مولانا ندیم احمد انصاری
اللہ تعالیٰ نے وقت اور زمانے کو پیدا فرمایا اور بعض اوقات کو بعض اوقات پر فضیلت بخشی۔ مبارک اوقات میں نیکیوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے تو امید ہے کہ دیگر اوقات میں بھی غفلت سے حفاظت رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے اپنے بندوں کو بعض خاص مواقع عطا فرمائے ہیں تاکہ بندہ ان میں تقرب حاصل کر کے پچھلی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار اور آیندہ کے لیے نیکیوں کا پختہ عزم کرے۔ذوالحجہ کا مہینہ عموماً اور اس کا پہلا عشرہ خصوصاً ایسے ہی مبارک اوقات میں سے ہے، لیکن اس کی جیسی قدر کی جانی چاہیے، ویسی نہیں کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
فیضانِ الٰہی
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کے بہ قول مبارک و محترم اوقات میں اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا فیضان ہوتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ چاہے اس پراپنے فضل وکرم اوررحمت سے مہربانی کرتے ہیں ، لہٰذا خوش نصیب ہے وہ شخص جوان موسموں،مہینوں،دنوںاور اوقات میں اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کرکے اللہ رب العزت کا تقرب حاصل کرنے کوغنیمت جانے، امید ہے کہ ایسے شخص کواس مہربانی کی خوش بو حاصل ہو اوروہ سعادت حاصل کرتے ہوئے جہنم کی آگ اوراس کے شعلوں سے محفوظ ہوجائے۔وما من هذه المواسم الفاضلة موسم إلا وللہ تعالى فيه وظيفة وظائف طاعاته، يتقرب بها إليه ، ولله فيه لطيفة الطائف نفحاته، يصيب بها من يعود، بفضله ورحمته عليه . فالسعيد من اغتنم مواسم الشهور والأيام والساعات ، وتقرب فيها إلى مولاه بما فيها من وظائف الطاعات، فعسى أن تصيبه نفحة من تلك النفحات، فيسعد بها سعادة يأمن بعدها من النار وما فيها من اللفحات.[لطائف المعارف]
مبارک اوقات میں ثواب و عقاب
امام جصاصؒ نے ’احکام القران‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ان (حرمت والے) متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے ان مہینوں سے فایدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔[معارف القرآن]نیز تمام انبیا علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں؛ ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب میں ہر عبادت کا ثواب اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرےتو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔[معارف القران]
ذو الحجہ کی راتوں کی قسم
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ قسم ہے فجر کے وقت کی،اور دس راتوں کی۔[الفجر:1،2]یہاں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتیں ہیں اوریہ بات اس عشرے کی فضیلت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔المراد بھاعشرذی الحجۃ۔[تفسیرابن کثیر، تفسیر قرطبی]لیکن ’ایام‘کے لیے’لیالی‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، دراصل عربی زبان میں’لیالی‘ کہہ کر ’ایام‘ مراد لیا جاسکتا ہےاور صحابہ و تابعین عام طور پر ایسا کرتے تھے۔روزے رکھنے کے بارے میں ان کا ایک مقولہ مشہور تھا کہ صمنا خمساًجب کہ روزہ دن میں ہی رکھا جاتا ہے۔أنه أطلق على الأيام ( ليالي) لأن اللغة العربية واسعة ، قد تطلق الليالي ويراد بها الأيام ، والأيام يراد بها الليالي، والغالب في ألسنة الصحابة والتابعين غلبة الليالي للأيام ، حتى إن من كلامهم :’صمنا خمسا‘ يعبرون به عن الليالي ، وإن كان الصوم في النهار. كما نص على ذلك جمع من العلماء.[احکام القرآن،لطائف المعارف ، روح المعانی]
ذوالحجہ کے شروع دس دنوں کی نیکیاں
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال ذی الحجہ کے (شروع) دس دنوں کی نیکیاں ہیں۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی (ان دونوں کے علاوہ میں) جہاد کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: دوسرے دنوں کا جہاد بھی اس کی برابری نہیں کرسکتا، البتہ کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں جہاد میں خرچ کردے، تو وہ بے شک اس عشرے کے اعمال سے بہتر ہوسکتا ہے۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، أَنَّهُ قَالَ:مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ، قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ، قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ.[بخاری]حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، ان دنوں (یعنی یکم ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ) میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے نفلی روزوں کے برابر اور ایک رات میں قیام کا ثواب شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ. [ترمذی]
ذوالحجہ کے دن افضل اور رمضان کی راتیں
ایک روایت میں ہے کہ رمضان سب مہینوں کا سردار اور ذوالحجہ کی حرمت سب مہینوں سے بڑھ کر ہے۔سيد الشهور شهر رمضان وأعظمها حرمة ذو الحجة.[کنزالعمال]ملّاعلی قاری ؒفرماتے ہیں : عشرۂ ذی الحجہ کے دن اس لیے افضل ہیں کیوں کہ اس میں عرفے کا دن ہے، جو سال کے تمام دنوں کا سردا ر ہے اور رمضان المبارک کے آخری عشرے کی راتیں افضل ہیں، اس لیے کہ اس میں شبِ قدرہے، جو سال کی تمام راتوں کی سردار ہے ۔[مرقاۃ المفاتیح ]
ذو الحجہ میں اعمال کا ثواب
ایک روایت میں ہے:اِن دس دنوں میں کیے جانے والے عمل کا بدلہ سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔وَالْعَمَلَ فِيهِنَّ يُضَاعَفُ سَبْعمِائَةِ ضِعْفٍ۔[شعب الایمان]امام اوزاعی ؒفرماتے ہیں: بنی مخزوم کے ایک قریشی شخص نے مجھ سے یہ حدیث مرفوعاً نقل کی ہے کہ اِن ایام میں کیے جانے والے اعمال قدر و منزلت میں ایسے ہیں جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔انَّ الْعَمَلَ فِي الْيَوْمِ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ كَقَدْرِ غَزْوَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ۔[شعب الایمان]
سات سو گُنا ثواب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا :ذو الحجہ کے دس دنوں سے زیادہ فضلیت والے کوئی دن نہیں،اور ان دنوں میں کیے گئے نیک اعمال اللہ کے یہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں،تو تم ان دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ اور اکبر پڑھا کرو اور اللہ کا ذکر کیا کرو۔ اوران دس دنوں میں روزے ایک سال کے روزوں کے برابر اور ان میں کیا گیا نیک کام (ثواب میں) سات سو گنا ہوتا ہے۔ما من أيام أفضل عند اللہ ولا العمل فيهن أحب إلى اللہ تعالى من هذه الأيام العشرة فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير وذكر اللہ، وإن صيام يوم منها يعدل بصيام سنة، والعمل فيهن يضاعف سبعمائة، ضعیف.عن ابن عباس.[کنزالعمال]
تہلیل، تحمید، تکبیر اور تسبیح کی کثرت
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:اِن دس دنوں میں تہلیل ، تحمید،تکبیر اور تسبیح کی کثرت کیا کرو۔فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ، وَالتَّحْمِيدِ، وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّسْبِيحِ۔[شعب الایمان] اس لیے بہتر ہے کہ اس عشرے میں تیسرے کلمے کا خوب اہتمام کیا جائے، کیوں کہ اس میں یہ تمام چیزیں جمع ہیں۔
بعض صحابہ کرام کا معمول
بخاری شریف میں تعلیقاً منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ذی الحجہ کے دس دنوں میں بازار جاکر(لوگوں کو تکبیر کی طرف توجہ دلانے کے لیے ) تکبیر کہا کرتے تھے اور لوگ اُن کی تکبیر سن کر تکبیر کہا کرتے تھے۔وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ:يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ العَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا۔ [باب فضل العمل في أيام التشريق]موجود دورمیں تکبر کہنے کی سنت کوترک کر دیا گیا ہے، خاص طور پر ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں اس کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔
[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]