خدا کی رحمت سے امید وابستہ رکھیں، ناامید نہ ہوں

مولانا ندیم احمد انصاری
ڈیریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

امید اور تمنّا الگ الگ چیزیں ہیں۔ جب کسی بات کی خواہش کی جائے اور اس کے لیے حسبِ ضرورت تگ و دو کرکے اللہ تعالیٰ پر نظر رکھی جائے، اسے امید کہتے ہیں، اور بغیر تگ و دو کے کسی بات کی محض خواہش کرنا تمنا کہلاتا ہے۔ صرف تمناؤں اور آرزوؤں سے انسان کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔دنیا میں حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ ان میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔کبھی رنج و الم اٹھانا مقدر ہوتا ہے، تو کبھی خوشی اور مسرت کے لمحات میسر آتے ہیں ۔ اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ ہر حال میں رضا بر قضا کا مظاہرہ کریں۔ خوشی کے عالَم میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیںاور غم کے عالَم میںاللہ تعالیٰ سے امیدوابستہ رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، رب اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے۔

قرآنی ارشادات

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ۝ اور جب ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھاتے دیتے ہیں، پھر وہ اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ مایوس (اور) ناشکرا بن جاتا ہے۔ (ہود) حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا: يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ؀ میرے بیٹو ! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا کچھ سراغ لگاؤ، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقین جانو اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔ (یوسف)نیز اللہ تعالیٰ نے اُس سے امید وابستہ رکھنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے اپنے حبیب ﷺسے فسرمایا ہے: قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ؀ کہہ دیجیے : اے میرے وہ بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو! یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔یقیناً وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ (الزمر)

امید کی برکت

حدیثِ پاک کے مطابق وہ فاجر شخص جسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہو، اس عبادت گزار سے جو ناامید ہو،اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیادہ قریب ہے۔الفاجر الراجي لرحمة الله تعالى أقرب منها من العابد المقنط.(کنزالعمال)ایک حدیث میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل میں دو آدمیوں میں بہت بھائی چارہ تھا۔ ان میں سے ایک گناہ کرتا تھا، جب کہ دوسرا بہت عبادت گزار تھا اور خوب محنت سے عبادت کرتا تھا، اور دوسرے کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا: گناہ کم کرو! اس نے ایک دن اسے گناہ کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: گناہ کم کرو!تو اس گنہ گار نے کہا: مجھے اور میرے رب کو چھوڑدو! کیا تم میرے نگراں بنا کر بھیجےگئے ہو ؟ اس نے کہا: خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تجھے معاف نہیں کریں گے! یا یہ کہ اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل نہیں کریں گے! پھر ان دونوں کا انتقال ہوگیا اور دونوں رب العالمین کے پاس پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے عبادت گزار سے فرمایا: تو مجھے جانتا تھا یا میرے پاس موجود چیز پر قادر تھا ؟ اور گنہگار سے فرمایا: جاؤ میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ! اور عبادت گزار کے متعلق فرمایا:اس کو دوزخ میں ڈال دو ۔(کنزالعمال)

ایسی نیکی قبول نہیں

ایک حدیث میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اہلِ آسمان اور اہلِ زمین کی طرح مختلف انواع کے اعمال؛ نیکیاں اور تقویٰ لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہو تو تین خصلتوں کے ہوتے ہوئے اس کے یہ سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے یہاں ذرّہ برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے؛ ۝۱عُجب کے ساتھ۝۲ مومن کو تکلیف پہنچانا۝۳ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (کنزالعمال)

رنج و غم میں دعا کرے

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب تجھ کو شیطان یا کوئی بادشاہ رنج و غم میں مبتلا کرے تو یوں کہہ لیا کر : يا من يكفي من کل أحد، يا أحد من لا أحد له، يا سند من لا سند له، انقطع الرجاء إلا منک فكني مما أنا فيه وأعني علی ما أنا عليه مما قد نزل بي بجاه وجهك الكريم، وبحق محمد عليك، آمین۔ اے وہ ذات ! جو ہر ایک سے کافی ہے! اے اکیلے جس کو کسی کا سہارا نہیں! اے سب کے لیے آسرا بننے والے، جس کو کسی کا آسرا نہیں! تیرے سوا ہر طرف سے امیدیں ٹوٹ گئیں ، پس تو مجھے اس مشکل سے آزادی دے جس میں مبتلا ہوں! مجھے اس کام پر قوت دے جس پر میں قائم ہوں! اس مصیبت سے بچاتے ہوئے جو مجھ پر نازل ہوگئی ہے! اپنی کریم ذات کے طفیل اور اس حق کے طفیل جو تجھ پر محمد ﷺ کا ہے! آمین۔ (کنزالعمال)

رسول اللہﷺ کی ایک دعا

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی :(ترجمہ)اے اللہ ! میری دنیا کے ساتھ میرے دین پر مدد فرما! میرے تقوے کے ساتھ میری آخرت پر مدد فرما! اے اللہ ! مجھ پر دنیا کو فراخ کردے اور اس میں مجھے بےرغبت کردے! اسے مجھ سے دور نہ فرما! میری آنکھیں اس میں ٹھنڈی کردے! اے اللہ ! تو نے مجھ سے میری جان کا سوال کیا اور میں تیری توفیق کے بغیر اس کا مالک نہیں ہوں، پس مجھے اپنی جان سے ایسے اعمال نصیب کر جن سے تو راضی ہوجائے! اے اللہ جب ساری امیدیں دم توڑ دیتی ہیں، اس وقت تو ہی میرا آسرا ہوتا ہے! اور جس وقت میرا نفس میرے بارے میں برے برے خیالات کا شکار ہوتا ہے۔ اے اللہ ! میری امید کو ناکام نہ فرما! میری احتیاط کو ضائع نہ فرما! اے اللہ ! تیری عزیمت (و فیصلہ) رد نہیں ہوتا! تیرا قول جھٹلایا نہیں جاسکتا! اے اللہ جب تک میں زندہ ہوں تیری اطاعت کا حکم میری رگ رگ میں اتار دے، اور تیری نافرمانی کا ذرہ ذرہ میری رگ رگ سے نکال دے! اس کے بعد پھر مجھے اُن معاصی میں جانا حرام کردے، جب تک کہ میں زندہ ہوں!اے ارحم الراحمین!(کنزالعمال)

حضرت علی کا فرمان

حضرت عبداللہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: انسان کے اندر عجیب ترین شے اس کا دل ہے جو حکمت و دانائی کا ذخیرہ ہے، تو اس کی اضداد کے لیے بھی جائے پناہ ہے۔ اگر اس میں امید کو آسرا ملتا ہے تو طمع اس کو مجبور کردیتی ہے۔ اگر طمع بھڑکتی ہے تو حرص اس کو ہلاک کر ڈالتی ہے۔ اگر یاس واناامیدی کا ہجوم اس میں گھربساتا ہے توحسرت و افسوس اس کو قتل کر دیتا ہے۔ اگر اس پر غصہ طاری ہوتا ہے تو غضب ناکی اس میں بھڑک اٹھتی ہے۔ اگر اس کو رضا بالقضا کی سعادت مل جاتی ہے تو یہ اپنی حفاظت سے غافل ہوجاتا ہے۔ اگر خوف اس پر مسلط ہوتا ہے، تو یہ حزن وملال کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو آہ و واویلا اس کو کاٹ ڈالتا ہے۔ اگر یہ مال حاصل کرلیتا ہے تو غنا واسراف اس کو سرکشی میں مبتلا کیے دیتے ہیں۔ اگر اس کو فاقہ پڑتا ہے تو بلا و مصیبت اس کو گھیر لیتی ہے۔ اگر بھوک اس کو لاچار کرتی ہے توضعف وکسمپرسی اس کو لے بیٹھتی ہے۔ الغرض ہر کمی اس کے لیے مضر ہے اور ہر طرح کی فراوانی اس کے بگاڑ و فساد کا سرچشمہ ہے۔(کنزالعمال)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here