رمضان کے روزوں کی فرضیت و فضیلت

رمضان کے روزوںکی فرضیت و فضیلت
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
قرآنِ شریف کی وہ آیت جس کےنزول سےروزوں کی فرضیت کاحکم آیاتھا، یہ ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنَ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ وَأَنْ تَصُومُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ﴾
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں اسی طرح جیسے تم سےپہلے لوگوں پرروزے فرض کیے گئے تھے۔
صرف فرض کیے جانے میں یہ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ان پر فرض تھے تم پربھی فرض کیے گئےہیں، باقی تعداداورکیفیت وغیرہ کے اعتبار سے پورے طورپر دونوں کومساوی قرار دینا مقصود نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگلی امتوں میں روزوں کی شکل یہ ہوا کرتی تھی کہ عشاء کی نماز کے بعد آدمی جب سو گیاتو وہیں سے روزہ شروع ہوجاتا تھا یعنی جیسے ہم لوگ اُٹھ کرسحری کرتےہیںاورصبحِ صادق سے پہلے پہلے کھا پی سکتے ہیں، چاہے سوئے ہوں،یانہ سوئے ہوں؛ان کے یہاںایسانھیں تھا،بلکہ وہاں تو یہ تھا کہ جہاںآنکھ لگ گئی بس روزہ شروع ہوجاتا تھا۔ شروع اسلام میں بھی جب روزوںکی فرضیت ہوئی تو یہی طریقہ تھا کہ جہاں آنکھ لگ گئی کہ اب کھانا پینا ،بیوی کے ساتھ صحبت کرنا؛سب ممنوع ہوجاتا تھااورروزہ شروع ہوجاتاتھا،لیکن حضراتِ صحابہ؇میں سے بعضوں کے ساتھ ذرا سخت حالات پیش آئے جیساکہ روایتوں میں ہےکہ حضرت عمر ؄حضورِاکرم ﷺ کےپاس عشاء کی نماز کے بعد مشورہ کےلیے بیٹھتے تھے، ایک مرتبہ وہ وہاں سے دیر سے پہنچے ،اُن کواپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری کرنے کا تقاضہ تھا، انھوں نے مطالبہ کیا توبیوی نے جواب دیا کہ میری توآنکھ لگ گئی تھی اورمیں سوگئی تھی، گویامیراروزہ شروع ہوگیاہے۔حضرت عمر؄نےفرمایا:میںتھوڑاہی سویاتھا اوراپنی ضرورت پوری کرلی ۔اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؄سے بھی نقل کیاجاتا ہے۔(1)
بہرحال!کچھ صحابۂ کرام؇سےایسی صورت پیش آئی تواس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ أَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوْاالصِّیَامَ إِلَی الَّلیْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوْہُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾
اس آیت سےگویا اس بات کی اجازت دیدی گئی کہ صبحِ صادق تک آپ اپنی بیویوں کے ساتھ صحبت کرسکتے ہیں اوراب روزہ صبحِ صادق سے شروع ہوگا ،چاہے آنکھ لگی ہویا نہ لگی ہو۔
اسی طرح کھانے پینے کے معاملہ میں بھی ہوا۔قیس بن صرمہ ؄ایک غریب صحابی تھے،محنت مزدوری کیاکرتےتھے،ایک مرتبہ دن بھر روزے سے تھے، افطارکے وقت گھر پہنچے، بیوی سے کہا :افطار کےلیے کچھ ہے ؟بیوی نے کہا:کچھ بھی نہیں ہے،پھر بیوی نے کہا: ٹھہرو !میںپڑوسی کےیہاں سے کچھ لے آتی ہوں ،سورج تو غروب ہوہی چکا تھا، بیوی پڑوسی کے یہاںکچھ لینے گئی اورجب وہاں سے واپس لوٹی تودیکھا کہ ان کی توآنکھ لگ گئی ہے،اب وہ کچھ لے کرتو آئی تھی لیکن چوں کہ ان کی آنکھ لگ گئی تھی اس لیے ان کا تو دوسراروزہ شروع ہوگیا تھا اس لیےوہ کچھ کھاپی نہیں سکتے تھے، اس نےانا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔پھردوسرے دن روزہ پوراہواتوشام کوپھر یہی صورت پیش آئی کہ افطاری کےلیے کچھ تھا نہیں، بیوی نے کہا : میں پڑوسی کے یہاں سے کچھ لےکر آتی ہوں،وہ لینے گئی اورجب کچھ لےکرلوٹی تودیکھا کہ ان کی آنکھ لگ گئی ہے، اب توان کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی۔بہرحال! یہ بھی ایک سبب تھا۔تو میںیہ عرض کررہاتھا کہ اگلی امتوںمیںایساتھاکہ جب آدمی رات کو سوجاتا، وہیںسے روزہ شروع ہوجاتا تھا، صبح صادق کے آنے کاانتظار نہیں تھا، اسلام میں بھی شروع میں اسی طرح کاحکم دیا گیا تھا، بعد میں پھر اس میں تخفیف کردی گئی اورصبحِ صادق سے روزے کی ابتداقرار دی گئی، چاہے کسی کی آنکھ لگی ہویانہ لگی ہو۔
اسی طریقہ سے روزوں کی تعداد کے سلسلہ میںبھی ہے،شروع اسلام میں دسویں محرم کاروزہ فرض ہواتھا، اس کے بعد رمضان کی فرضیت آئی ،یعنی پورے مہینہ کے روزے اس کے بعد فرض ہوئے۔اورشروع میں جب روزوں کا حکم دیا گیا اس وقت بھی لوگ روزہ رکھنے کے عادی نہیں تھے،اس لیےشریعت کی طرف سے سہولت دی گئی تھی کہ روزہ رکھنا چاہو تو روزہ رکھ لو، اوراگرروزہ رکھنے کے بجائے فدیہ دینا چاہو یعنی ایک روزہ کے بدلہ میں غریب کوصدقۃ الفطر کی مقدار صدقہ کردو،تب بھی کافی ہوجائےگا۔ ہمارےمعاشرہ میں تو چوںکہ بچّوں کوبچپن ہی سے روزہ رکھواتے ہیں، اس لیےان کو عادت پڑجاتی ہے اور بڑے ہوکر آسانی سے روزے رکھ لیتے ہیں،لیکن جوپہلے سے عادی نہ ہوں ان کو آپ دیکھیں گے کہ چاہے پیٹ بھر کر سحری کھائی ہو، تب بھی ان کے لیےشام تک بھوکا رہنامشکل ہوجاتاہے۔توگویا ان کوشروع میںروزہ رکھنے اورفدیہ دینے کے معاملہ میں اختیار دیاگیا تھا،اور یہ حکم کسی بیماری یابڑھاپے پر موقوف نہیں تھا، لیکن بعد میں لوگ جب روزوں کے عادی ہوگئےتوپھر یہ آیت﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ﴾نازل ہوئی جس میںیہ حکم دیاگیاکہ اب توہرحال میں روزہ ہی رکھنا ہے ، فدیہ سےکام نہیںچلےگا﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾ البتہ کوئی آدمی بیمار ہو تو بیماری کی وجہ سے اس کواجازت ہےکہ روزہ نہ رکھے اور افطار کرلے،پھربیماری سے جب تندرست ہوجائے تو ان روزوں کی قضا کرلے۔ اسی طریقہ سے کوئی آدمی رمضان کے مہینہ میں سفر میں ہو توسفر کی وجہ سے اس کورخصت اور اجازت دی گئی کہ روزہ نہ رکھے اورافطار کرلے، بعد میں سفر سے جب واپس آئے تو دورانِ سفر جتنے روزے چھوٹے ہوں ان کی قضا کرلے ۔ اب بھی یہی حکم باقی ہے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here