حرم مکی و مدنی میں تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ

حرمِ مکی و مدنی میں تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ، ندیم احمد انصاری

یہ حقیقت ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت جاری کی، ہمیشہ بیس یا زائد تراویح پڑھی جاتی تھیں، البتہ ایامِ حرہ (۶۳ھ؁) کے قریب اہل مدینہ نے ہر ترویحے کے درمیان چار رکعتوں کا اضافہ کرلیا، اس لیے وہ وتر سمیت اکتالیس رکعتیں پڑھتے تھے اور بعض دیگر تابعین بھی عشرۂ اخیرہ میں اضافہ کرلیتے تھے۔ بہرحال صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمہ اللہ کے دور میں آٹھ تراویح کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا تھا، ان کا ارشاد مبنی برحقیقت ہےکیوں کہ حضراتِ سلف اس تعداد پر اضافے کے تو قائل تھےمگر اس میں کمی کا قول کسی سے منقول نہیں، اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اس بات پر سلف کا اجماع ہوگیا تھا کہ تراویح کی کم سے کم تعداد بیس رکعات ہیں۔(تراویح کی صحیح تعدادِ رکعات)

سعودی عرب کے نامور عالم اور مسجدِ نبویﷺ کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے قاضی شیخ عطیہ سالم نے تراویح کی تاریخ تفصیل سےبیان کی ہے۔انھوں نے مسجدِ نبویﷺ میں نمازِ تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے، اس کتاب کے مقدمّے میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجدِ نبوی ﷺمیں تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعات پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجدِ نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے، البتہ جو متعصب لوگ نمازِ عشاء کے بعد ہی مسجدِ نبویﷺ سے اس لیے نکل جاتے ہیں کہ دور دراز کی کسی مسجد میں جاکر آٹھ رکعات تراویح پڑھیں گے تو ان کو بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مسجد سے نکل کر نہ تو تم نے اس حدیث پر عمل کیا، جس میں گھر جاکر نوافل پڑھنے کو افضل کہا گیا ہے اور نہ ہی تمھیں مسجدِ نبویﷺ شریف میں نمازِ تراویح کا ثواب ملا، جہاں ایک نماز پڑھنا دوسری مسجد میں پچاس ہزار نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔اس کے بعد شیخ موصوف تاریخِ تراویح بیان کرتے ہوئےتفصیل سے خلفاے راشدین کا عمل ذکر کرنے کے بعد بہ طور خلاصہ فرماتے ہیں کہ آپ سب حضرات رضی اللہ عنہم مسجدِ نبویﷺ میں بیس رکعاتِ تراویح پڑھتے تھے۔ دوسری تیسری صدی کے متعلق فرماتے ہیں کہ دوسری صدی میں چھتیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھے جاتے تھے اور تیسری صدی میں بھی وتروں سمیت انتالیس رکعات ادا کی جاتی تھیں۔اس کے بعد چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی میں چھتیس کی بجائے پھر سے بیس رکعات تراویح پڑھی جانے لگیں۔آخری صدی میں حسبِ دستور بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی تھیں اور پھر رات کے آخری حصّے میں سولہ رکعتیں مزید پڑھی جاتی تھیں۔ نویں صدی میں بھی یہی معمول رہا،دسویں صدی میں بھی یہی معمول رہا۔گیارھویں، بارھویںاور تیرھویں صدی میں بھی یہی معمول رہا۔ چودھویں صدی کے پہلے پچاس سال کے دوران مسجدِ نبوی میں تراویح کا معمول حسبِ سابق رہا (کہ بیس تراویح شروع رات میں پڑھی جاتی تھیں، پھر رات کے آخر میں مزید سولہ رکعات پڑھی جاتی تھیں۔

چودھویں صدی کے آخری پچاس سالوں کے دوران مسجدِ نبوی میں تراویح کے معمول کی بابت فرماتے ہیں کہ دوسری نصف صدی میں سعودی حکومت قائم ہوگئی تو حرمِ مکی شریف وحرم مدنی شریف میں پانچوں نمازوں اور تراویح کو منظم کردیا گیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پورا رمضان عشاء کے بعد بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھی جاتی ہیں، اس طرح تراویح کا بیس رکعات پڑھنا بالکل پختہ اور مضبوط ہوگیااور دوسرے تمام علاقوں میں بھی یہی عمل جاری ہے۔(التراویح اکثر من الف عام)

راقم الحروف ندیم احمد انصاری عرض کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا احسان ہے کہ آج ۱۴۳۷ھ؁ تک بھی حرمین شریفین میں بیس رکعات تراویح کا ہی معمول ہے۔ والحمد للہ علیٰ ذلک

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here