Manshiyaat ki laanat ke mukammal khatime ke liye marboot koshisho ki zaroorat, Nadeem Ahmed Ansari

منشیات کی لعنت کے مکمل خاتمےکے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت

ندیم احمد انصاری

(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

گذشتہ چند دنوں سے کچھ اس طرح کی خبریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، جن سے خیال ہوتا ہے کہ ملک کو منشیات سے پاک کرنے کی کوشش اب عوامی اور حکومتی سطح پر کی جا رہی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب اس مسئلے کے خاتمے کے لیے علاقائی سطح پر کوششوں اور اقدامات کا تہیہ کر لیا گیا ہے لیکن  اسی کے ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اس نیک کام کی شروعات اپنے قرب و جوار سے کریں۔نہایت حیرت وافسوس کا مقام ہے کہ آج کے ’پڑھے لکھے ‘ دور میں بھی دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے۔ اس کی اصل وجہ ہمارے نزدیک۔۔اس وسیع منافع بخش تجارت کو حکومتی سطح پر ملنے والی حمایت ہے۔یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ منشیات و جرائم پر نگاہ رکھنے والی اقوامِ متحدہ کے ادارہ یونائٹیڈ نیشنز آف ڈرگس اینڈ کرائم (UNODC) نے اپنی ۲۰۰۸کی سالانہ رپورٹ میں وضاحت کی تھی کہ’ ہندوستان و جنوبی ایشیا چرس اور گانجہ جیسے منشیات کی غیر قانونی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے‘ اور یو این او ڈی سی(UNODC) کا کہنا تھا کہ ’جنوبی ایشیا کے بیشتر ملکوں نے منشیات کے غیر قانونی کاروبار اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ابھی تک کوئی جامع سروے نہیں کیا ہے۔حکومتِ ہند اس سلسلے میں ایک سروے کی تیاری کر رہی ہے، شاید اس کے بعد اس لعنت کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آسکے۔‘ اسی موقع پر اقوامِ متحدہ کے نمائندے اشیتا متل نے کہا تھا کہ ’منشیات کی اس لعنت پر مشترکہ کاروائیوں کے ذریعے قابو پایا جا سکتاہے۔۔اس سے کوئی ایک ملک ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے متعدد ممالک متاثر ہوتے ہیں‘۔مضمون نگار کا بھی خیال یہی ہے کہ اس لعنت کے مکمل خاتمے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیابھر میں ۲۵کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں، جب کہ ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مَردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین کی بھی بڑی تعداد اس کا شکار ہوتی نظر آنے لگی ہیں۔ منشیات کے اسباب پر غور کرنے سے اس کے مندرجۂ ذیل محرکات سمجھ میں آتے ہیں؛

(۱) غم غلط کرنا ۔ نشہ کرنے والوںکے زعم کے مطابق نشہ کرنے سے ان کے تمام غموں کا مداوا ہو جاتا ہے۔

(۲) جنسی کزوری کو دور کرنا۔ جب کہ اطباء کی مطابق چند دن نشے کے استعمال سے جنسی کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایسے کیمیلکز ہوتے ہیں، جو ہارمونز اور غدود کو متاثر کرکے سینے کے امراض پیدا کرتے نیز جنسی طاقت کو ہمیشہ کے لیے کم کر دیتے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو نعمتوں سے ڈھانپ رکھا ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان پر اُس کریم مولیٰ کی نعمتیں بارش کے قطرات کی طرح برس رہی ہیں۔ اسی لیے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللّهِ لَا تُحْصُوهَا۔

اگر تم ہماری نعمتوں کو شمار میں لانا چاہوتو نہیں لا سکتے۔(النحل:۱۸)

اس کے باوجود انسان ان نعمتوں کی کماحقہ تو کجا عشر عشیر بھی قدردانی نہیں کرتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن نعمتوں سے حضرتِ انسان کو نوازا ان میں ایک عظیم نعمت عقل و خرد بھی ہے، جس سے انسان مفید و مضر اور اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے لیکن مشاہدہ اس کے خلاف ہی ہے، کیوں کہ انسان اس عظیم نعمت کو بھی مفید کاموں میں کم ہی استعمال کرتا ہے۔ آج کا یہ دور۔۔جسے ’عقلاء‘۔۔ترقی یافتہ دور کہتے ہیں؛ بدقسمتی سے انسانی سماج کے مسائل کی ترقی کا دور ہے۔ منشیات بھی اس سماج کے مسائل میں ایک بڑامسئلہ ہے۔

خیال رہنا چاہیے کہ شراب، چرس، افیون، ہیروئین اور نکوٹن وغیرہ۔۔سب ہی منشیات کے زمرےمیں آتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض ایسی ادویہ بھی اس زمرے میں شامل ہو جاتی ہیں، جنھیں انسان لَت کے طور پر عادتاً بے جااستعمال کرتا ہے اور جو انسان کی عقل کو بے قابو کر دیتی ہیں۔

 اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔

اے ایمان والو! شراب ، جُوا ، بُت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام، شیطان کے اعمال میں سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔ (المائدۃ: ۹۰)

اس آیت میں ان تمام چیزوں کو ’رِجس‘ کہا گیا ہے۔ ’رجس‘عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے، جس سے انسان کی طبیعت کوگھِن اور نفرت پیدا ہو۔ یہ چاروںچیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع سلیم رکھتا ہو تو خود بخود ہی ان چیزوں سے اس کو گھِن اور نفرت ہوگی۔ یہاں  اصل مقصود دو چیزوں کی حرمت اور مفاسد کا بیان کرنا ہے؛ یعنی شراب اور جُوا۔ انصاب یعنی بُتوں کا ذکر اس کے ساتھ اس لیے ملایا گیا کہ سننے والے سمجھ لیں کہ شراب اور جوئے کا معاملہ ایسا سخت جُرم ہے، جیسے بُت پرستی۔ (معارف القرآن: ۳؍۲۲۶-۲۲۷)

 اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید کا مذکورہ بالا حکم صرف شراب کے نشے سے ہی متعلق نہیںبلکہ اس میں ہر وہ چیز شامل ہے، جو نشہ طاری کر دے۔ اسی لیے فاروقِ اعظمؓ نے ایک موقع پر جمعے کے خطبے میں ارشاد فرمایاتھا؛’’خمر کے معنی کسی چیز کو ڈھانپ دینا یا پردہ ڈال دینا اور خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے، جوعقل پر پردہ ڈا ل دیتی ہے۔ اصل میں منشیات کا سب سے خطرناک حملہ دماغ پر ہوتاہے اور پھر دھیرے دھیرے اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ اعضاے رئیسیہ کے ساتھ ساتھ معدہ، جگر اور گردے پر بھی اس کا اثرپڑتا ہے۔ جو لوگ ان چیزوں کے عادی ہوتے ہیں، ان چیزوں کا اثر اُن پر ایک خاص مدت تک ہی رہتا ہے اور اس کے زائل ہوتے ہی انسان کو پھر اس کی طلب ستانے لگتی ہے۔وہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور جب ان کی یہ طلب آسانی سے پوری نہیں ہوتی تو وہ اس کی تکمیل کے لیے بہت سے غلط راستوں۔۔چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری۔۔ تک کو اپنانے سے گریز نہیں کرتے ۔

آج کل سگریٹ نوشی کا تو اس قدر رواج ہو چلا ہے کہ اسے بُرا تو کیاسمجھا جاتا بلکہ فیشن تصور کیا جانے لگا ہے۔اس میں ایک مزید برائی یہ بھی ہے کہ اس کانقصان صرف سگریٹ پینے والے ہی کو نہیں ہوتابلکہ اس کے آ س پاس کے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیوں کہ جب سگریٹ پینے والا سگریٹ کا کش لے کرسا نس باہر چھوڑتا ہےتو اس کے ارد گرد کے لوگوں کو لامحالہ اسی دھنویں کو اپنے جسم میں داخل کرنا پڑتا ہے، پھر ایسا بھی نہیں کہ سگریٹ نوشی سے انسان کے صرف پھیپھڑے ہی متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کی قیمت تمام اعضاء کو چکانی پڑتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ ان اشیاء کی خرید و فروخت ان خطرناک امراض کی تصاویر کے ساتھ کی جاتی ہے، جو ان کے استعمال سے لاحق ہو سکتے ہیں۔

جیساکہ ہم نے بیان کیا دینِ اسلام میں نشے کی سخت مذمت و ممانعت کی گئی ہےلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم علاقوں میں اس کے عادی کثرت سےپائے جاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے شراب و چرس ،گانجے کے تو کم لیکن سگریٹ و نکوٹین کے عادی تو گھر گھر میں مل جاتے ہیں۔ پُلوں اور سڑکوں کے کناروں پرایسے بہت سے افراد نظر آتے ہیں جن کا اس بستی میں کوئی شناسا نہیں ہوتا اور وہ کسی کے شناسا نہیں ہوتے۔ وہ بس تنہا یا اپنے جیسوں کے ساتھ چرس و گانجہ میں مست رہتے ہیں اور بستی سے اُن کے کھان پان کا بھی انتظام ہوتا رہتا ہے۔ہمیں نہایت تعجب ان لوگوںپر ہے جو اپنے اہل خانہ اور بڑوں کے سامنے سگریٹ نوشی کرنے سے ذرا عار محسوس نہیں کرتے اور اس وقت تو ہمای حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ جب یہ ’بڑے‘ اس پر چُپّی سادھے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں کچھ کرنا ہےتو شروعات اپنے آس پاس سے ہی کرنی ہوگی!

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here