھا ہے کہ رمضان آتا تو موصوفؒ تمام نفلی عبادات سے الگ ہو کر تلاوتِ قرآنِ کریم میں مشغول ہو جاتے۔ (ص:۱؍۱۹۹)حضرت نخعیؒپورے رمضان میں ہر تین دن میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے اور آخری عشرے میں ہر رات میں ایک ختم فرماتے تھے۔(ص:۱؍۱۹۸)حضرت قتادہؒ عام دنوں میں ہر سات دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور رمضان المبارک میں ہر تین دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور آخری عشرے کی رات میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔(ص:۱؍۱۹۸)
ماضی قریب کے اکابرین کا معمول
یہ معمول صرف ماضی بعید کے اکابرین کا ہی نہیں تھا بلکہ ماضی قریب کی مایۂ ناز شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا علیہ الرحمہ کا برسہا برس یہی معمول رہا،بزبانِ خود فرماتے ہیں:’’۱۳۳۸ھ سے ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا،جوتقریباً ۱۳۸۰ھ تک رہا ہوگا بلکہ اس کے بھی بعد تک۔۔۔اللہ کے انعام وفضل سے سالہا سال یہی معمول رہا ،اخیر زمانے میں بیماریوں نے چھڑا دیا۔‘‘(آپ بیتی)
تلاوت کے لیے بہترین ایام
تلاوت کے لیے دنوںکے اعتبار سے جمعہ ،پیر اور جمعرات اور عرفہ کا دن اور عشرے کے اعتبار سے ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور رمضان کا آخری عشرہ اورمہینوں کے اعتبار سے رمضان المبارک کامہینہ سب سے افضل ہے۔(کتاب الأذکار)
تلاوت کا بہترین وقت
مغرب و عشاء کے درمیان بھی تلاوت پسندیدہ ہے۔دن کی تلاوت میں افضل ترین وقت نمازِ فجر کے بعد ہے،ویسے دن کے کسی بھی حصہ میں تلاوت بلا کراہت جائز ہے حتیٰ کہ جس وقت میں نماز کو منع کیا گیا ہے ،اس وقت میںبھی تلاوت بلا کراہت جائز و درست ہے۔(کتاب الأذکار)