مسلم خواتین بھی اپنے ووٹ کا بہ جا استعمال کریں
ندیم احمد انصاری
اس وقت بھارت میں انتخابات کا موسم ہے۔ یہ انتخابات کئی معنوں میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ با رسوخ اور باشعور افراد عوام کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے حقِ رائے دہی یعنی ووٹ کا بجا استعمال ضرور کریں۔ بات بھی درست ہے، اس لیے کہ
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ اس طرزِ حکومت (جمہوریت) کا ہی کمال تھا کہ تقریباً انہتر فی صد (69%)افراد نے جس شخص کو ناپسند اور نااہل قرار دیا، وہ بر سرِ اقتدار آ گیا اور اس کی حکومت صرف اس لیے عوام کے گلوں کا طوق بن گئی کہ اس سے زیادہ ووٹ کسی ایک شخص کو نہیں مل سکے۔ہمارے ملک میں سیاست پر یوں تو ہر دوسرا آدمی گفتگو کرنے کو تیار بیٹھا ہے، لیکن کم لوگ ہیں جو اس کی نزاکتوںاور داؤں پیچ کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس بابت کوئی خاص گفتگو نہیں کرنی، صرف دو باتیں آسان لفطوں میں عرض کرنا چاہتے ہیں: (1)جب سب ہی ناکارہ، نکمّے اور بدکردار ہوں، تو جو ان میں دوسروں سے ذرا اچھا ہو، اسے قبول کر لینا چاہیے (2)جب تک کوئی بہتر نظام موجود نہ ہو، کم تر نظام کو بالکلیہ ردّ نہیں کرنا چاہیے۔ قطعِ نظر اس بحث کے، معاشرے میں جتنی تعداد مَردوں کی ہوتی ہے، اس کے قریب قریب عورتیں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس لیے انتخابات کے موقعے پر جس طرح مسلم مَردوں کو اس پر آمادہ کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے حقِ رائے دہی کا صحیح استعمال کریں، اسی طرح مسلم خواتین کو بھی اس کے لیے راضی کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کو ضایع ہونے سے بچائیں۔اس لیے کہ ہماری ماں بہنیں عموماً اس طرف توجہ کم دیتی ہیں، جب کہ جمہوریت میں ہر بالغ کا ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔شریعتِ اسلام نے بھی انھیں اپنے حق کا استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
خواتین اور ووٹ
ووٹ دینادرحقیقت ایک قسم کی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے،اسی طرح اس میں مشورہ اور رائے کی حیثیت بھی ہے اور شریعتِ اسلامیہ کی روسے عورت اہلِ رائے ،اہلِ مشورہ اور اسی طرح اہلِ شہادت میں سے ہے۔ قرآن مجید میں ہے:{فان لم یکونا رجلین فرجل وأمرأتان} (البقرہ:282)خلفاے راشدین کے روشن دورِخلافت میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت ختم ہوئی اور جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان کی خلافت کے لیے لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کی تو اس موقع پر آپؓنے پاک دامن عورتوں سے بھی مشورہ اوررائے طلب کی تھی۔(البدایۃ والنہایۃ)حضراتِ فقہاؒنے بھی حدود و قصاص کے علاوہ دیگر معاملات میں (عورت کی) شہادت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (شامی)لہٰذا عورت کے لیے ووٹ ڈالنا منع نہیں،بلکہ جب انتخاب اسلامی اور غیر اسلامی نظریےپر مبنی ہو یا ایک امید وار صالح اور اس کے مقابلے میں دوسرا امیدوار فاسق ہو اور خواتین کے ووٹ استعمال نہ کرانے کی صورت میں دین کو خطرہ(ہو سکتا)ہو تو (ان کے ووٹ )استعمال کرانا ضروری ہے۔ تاہم ایک مسلمان عورت کے ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردہ اور دیگر امورِ شرعیہ کا خیال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے،ورنہ معصیت کے ارتکاب کی صورت میںووٹ کا استعمال کرنا صحیح نہیں۔یہاں یہ اعتراض نہ ہونا چاہیے کہ جب مسلم خواتین کو مسجد میں آکر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کیا جاتا ہے تو پھر ووٹ ڈالنے جانے کی اجازت کیوں کر ہوگی؟ اس لیے کہ جہاں تک عورتوں کے لیے مسجد آکر نماز پڑھنے سے بوجۂ فتنہ منع کرنے کی بات ہے،تو ظاہر ہے کہ نماز کوئی وقتی ضرورت کی چیز نہیں،بلکہ ایک دائمی عبادت ہے،جو شب و روز میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔لہٰذا عورتوں کے لیے بار بار گھر سے نکلنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ غالب ہے،نیز مسجدمیں باجماعت نماز پڑھنا نہ توان پر مَردوں کی طرح ضروری ہے اور نہ ہی باعث ِ فضیلت،بلکہ حدیث کی رو سے عورت کے لیے گھر کی کوٹھری کی نماز(زیادہ پردہ ہونے کے سبب)نہ صرف مسجدبلکہ مسجد ِنبوی میں آں حضور ﷺ کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز سے بھی افضل اور بہتر ہے۔اس کے برخلاف ووٹ وقتی ضرورت کی چیز ہےجو گھربیٹھے ممکن نہیں،لہٰذا جس طرح دیگر ضروریات کے لیے بدرجۂ مجبوری ،شرعی پابندیوں کی رعایت کے ساتھ خروج عن البیت(گھر سے نکلنے)کی اجازت اور گنجائش ہے،ووٹ ڈالنے کے لیے بھی ہوگی۔ووٹنگ بوتھ اگر قریب ہے تو شرعاً محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے،البتہ محرم ساتھ رہنے میں احتیاط ہے اور بہ حالاتِ موجودہ اسی پر عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔(شامی)
انگلی پر نشان لگوانے میں احتیاط برتیں
ووٹ ڈالتے وقت بہ طورنشانی انگلی پر جو نشان لگایا جاتا ہے،اس کے لیے کبھی تو نیچے میز وغیرہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کبھی نشان لگانے والا اپنے ہاتھ میں ووٹ ڈالنے والے کی انگلی پکڑ کر نشان لگا دیتا ہے۔اس صورت میں اگر مرد ووٹ ڈالنے والا ہو اور نشان لگانے والی عورت ہویا اس کے بر عکس یعنی مردنشان لگانے والا ہواور عورت ووٹ ڈالنے والی ہو، تو یہ صورتیں درست نہیں۔ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی اس وقت دی گئی ہے جب غیر شرعی امور کے ارتکاب کی نوبت نہ آئے اور غیر محرم منتظمین سے سابقہ نہ پڑے۔لہٰذا غیر محرم منتظم عورت کی انگلی پکڑے اور اس پر سیاہی کا نشان لگائےتو شرعاً اس کی اجازت نہیں،اور ایسی صورتِ حال میںعورت کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ ہوگی۔(شامی)یہ احتیاط کا پہلو ہے، لیکن اس پر عمل نہ ہو سکے اور اگر غیر محرم سے انگلی پر سیاہی لگانے کی نوبت پیش آجائے تو شرعاً گنجائش ہے،لیکن مسلمانوں پر لازم ہے کہ خواتین کے لیے حکومت سے علاحدہ انتظام یا کم ازکم خاتون منتظمہ کا مطالبہ کریں،اور جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو تب تک انگلی پر نشان لگانے کی حد تک رخصت ہوگی۔(شامی)اسی طرح(جب)مرد ووٹر ہو اور(غیر محرم) عورت (اس کی)انگلی پکڑکرنشان لگائے تو ممنوع ہے،اور(انگلی پکڑے بنا) نشان لگادے، تو گنجائش ہے۔(شامی)