روزے سے متعلق چند مسائل

روزے سے متعلق چندمسائل
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
بھول سے کھانا پینا
عن أَبي هريرة ؄عن النبيِّ ﷺقَالَ : إِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ ، فَأكَلَ ، أَوْ شَرِبَ ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ، فَإنَّمَا أطْعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ۔(ریاض الصالحین:۱۲۴۲)
حضرت ابوہریرہ؄سےمنقول ہےکہ نبیٔ کریمﷺنےارشاد فرمایا:تم میں کا کوئی آدمی بھول جائے کہ میراروزہ ہے،اوراس نے بھول سےکچھ کھاپی لیا؛تواپنا روزہ پورا کرلے( مطلب یہ ہےکہ بھول سے کھانے پینے کی وجہ سے روزہ نہیںٹوٹا) دراصل اللہ تعالیٰ نے اس کوکھلایااورپلایاہے۔
نوٹ:اگرکسی کے متعلق آپ کومعلوم ہے کہ اس کاروزہ ہے، اور آپ دیکھ رہےہیں کہ وہ بھول سے کھارہا ہے تو اس کویاد دلانا چاہیےیانہیں؟ تواگرکسی کے متعلق آپ کا یہ خیال ہے کہ وہ روزہ کی وجہ سے کمزور ہوچکا ہے،اس لیےیہ کچھ کھا لے توہی اچھا ہے، تو اس صورت میں آپ یاد نہ دلایئے،بلکہ اس کوکھالینے دیجئے، بعد میں اس سے کہہ دو کہ آپ کاروزہ ہے۔ اوراگر آپ کاخیال یہ ہے کہ اس کوروزہ کی وجہ سے کوئی کمزوری نہیں آئے گی تو شروع ہی میں بتادیجئے تا کہ وہ کھانے سے بچا رہے۔
بحالت ِ روزہ کلی اورناک میں پانی ڈالنا
عن لَقِيط بن صَبِرَةَ ؄قَالَ : قُلْتُ : يَا رسول الله، أخْبِرْني عَنِ الوُضُوءِ؟ قَالَ: أسْبغِ الوُضُوءَ ، وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ ، وَبَالِغْ في الاسْتِنْشَاقِ ، إِلاَّ أنْ تَكُونَ صَائِماً۔ (ریاض الصالحین:۱۲۴۳)
حضرت لقیط بن صبرہ؄سےمنقول ہے کہ میں نے نبیٔ کریمﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے وضو کے متعلق بتلایئے۔حضوراکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: وضوپورے طورپرکرو،اور انگلیوں کاخلال بھی کرو،اورناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ سے کام لو؛مگر یہ اس وقت جبکہ تم روزہ سے نہ ہو۔
اسباغ کامعنٰی ہے وضومیں تمام اعضاء کوآداب وسنن اور مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے پورے اطمینان سےاچھی طرح سے دھونا۔ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ سے کام لینایعنی جب ناک میںپانی چڑھاؤتو اچھی طرح سانس سےاندر کھینچو تاکہ ناک کابانسےاور نرم حصہ تک پانی پہنچ جائے،مگر یہ اس وقت جبکہ روزہ نہ ہو،اس لیے کہ روزہ کی حالت میں اگراتنا زیادہ کھینچوگےکہ پانی حلق تک پہنچ جائےتوروزہ ٹوٹ جائے گا۔اسی لیے لکھاہےکہ ویسے تو جنابت کےغسل میںغرغرہ کرنا چاہیے،لیکن روزہ کی حالت میں آدمی اگرغسل کرے تو غرغرہ نہ کرے۔
بحالت ِجنابت روزہ شروع کرنا
عن عائشة؅ قالت : كَانَ رسول اللهﷺ يُدْرِكُهُ الفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أهْلِهِ ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيَصُومُ ۔(ریاض الصالحین:۱۲۴۴)
حضرت عائشہ ؅ فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺکو فجر ایسی حالت میں پالیتی تھی کہ آپ کو غسل کی ضرورت ہوتی تھی( یعنی آپ اپنے اہل سے صحبت کئے ہوئے تھے) اس کے بعد آپ غسل کرتے تھے اورروزہ بھی رکھے ہوئےہوتے تھے۔
صحبت کے سلسلہ میں آپﷺ کامعمول یہ تھاکہ آپ رات کے آخری حصہ میں تہجد سے فارغ ہونے کے بعد صحبت کرتے تھے، اوروہی زیادہ نشاط کاوقت ہواکرتا ہے،پھر لیٹ جاتے تھے ،کبھی ایساہوتا تھا کہ صبحِ صادق ہوئی اورابھی غسل کرنا ہے تو آپ غسل کرتے تھے، اورآپ کاروزہ بھی رہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں غسل کی حاجت ہوگئی ،یا رات کا غسل باقی تھااورصبحِ صادق کے بعدوہ فرض غسل کیا، تو اس کی وجہ سے روزہ پرکوئی زد نہیںپڑے گی، روزہ اپنی جگہ صحیح ہوجائے گا۔
عن عائشة وأم سلمة ؆قالتا : كَانَ رسول الله ﷺ يُصْبحُ جُنُباً مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ ، ثُمَّ يَصُومُ۔ (ریاض الصالحین: ۱۲۴۵)
حضرت عائشہ اورحضرت امِّ سلمہ؆ فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریمﷺ بغیراحتلام کےجنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے،پھرروزہ بھی رکھتے تھے۔
بغیر احتلام کامطلب یہ ہےکہ اپنی بیویوں کےساتھ صحبت کے نتیجہ میںآپﷺ کو غسل کی ضرورت پیش آتی تھی اورصبح ہوجاتی تھی توپھر آپﷺ غسل فرماتے تھےاورروزہ بھی رکھتے تھے،معلوم ہواکہ جس کوغسل کی حاجت ہو، توصبحِ صادق کے بعد غسل کرنے کی وجہ سے روزہ پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے، روزہ اپنی جگہ پر صحیح ہوجائے گا۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here