ندیم احمد انصاری عاملؔ کی شاعری میں صنائع بدائع

محمد طالب انصاری

ندیم احمد انصاری طبقۂ نوجوانان میںرول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ عمدہ شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ جواں سال محقق، مصنف، مدرس، صحافی، مضمون نگار، تنقید نگار، تبصرہ نگار اور عالمِ دین بھی ہیں۔ ان کی تحقیق و تنقید کے نمونے دیکھنے ہوں تو ’شعرِ فقیہ‘ ’شائستہ تحریریں‘ اور ’ذوقِ ادب‘ دیکھیے۔ فنِ مضمون نگاری پر ان کے مختلف رنگ دیکھنے ہوں تو ’رشحات ندیم‘ ملاحظہ کیجیے۔اصولی تبصرہ نگاری کا جایزہ لینا ہو تو پروفیسر یونس اگاسکر کی ’غالب ایک بازدید‘ اور ندیم صدیقی کی ’پرسہ‘ پر لکھے گئے ان کے تبصروں کو پڑھیے۔ تصنیف سے لطف اندوز ہونا ہو تو ان کی ’ندیمِ عروض‘ کا مطالعہ کیجیے۔ باکمال تدریس کا جایزہ لینا ہو تو ’اسماعیل یوسف کالج، ممبئی‘ میں ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے اور جماعت میں حاضر رہنے والے طلبا سے گفتگو کیجیے۔ صحافت دیکھنی ہو تو ملک و بیرونِ ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں تسلسل کے ساتھ شایع ہونے والی ان کی تحریروں اور تجزیوں کو پڑھیے۔ ان کی دینی خدمات سے واقف ہونا چاہیں تو دین و مذہب پر اب تک شایع شدہ ان کی درجنوں ضخیم کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ حال میں وہ افسانچے بھی لکھ رہے ہیں اور شاعری میں بھی طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ان کی نظم و نثر دونوں پختہ ہیں اور ان دونوں کی ادبی و سماجی معنویت مسلّم۔قلیل عرصے میں ان کی ہمہ جہت خدمات اور کارنامے دیکھ کر رشک ہی کیا جا سکتا ہے۔
ندیم احمد انصاری کی شاعری کے موضوعات مختلف النوع ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں عشق و محبت، دین و مذہب، سماج و سیاست اور زندگی کے تمام رنگوں کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے اب تک حمد، مناجات، نعت، منقبت، غزل، پابند اور آزاد نظموں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ویسے وہ متفرق اشعار زیادہ کہتے ہیں۔آج ہم اُنھی متفرق اشعار کے حوالوں سے اُن کی شاعری میں شامل صنائع بدائع پر مختصر گفتگو کریں گے۔

ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ اظہار کے ایسے پیرایے و اسلوبِ بیان کے اہمتام کو ’صنعت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اداے مطلب کے لیے تو ضروری نہ ہو،لیکن اس سے کلام میں مزید حسن ولطافت اور معنی پیدا ہو جائیں۔اس کی مختلف قسمیں ہیں، جن میں سے حسبِ ذیل ندیم احمد انصاری کے اب تک منظرِ عام پر آنے والے کلام میں موجود ہیں۔

تجنیسِ تام

کلام میںایسے الفاظ استعمال کرنا‘جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں ایک جیسے ہوں، لیکن اُن کے معنی جدا ہوں،اسے ’تجنیسِ تام‘ کہتے ہیں۔ملک میں تیزی سے تبدیل ہونے والی آئین کی دھاراؤں کو موضوعِ بحث بنا تے ہوئے ندیم احمد انصاری کہتے ہیں؎

دستور کی دھاراؤں کو تبدیل تم نے کر دیا
نفرت بھرے اب ذہن کی دھارا بدلنی چاہیے

اس شعر میں لفظِ ’دھارا‘ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے، جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں یکساں ہے، لیکن دونوں کے معنی مختلف ہیں۔ ایک دھارا کے معنی ہیں ’دستورِ ہند کی شِق‘ اور دوسرے کے معنی ہیں ’رُخ‘۔

تجنیسِ زائد

کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرنا‘جو ایک دوحرف کی کمی بیشی سے مختلف ہوں، اسے ’تجنیسِ زائد‘کہتے ہیں۔ندیم احمد انصاری نے اپنے ایک سادہ اور خوب صورت شعر میں کہا ہے؎

جو کہنے سے بھی نہ سمجھے اُسے کیا پیار ہوتا ہے
سمجھتا ہے خموشی بھی جو سچّا یار ہوتا ہے

ایک شعر میں لفظ ’جاناں‘ اور ’جانا‘ کے استعمال سےاس صنعت کی کاریگری کی خوب صورت مثال پیش کرتے ہوئے گویا ہیں؎

لبوں کی لالی، رخوں کی رنگت، نظر جُھکا کر، ہمیں بلانا
ادا دکھا کر، یوں دل میں آکر، غضب ہے جاناں، یوں پھر سے جانا

تجنیسنِ ناقص

کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرنا‘ جن میں حروف کی ترتیب و کتابت ایک جیسی ہو، لیکن اعراب و تلفظ جدا اور معنی مختلف ہوں، اسے ’تجنیسِ ناقص‘ کہتے ہیں۔ سماج کی اصلاح کرتے ہوئے ندیم احمد انصاری نے اس صنعت کا بھی حسن کاری کے ساتھ اس کا استعمال کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو؎

نظر سے کسی کی اُترنے سے پہلے
نظر ڈالیے اپنے کردار پر بھی

تجنیسِ مضارع

جب کلام میں ایسے دو لفظ استعمال ہوں‘ جو ایک ہی یا قریب کے مخرج سے نکلتے ہوں، جس کے سبب آواز میں یکسانیت پائی جائے، اسے ’تجنیسِ مضارع‘ کہتے ہیں۔ اس صنعت کے نمونے کے طور پر ندیم احمد انصاری کا درجِ ذیل شعر ملاحظہ ہو، جس میں ایک سچّے عاشق کی محبت کا نقشہ کھینچا گیا ہے؎

پرسوں کے برسوں ہو چکے، پر تم نہ آئے اب تلک
کیا خوب ہے وعدہ تِرا، کیا خوب ہے چاہت مِری

تجنیسِ مذیّل

جب تجنیس کے لفظوں میں سے ایک لفظ کے آخر میں دو حروف جوڑ دیے جائیں، اسے ’تجنیسِ مذیل‘ کہتےہیں۔ندیم احمد انصاری کا شعر ملاحظہ ہو؎

مانگ لو بس یہی، اے مِرے دوستو
مانگنے سے ملے، گر نگاہِ کرم

تجنیسِ لاحق

جب شعر میں دو لفظ محض ایک حرف سے اس طرح مختلف ہوں کہ ان دونوں کے مخرج بھی بعید ہوں، اسے ’تجنیسِ لاحق‘ کہتے ہیں۔ ندیم احمد انصاری نے درجِ ذیل شعر میں ’جہاں‘ اور ’مکاں‘ کا استعمال کرکے اس صنعت کو برتا ہے؎

خاتم الانبیا فخرِ دونوں جہاں
آپؐ کی ذات ہے وجہِ کون و مکاں

تجنیسنِ خطّی

جب دو لفظ کتابت وغیرہ میں یکساں، لیکن نقطوں کے اعتبار سے مختلف ہوں، اسے ’تجنیسِ خطی‘ کہتے ہیں۔ دنیا میں ہر طرف اتحاد اور یک جہتی کی باتیںجاتی ہیں لیکن خود کہنے والوں کے دل آپس میں ملے ہوئے نہیں۔دلوں میں بغض اور رنجش ہے۔ اس صورتِ حال کی ترجمانی کرتے ہوئے ندیم احمد انصاری کہتے ہیں؎

خدا سے دلوں کو مِلایا جو ہوتا
جدا دل نہ ہوتے یہ رنجش نہ ہوتی

تجنیسِ محرّف

جب دو لفظ پوری طرح یکساں ہوں، لیکن حرکات و سکنات میں فرق ہو، اسے ’تجنیسِ محرف‘ کہتے ہیں۔ اس صنعت کو استعمال کرتے ہوئے ندیم احمد انصاری نے موجودہ سماج پر نشتر چلایا ہے؎

گَلے لگنا، گِلے مٹنا، پُرانی باتیں ہیں ساری
منافق ہیں یہاں اپنے، دغا پھر ہم کو دے دیں گے

اشتقاق

ایک ہی مادّے یا مصدر سے مشتق چند الفاظ کسی شعر یا جملے میں استعمال کرنے کو ’اشتقاق‘ کہتے ہیں۔ ندیم احمد انصاری نے اس صنعت کا استعمال کرتے ہوئے بڑی حکمت کی بات کہی ہے؎

قدم پیچھے کو لینا بھی تقاضائے سمجھ داری
ہر اک اقدام سے پہلے نظر ڈالو نتائج پر

ترصیع

جب شعر کے دونوں مصرعوں کے الفاظ علی الترتیب ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں، اسے ’ترصیع‘ کہتے ہیں۔ ندیم احمد انصاری اپنے ایک نعتیہ شعر میں کہتے ہیں؎

تِری عظمت، تِری رحمت، نبیؐ تیرا جلال
قلم حیرت زدہ کیسے لکھے تیرا کمال

مراعات النظیر

جب کلام میں ایسے الفاظ جمع کیے جائیں،جن کے معنی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایک قسم کی نسبت ہو،جو کہ تضاد اور تقابل کی حیثیت نہ رکھتی ہو،اسے ’مراعات النظیر‘ کہتے ہیں۔موجودہ دور میں رائج رسمی اعلیٰ تعلیم پر طنز کرتے ہوئے ندیم احمد انصاری اکبرؔ الٰہ آبادی کے رنگ میں گویا ہیں؎

تعلیم بھی تدریس بھی بازیچۂ اطفال ہے
کالج نہیں تعلیم گاہ بس جی کا اک جنجال ہے

تلمیح

کلام میں کسی تاریخی واقعے، قصّے یا مسئلے کی طرف اشارہ کرنا ’تلمیح‘ کہلاتا ہے۔ اس صنعت کو ندیم احمد انصاری نے پورے زور کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اسلامی عقائد و تاریخ کا مضمون پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں؎

تری قدرت کے آگے مَکر اُس کا چل نہیں سکتا
مقفّل باب ہیں سارے، مجھے تجھ پر بھروسا ہے

ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

پہلے تو پالا مصر میں دریا میں بھی رستہ دیا
لینے گئے جو آگ وہ، موسیٰ کلیم اللہ کیا

ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

قُم باذن اللہ سے، مُردوں کو زندہ کر دیا
بندہ ہے وہ نیک، رب کا، جس کو کہتے ہو خدا

تجاہلِ عارفانہ

جب کسی بات کا علم ہونے کے باوجود کلام میں اس سے لا علمی ظاہر کی جائے،اسے ’تجاہلِ عارفانہ‘کہتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی۔ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ندیم احمد انصاری کہتے ہیں؎

مجھے برباد کرنے کی ضرورت کیا کسی کو تھی
مِرے اپنے بنے دشمن تو دشمن فکرمند کیوں ہو

مبالغہ

جب شاعر اپنے کلام میں کسی چیز یا بات کی حد سے زیادہ یا بڑھا چڑھا کر تعریف یا مذمت کرتا ہے، اسے شعری اصطلاح میں ’مبالغہ‘ کہتے ہیں۔ندیم احمد انصاری نے اس صنعت کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔وہ اپنے آنسوؤں کو دریا کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر کہتے ہیں؎

دل ہے یہ دل، شمع نہیں، جلتا ہے، لیکن بے دُھواں
آنسوں مِرے، دریا نہیں، ساغر ہے اک بہتا ہوا

تشبییہ

جب کلام میں کسی شخص،شے یا بات کو کسی دوسرے شخص ،شے یا بات جیسا بتانے کی کوشش کی جائے،اسے’تشبیہ‘کہتے ہیں۔ ندیم احمد انصاری سیاسی ہلچل کے سبب جنتِ ارضی کی صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے ایک شعر میں کہتے ہیں؎

کشمیر جو کل تک تھا جنت کا نشاں
اِک اوڑھ لی اس نے بھی چادر سُرخ سی

استعارہ

جب کلام میں کسی شخص،شے یا بات کو کسی سبب سے عین کوئی دوسری چیز کہہ دیا جائے،اسے ’استعارہ‘ کہتے ہیں۔احادیثِ نبوی کے مطابق ریاض الجنہ حضرت نبی کریم ﷺ کے حجرےاور منبر شریف کے درمیان کی جگہ کا نام ہے۔ریاض الجنہ کے لفظی معنی ہیں جنت کا ٹکڑا۔ندیم احمد انصاری نے اس مضمون کو اپنے شعر میں اس طرح باندھا ہے؎

محمدؐ کے روضے پہ جو آگیا ہے
وہ جنت میں گویا جگہ پا گیا ہے

استعارے کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں؎

صفحۂ زندگی کب پلٹ جائے گا
دیکھیے بادِ سَر سَر تو چلنے لگی

طباقِ ایجابی

کلام میں ایسے دو الفاظ لانا‘ جو متضاد ہوں، لیکن ان کے ساتھ حرفِ نفی موجود نہ ہو، اسے ’طباقِ ایجابی‘کہتے ہیں۔ ندیم احمد انصاری نے زندگی کی جہدِ مسلسل کو بیان کرنے والے ایک خوب صورت شعر میں اس صنعت کا استعمال کیا ہے؎

معرکہ خیر و شر کا بپا ہے یہاں
زندگی جنگ کا دوسرا نام ہے

یہ چند مثالیں پیش کی گئیں۔ ابھی ندیم احمد انصاری کا شعری سفر جاری و ساری ہے۔ ہم ان کے لیے نیک دعاؤں اور تمنّاؤں کا اظہار کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس میدان میں بھی کئی معرکے سَر کریں گے۔

٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here