رمضان المبارک سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں
افادات: حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
ترتیب: ندیم احمد انصاری (اسلامی اسکالر و صحافی)
•حفاظ کی عادت ہے، اپنا قرآن سُنا کر دوسرے حفاظ کا سنتے پھرتے ہیں۔ ہر چند کہ قرآن مجید کا سُننا اور اس کے لیے جانا بہت خوبی کی بات ہے، مگر ان حضرات کی اکثریت یہ ہوتی ہے کہ اس کی غلطی پر مطلع ہو کر اس کی فضیحت کریںگے، ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنا خود حرام ہے، قرآن وحدیث میں اس کی حرمت موجود ہے، پھر اس کو رُسوا کرنا، یہ دوسرا گناہ ہے اور گناہ کے ارادے سے چلنا، کہیں جانا، یہ بھی گناہ ہےالبتہ اگر صرف برکاتِ قرآنی حاصل کرنے کے لیے جائیں یا کسی خوش آواز کا [قرآن ]سن کر دل ہی خوش کرنا مقصود ہوتو مضایقہ نہیں، پہلی ضرورت عبادت، دوسری مباح ہوگی۔
•بعض لوگ اس پر یہ طرّہ کرتے ہیں کہ دوسری جگہ کھنکارتے پھرتے ہیں، کہیں لکڑیا زمین پر یا دیوار پر مارتےہیں یا مختلف طریقوں سے اپنی تشریف آوری کی اطلاع دیتے ہیں، جس سے پڑھنے والا پریشان ہو کر بھولنے لگے، ظاہر ہے کہ کسی عبادت میں خلل ڈالنا خود شیطان کا کام ہے۔ بعضے نماز میں شریک ہو کر قصداً غلط بتلانا شروع کرتے ہیں ااور اس کے یاد اور عدمِ یاد کا امتحان لیتے ہیں۔۔یہ سب گناہ کی باتیں ہیں اگر کہیں سننے کے لیے جائے[تو] چپکے سے جاکر یا تو بیٹھ جائے یا بہتر ہے [کہ] نماز میں شریک ہو جائے اور جب مقصود حاصل ہو جائے، اسی طرح واپس آجائے۔
•قرآن مجید جلد ختم کرنے کو یا بہت سے قرآن ختم کرنے کو فخر سمجھتے ہیں اور اس مقصود کو حاصل کرنے کی غرض سے خوب تیز پڑھتے ہیں کہ حروف بھی صاف ادا نہیں ہوتے، قرآن مجید میں ترتیل کو فرض فرمایا ہے، خود اس فرض کا ترک کرنا موجبِ گناہ ہے، خاص کر جب ریا و نمود و فخر کے لیے ہو تو مضاعف (دوگنا) گناہ ہے۔
•بعض اس قدر تیز پڑھتے ہیں کہ مقتدی گھبرا جاتے ہیں۔ حدیث میں امام کو تخفیفِ صلوٰۃ (نماز کو ہلکا پڑھانے) کا حکم آیا ہے، اس میں اس حکم کا ترک لازم آتا ہے، یہ بھی برا ہے۔ غرض مقتدیوں کے تحمل کے بقدر پڑھنا چاہیے اور صاف صاف، گو کئی ختم نہ ہوں۔
•بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اُجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں، [جب کہ] طاعت پر اُجرت لینا حرام ہے، اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے مقرر نہیں کیا، اس لیے یہ معاوضہ نہیں ہوا، جواب [اس کا ]یہ ہے کہ گو پہلے سے نہیں ٹھیرایا [لیکن] نیت تو دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی مرتبۂ خطرہ و خیال میں نہیں بلکہ مرتبۂ عزم میں۔ اگر کسی طور سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہوگا، تو ہرگز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ معروف مثل مشروط کے ہے، جب اس کا رواج ہو گیا اور دونوں کی نیت یہی ہے تو بلا شک وہ معاوضہ ہے۔ بعض لوگ کہتےہیں کہ صاحب بلا اجرت پڑھنے والا تو ہم کو ملتا ہی نہیں اور اجرت دے کر سُننا جائز نہیں تو پھر قرآن کیسے سنیں؟ جواب [اس کا] یہ ہے کہ پورا قرآن سننا فرض نہیں، ایک امرِ مستحب کے لیے حرام کا مرتکب ہونا، ہر گز جائز نہیں۔ الم ترکیف سے تراویح پڑھ لو، ایسی حالت میں قرآن مجید کا ختم ہونا ضروری نہیں۔
•بعض حفاظ کی عادت ہے کہ لیلۃ القدر میں یا اور کسی شب میں سب جمع ہو کر ایک یا کئی شخص مل کر قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور عُرف میں اس کو’ شبینہ‘ کہتے ہیں۔ اول تو بعض علماء نے ایک شب میں قرآن مجید ختم کرنے کو مکروہ کہا ہے، کیوں کہ اس میں ترتیل و تدبیر کا موقع نہیں ملتا، مگر چوں کہ سلفِ صالحین سے ایک رو ز میں ختم کرنا بلکہ بعض سے کئی کئی ختم کرنا منقول ہے، اس لیے اس میں گنجائش ہو سکتی ہے، مگر اس میں اور بہت سے مفاسد شامل ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ عمل ’شبینہ‘ کا مروج طریقے پر بلا شک مکروہ ہے۔
•ختم کے روز اکثر مساجد میں معمول ہے کہ شیرینی تقسیم ہوتی ہے، ہر چند کہ قرآن مجید کا ختم ہونا نعمتِ عظمیٰ ہے، جس کے شکریہ اور فرحت میں کوئی چیز تقسیم کرنا بہت خوب امر ہے، مگر اس میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں[جو کہ مندرجۂ ذیل ہیں] ؛ (۱) چوں کہ اس کا عام رواج ہو گیا ہے، حتیّٰ کہ اگر شیرینی تقسیم نہ ہو تو عام لوگ ملامت و طعن کرتے ہیں، اس لیے تقسیم کرنے والوں کی نیت اکثر اچھی نہیں رہتی، اس الزام سے بچنے کے لیے لا محالہ تقسیم کرتے ہیں، خواہ گنجائش ہو یا نہ ہو۔ بعض اوقات تردّد کرنا پڑتا ہے، مگر یہی خیال ہوتا ہے کہ بھلا کیسے تقسیم نہ ہو، لوگ کیا کہیں گے اور ریا و تفاخر کا حرام ہونا اور اس نیت سے جو فعل ہو ۔۔وہ معصیت ہے۔
•اکثر جگہ چندے سے شیرینی آتی ہے اور اہلِ محلّہ اور نمازیوں سے جبراً چندہ لیا جاتا ہے اور یہ بھی جبر ہے کہ ان کو مجمع میں شرمایا جائے یا ایسا شخص مانگنے [کے لیے] اٹھے، جس کی وجاہت کا اثر پڑے، چوں کہ حدیث میں وارد ہے کہ کسی مسلمان کا مال بلا اس کی طیبِ خاطر کےحلال نہیں، اس لیے ایسے چندے سے جو چیز خریدی جائے گی، سب ناجائز ہے۔
•بعض لوگ شبِ قدر میں مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر شب بے داری کا خاص اہتمام کرتے ہیں، یہ مکروہ ہے۔ اتفاقاً اگر دوچار آدمی جمع ہوجائیںوہ اور بات ہے، غرض بطور خود ہر شخص حسبِ ہمت عبادت میں مشغول رہے، خاص اہتمام اور انتظام خلافِ شرع ہے۔
(ماخوذ از اصلاح الرسوم)
[email protected]
اس ویب سائٹ کو دوسروں میں متعارف کرانے کی کوشش کریں تاکہ آپ بھی نیکی کے کام کے حصّے دار بنیں۔