عورت کی حیثیت اسلام سے قبل اور بعد

عورت کی حیثیت اسلام سے قبل اور بعد
ندیم احمد انصاری

آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے ۔ اسلام کو چوں کہ خواتین کے معاملے متشدد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ چند باتیں موقع کے مناسبت سے عرض کر دی جائیں۔جن لوگوں کی عقلوں پر پردے نہ پڑے ہوں اور انھوں نے کسی حد تک تاریخِ عالم کا مطالعہ بھی کیا ہو، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت خلاصۂ کائنات کی بعثت ہوئی ، عورت کے وجود تک کے متعلق غور وفکر کیا جا رہا تھا، آیا یہ انسان ہے بھی یا اسے صرف انسان [مرد]کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟

[اسلام کی آمد سے قبل] عورتوں کی حالت نہایت خراب تھی، موروث کے متروکہ میں سے ان کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ عرب کا قول تھا کہ میراث اس کا حق ہے، جو تلوار پکڑ سکتا ہے، اسی بنا پر چھوٹے بچّے بھی وراثت سے محروم رہتے تھے۔لڑائیوں میں مفتوحہ قبیلے کی عورتیں عین میدانِ جنگ میں فاتحین کے تصرف میں آجاتیں اگر صلح ہو جاتی اور عورتیں واپس دے دی جاتیں تو باوجود اس کے کہ سب کے ناموس برباد ہو چکے ہوتے، بہ دستور گھروں میں لے لی جاتیں اور یہ کوئی عیب نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ فاتحین اس تصرف پر فخر کرتے اور اس کو اشعار میں ظاہر کرتےطلاق کے لیے کوئی مدت اور عدت نہ تھی یعنی جب تک شوہر چاہے، عورت نہ شوہر کے پاس رہ سکتی تھی، نہ کسی اور سے شادی کر سکتی تھی۔عورت کا جو مہر مقرر ہوتا وہ باپ کو ملتا، عورت کو اس سے سروکار نہ ہوتا۔نکاح کی کوئی حد نہ تھی، غیلانؓ بن سلمہ ثقفیؓ جب اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں، وہب اسدیؓ نے اسلام قبول کیا تو آٹھ بیویاں ان کے عقدِ نکاح میں تھیں۔دو حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرتے اور ایام کے زمانے میں عورتوں کو الگ کر دیتے اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیتے۔باپ مر جاتا تو اس کی کل بیویاں (بجز حقیقی ماں کے) تصرف میں آتیں یعنی عورت بیوہ ہونے کے بعد اپنے شوہر کے وارثوں کی ملک سمجھی جاتی تھی، وہ اگر آکر بیوہ پر چادر ڈال دیتا تو وہ اس کی جائز مدخولہ بن جاتی۔عورت جب بیوہ ہو جاتی تو گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کوٹھری رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کو دیے جاتے، خوشبو وغیرہ قسم کی کوئی چیز استعمال نہ کر سکتی، اس حالت کے ساتھ جب پورا سال گزر جاتا تو ایک بکری یا گدھا لاتے، اس سے وہ اپنے جسم کو مس کرتی پھر کوٹھری سے باہر نکلتی اور اس کے ہاتھ میں مینگنی دی جاتی، وہ مینگنی کو پھینک دیتی، اس وقت سوگ سے نکل آتی اور قدیم حالت قائم ہوتی۔غرض مجموعی حیثیت سے عورت بد ترین مخلوق اور ہر قسم کے جبر و تعدی کا تختہ گاہِ مشق تھی، رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی، اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوںمیں چھپتا پھرتا۔ قرآن نے اس نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا:وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى، ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا، وَهُوَ كَظِيمٌ۔ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ،أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوْنٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ، أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصّے کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ اس خوش خبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اس کو قبول کرے یا اسےزندہ زمین میں دفن کردے۔(النحل) رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہو گئی، لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو میدان میں لے جا کر گڑھا کھودتے اور زندہ گاڑ دیتے۔ ایک صاحب نے آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آکر ظاہر کیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کیں۔(ماخوذ از سیرۃ النبی)

اسلام نے ایسے وقت اور ایسے ماحول میں پہلی بار کہا کہ ایک بیٹی کی بھی پرورش کرنے پر اسے جنت میں حبیبِ خدا ، رسول اللہ ﷺکی معیت نصیب ہوسکتی ہےاور جو بھائی اپنی بہن کی پرورش وپرداخت میں حصہ لے گا اس کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ ماں کے تو قدموں کے نیچے جنت ہے۔اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت کے ساتھ لقمہ دینا بھی شوہر کے لیےدو رکعت نفل نماز کے برابر ہے۔ اسلام نے بیٹی کے اخراجات ، والد پر، بہن کے اخراجات بھائی پر ، بیوی کے اخراجات شوہر پر اور ماں کے اخراجات بیٹے پر ڈال کر نیز وراثت میں عورت کا حصہ جاری کرکے عورت کومعاشی فکر سے بالکل آزاد کر دیا۔ زندگی اجیرن ہونے کی صورت میں اس کے لیے طلاق و خلع کا راستہ کھلا رکھا۔ بیوہ کو ایک بارپھر زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کا حوصلہ دیا اور اس کی اس بشری ضرورت کا لحاظ رکھنے کا اس کے اہلِ خانہ کو پابند بنایا اور کہیں باہر آنے جانے کے لیے کسی نہ کسی محرم کو اس کی حفاظت کے لیے مامور کیا ۔ خدا جانے وہ لوگ کیسے نابینا ہیں، جو ایسی پیاری تعلیمات کو بھی عناد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور حقوقِ نسواں کے نام پراسلام پر پھبتی کستے ہیں کہ اسلام نےعورت کوقید کر دیا ، اس کی آزادی صلب کر لی اور اس کے حقوق چھین لیے،وغیرہ وغیرہ۔

اسلام دین فطرت اور دین الٰہی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام کائنات کے خالق ہیں۔ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سی باتیں اور کون سی چیزیں اس کی تخلیق کردہ مخلوق کے لیے نفع بخش ہیں اور کون سی چیزیں ضرر رسا ں؟ اس لیے اس رب کائنات نے محض اپنے فضل و احسان سے، حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے خطوط کو بھی واضح کر دیا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو عورت کو تمام مذاہب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، ہاں انھیں مَردوں کے برابر لاکر کھڑا نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ ان کے لیے موزوں ہی نہیں، بلکہ ان کے صنفی امتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں حقوق عطا کرتا ہے، اور تمام عقلاکے نزدیک یہی درست بھی ہے ۔ اس لیے کہ سب کو ایک لکڑی سے ہانکنا کسی طور مناسب نہیں۔

اسلام سب کے ساتھ انصاف کا قائل ہے نہ کہ برابری کا اوراسی میں سب کے لیے عافیت ہے ۔ بھلا کون عقل مند اس پر راضی ہو سکتا ہے کہ ماں اور بیوی کو یا بیوی اور بہن کو یکساں حقوق دیے جائیں ؟ ہاں سب کو ان کے حقوق ضرور دیے جانے چاہئیں ۔ اسلام یہی چاہتا ہے ، اس لیے وہ سب کے مقام کا لحاظ کرتے ہوے حقوق کی ادایگی کی تاکید کرتا ہے ۔ اسلام کی نظر میں مرد ، مرد ہے اور عورت ، عورت۔ دونوں آپس میں ایک دوسرے کا تکملہ اور تتمہ تو ہیں لیکن ایک دوسرے کا مثنیٰ اور نقل نہیں ۔

حقوقِ نسواں کا دم بھرنے والے بعض حضرات اپنے موقف کی دلیل دیتے ہیں کہ عورت و مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، دونوں کی حیثیت برابر ہے! خدا جانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ گاڑی کے دونوں پہیوں کی اپنی متعین جگہ ہوتی ہے ، اگر دونوں پہیے غلطی سی بھی ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو گاڑی فورا گرپڑے گی ۔ اسی طرح عورت و مرد کا معاملہ ہے۔ دونوں کے کچھ خصوصی امتیازات ، مناصب اور ذمہ داریاں ہیں ۔ جب تک یہ دونوں اپنے مناصب و ذمے داریوں کا لحاظ رکھیں گے،دنیا کا کاروبار بجا طور پر چلتا رہے گا اور جب اس حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی جائےگی، توعدم توازن اوراس کے برے ثمرات کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہے ۔

عورت و مرد میں جس حد تک مساوات ممکن تھی اسلام نے اس سے ہرگز روگردانی نہیں کی، لیکن جہاں یہ مساوات قانونِ فطرت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون عدل کے معارض ہو اسلام اس کا قایل نہیں ۔ اب تو نفسیات اور حیاتیات وغیرہ کے ماہرین نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ عورتیں ، مرد کے مقابلے میں فطری طور پر منفعل مزاج ، عجلت پسند اور اعصابی طور پر نازک واقع ہوئی ہیں ۔ اس حقیقت سے انحراف کرنے اور فطرت سے بغاوت کرنے کا خمیازہ انسان کو ہمیشہ بھگتنا پڑا ہے اورآج دنیا میں ہرسُواس غلو کی کرشمہ سازیاں کھلی آنکھوں نظر آرہی ہیں۔

اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ سماج میں مرد وعورت ، دونوں میں سے کسی کی صنفی خصوصیات کو مجروح نہ کیا جائے اور ہر دو کی مخصوص صلاحیتوں کو پوری طرح بروئےکار لانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے تاکہ عورت و مرد دونوں پوری جاں فشانی کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی انجام دیتے رہیں ۔ تبھی یہ ممکن ہوگا کہ دونوں میں سے کوئی نہ احساس برتری کا شکار ہو اور نہ احساس کمتری کا ۔

(کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے صدر ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here