Talaq ka nizaam Quran-o-sunnat ki roshni me, Al Falah Islamic Foundation, India

talaq-ka-nizaam

اسلام میں طلاق کا نظام قرآن و سنت کی روشنی میں

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

(اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے، اس میں دیگر معاملات کی طرح نکاح و طلاق کے احکام و مسائل پر نہایت شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے، جس کا تفصیلی بیان موضوع سے متعلق مستقل کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کل چوں کہ اس مسئلے پر ہر کس و ناکس تبصرے کر رہا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اسلام کے نظامِ طلاق پر مدلل و جامع انداز میں کچھ باتیں پیش کر دی جائیں، تاکہ حق کے متلاشی کے لیے سہولت و آسانی ہو۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر یہاں مفسرِ قرآن مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب کی یہ مختصر تحریر ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہے، جس سے اسلام کے ’نظامِ طلاق‘کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، ان شاء اللہ۔ندیم احمد انصاری)

اسلامی تعلیمات کا اصل رُخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کے لیے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے، کیوں کہ اس معاملے کے انقطاع کا اثر صرف فریقین پر نہیں پڑتا، نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے اور پورا معاشرہ بُری طرح اس سے متاثر ہوتا ہے، اسی لیے جو اسباب اور وجوہ اس معاملے کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کا پورا انتظام کیا ہے۔زوجین کے ہر معاملے اور ہر حال کے لیے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے۔ نا موافقت کی صورت میں اوّل افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں اور اگر بات بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند افراد کو حَکَم اور ثالث بنا کر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ آیت؛ حکماً من أہلہ و حکماً من أہلھا۔ (النساء: ۳۵) میں خاندان ہی کے افراد کو ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں زیادہ بُعد پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے لیکن بعض اوقات ایسی صورتیں بھی پیش آتی ہیں کہ اصلاحِ حال کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے طرفین کا آپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، ایسی حالت میں اس ازدواجی تعلق کا ختم کر دینا ہی طرفین کے لیے راحت اور سلامتی کی راہ رہ جاتی ہے، اس لیے شریعتِ اسلام نے بعض دوسرے مذاہب کی طرح یہ بھی نہیں کیا کہ رشتۂ ازدواج ہر حالت میں ناقابلِ فسخ ہی رہے بلکہ طلاق اور فسخِ نکاح کا قانون بنایا۔ طلاق کا اختیار تو صرف مرد کو دیا، جس میں کوئی مانے یا مانے لیکن عادۃً فکر و تدبّر اور تحمل کا مادّہ عورت سے زائد ہوتا ہے، عورت کے ہاتھ میں یہ آزادانہ اختیار نہیں دیا تاکہ وقتی تاثرات سے مغلوب ہوجانا، جو عورت میں بہ نسبت مرد کے زیادہ ہے، وہ طلاق کا سبب نہ بن جائے لیکن عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کے ظلم و ستم سہنے ہی پر مجبور ہو جائے بلکہ اس کو یہ حق دیا کہ حاکمِ شرعی یا قاضی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرکے اور شکایات کا ثبوت دے کر نکاح فسخ کرا سکے یا طلاق حاصل کرسکے، پھر مرد کو طلاق کا آزادانہ اختیار دے دیا مگر اوّل تو یہ کہہ دیا کہ اس اختیار کا استعمال کرنا اللہ کے نزدیک بہت مبغوض و مکروہ ہے، صرف مجبوری کی حالت میں اجازت ہے، جیسا کہ حدیث میں ارشادِ نبوی ہے؛

أبغض الحلال إلی اللہ الطلاق۔

حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اور مکروہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔

طلاق میں ایک خاص پابندی

دوسری پابندی یہ لگائی کہ حالتِ غیظ وغضب میں یا کسی وقتی اور ہنگامی ناگواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کریں۔ اِسی حکمت کے تحت حالتِ حیض میں طلاق دینے کو ممنوع قرار دیا اور حالتِ طہر میں بھی۔۔۔جس طہر میں صحبت و ہم بستری ہو چکی ہو، اس میں طلاق دینے کو اس بنا پر ممنوع قرار دیا کہ اس کی وجہ سے عورت کی عدت طویل ہو جائے گی، اس طرح اس کو تکلیف ہوگی، ان دونوں چیزوں کے لیے قرآن ِ کریم کا ارشاد یہ آیا؛

فطلقوہن بعدتھن۔

یعنی طلاق دینا ہو تو ایسے وقت میں دو جس میں بلا وجہ عورت کی عدّت طویل نہ ہو۔(البقرہ:۶۵)

حیض کی حالت میں طلاق ہوئی تو موجودہ حیض عدت میں شمار نہ ہوگا، اس کے بعد طہر اور پھر طہر کے بعد حیض سے عدت شمار ہوگی اور جس طہر میں ہم بستری ہو چکی ہے، اس میں یہ امکان ہے کہ حمل رہ گیا ہو تو عدّت وضعِ حمل تک طویل ہو جائے گی۔طلاق دینے کے لیے مذکورہ وقت طہر کا مقرر کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس انتظار کے وقفے میں بہت ممکن ہے کہ غصّہ فرو ہو کر طلاق کا ارادہ ہی ختم ہو جائے۔

طلاق کے تین درجے

تیسری پابندی یہ لگائی کہ معاہدۂ نکاح توڑنے اور فسخ کرنے کا طریقہ بھی وہ نہیں رکھا جو عام بیع و شرا کے معاملات و معاہدات کا ہے کہ ایک مرتبہ فسخ کر دیا تو اسی وقت، اسی منٹ میں فریقین آزاد ہو گئے اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہو گیا، ہر ایک کو اختیار ہو گیا کہ دوسرے سے معاہدہ کر لے بلکہ معاملۂ نکاح کو قطع کرنے کے لیے اوّل تو اس کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے، پھر اس عدّت کی پابندی لگا دی کہ عدّت پوری ہونے تک معاملۂ نکاح کے بہت سے اثرات باقی رہیں گے، عورت کو دوسرا نکاح حلال نہ ہوگا، مرد کے لیے بھی بعض پابندیاں باقی رہیں گی۔

ظلم سے بچانے کی تدبیر

چوتھی پابندی یہ لگائی کہ اگر صاف و صریح لفظوں میں ایک یا دو طلاق دی گئی ہے تو طلاق دیتے ہی نکاح نہیں ٹوٹا بلکہ رشتۂ ازدواج عدّت پوری ہونے تک قائم ہے، دورانِ عدّت اگر یہ اپنی طلاق سے رجوع کر لے تو نکاحِ سابق بحال ہو جائے گالیکن یہ رجوع کرنے کا اختیار صرف ایک یا دو طلاق تک محدود کر دیا گیا تاکہ کوئی ظالم شوہر ایسا نہ کر سکے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے، پھر رجور کرکے اپنی قید میں رکھتا رہے، اس لیے حکم دے دیا گیا کہ اگر کسی نے تیسری طلاق بھی دے دی تو اب اس کو رجوع کرنے کا بھی اختیار نہیں بلکہ اگر دونوں راضی ہوکر آپس میں دوبارہ بھی نکاح کرنا چاہیں تو بغیر ایک مخصوص صورت کے دوبارہ نکاح بھی حلال نہیں۔آیاتِ مذکورہ میں اسی نظامِ طلاق کے اہم احکام کا ذکر ہے، اب ان آیات کے الفاظ پر غور کیجیے۔

تین طلاقیں قرآن میں

پہلی آیت میں اوّل تو ارشاد فرمایا:

الطلاق مرتان۔

یعنی طلاق دو ہی مرتبہ ہے، پھر ان دونوں مرتبہ کی طلاق میں یہ لچک رکھ دی کہ ان سے نکاح بالکل ختم نہیں ہوا بلکہ عدّت پوری ہونے تک مرد کو اختیار ہے کہ رجوع کرکے بیوی کو اپنے نکاح میں روک لے یا پھر رجوع نہ کرے، عدّت پوری ہونے دے، عدّت پوری ہونے پر نکاح کا تعلق ختم ہو جائے گا۔

اسی مضمون کو ان الفاظ میں ارشاد فرمایا:

فإمساک بمعروف أو تسریح باِحسان۔

یعنی یا تو شرعی قاعدے کے مطابق رجعت کرکے بیوی کو اپنے نکاح میں روک لے یا پھر خوب صورتی اور خوش معاملگی کے ساتھ اس کی عدت پوری ہونے دے تاکہ وہ اس رشتے سے آزاد ہو جائے۔۔۔آگے چل کر تیسری طلاق کا ذکر اس طرح فرمایا:

فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ۔

یعنی اگر اس شخص نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی (جو شرعاً نا پسندیدہ تھی) تو اب نکاح کا معاملہ بالکل ختم ہو گیا، اس کو رجعت کرنے کا کوئی اختیار نہ رہا اور چوں کہ اس نے شرعی حدود سے تجاوز کیا کہ بلا وجہ تیسری طلاق دے دی، تو اس کی سزا یہ ہے کہ اب اگر یہ دونوں راضی ہو کر پھر آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان کے آپس میں دوبارہ نکاح کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ عورت (عدتِ طلاق پوری کرکے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور حقوقِ زوجیت ادا کرکے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، آیت کے آخری جملے؛فان طلقہا فلا جناح علیہما أن یتراجعاکا یہی مطلب ہے۔

طلاقِ سنّت

یہاں قرآنِ کریم کے اسلوبِ بیان پر غور کرنے سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ طلاق دینے کا اصل شرعی طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو طلاق تک پہنچا جائے، تیسری طلاق تک نوبت پہنچانا مناسب نہیں۔ الفاظِ آیت ’الطلاق مرتان‘ کے بعد تیسرے طلاق کو حرف ’اِن‘ کے ساتھ ’فاِن طلقہا‘ فرمانے میں اس کی طرف اشارہ موجودہ ہے، ورنہ سیدھی تعبیر یہ تھی کہ ’الطلاق ثلاثٌ‘ کہا جاتا، اس کو چھوڑ کر یہ تعبیر اختیار کرنے میں واضح اشارہ ہے کہ تیسری طلاق تک پہنچنا نہیں چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امامِ مالکؒ اور بہت سے فقہاء نے تیسری طلاق کو صرف اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں۔ ان فقہاء کی اصطلاح میں اس کو بھی طلاقِ سنت کے لفظ سے تعبیر کر دیا گیا ہے، مگر اس کا مطلب کسی کے نزدیک یہ نہیں کہ اس طرح تین طلاقیں دینا مسنون اور محبوب ہے بلکہ طلاقِ بدعت کے مقابلے میں اس کو طلاقِ سنّت اس معنی میں کہہ دیا گیا کہ یہ صورت بھی بدعت میں داخل نہیں۔

طلاق دینے بہترطریقہ

قرآن و سنت کے ارشادات اور تعاملِ صحابہؓ و تابعینؒ سے عددِ طلاق کے متعلق جو کچھ ثابت ہوتا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ بچے تو طلاق کا احسن طریقہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق حالتِ طہر میں دے دے، جس میں مجامعت نہ کی ہو اور یہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دے۔ اس صورت میں عدّت ختم ہونے کے ساتھ رشتۂ نکاح خود ٹوٹ جائے گا، اس کو فقہاء نے ’طلاقِ احسن‘ کہا ہے اور حضراتِ صحابہ کرامؓ نے اسی کو طلاق کا بہتر طریقہ قرار دیا ہے۔ابن ابی شیبہؒ نے اپنے مصنَّف میں حضرت ابراہیم نخعیؒ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ طلاق دینے میں اس طریقے کو پسند کرتے تھے کہ صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دی جائے اور عدّتِ طلاق تین حیض پورے ہونے دیے جائیں تاکہ عورت آزاد ہو جائے۔

ویسے قرآنِ کریم کے الفاظِ مذکورہ سے اس کی بھی اجازت نکلتی ہے کہ دو طلاق تک دے دی جائیں مگر ’مرتان‘ کے لفظ میں اس طرف اشارہ فرما دیا کہ دو طلاق بہ یک لفظ و بہ یک وقت نہ ہوں بلکہ دو طہروں میں الگ الگ ہوں، اس لیے کہ’الطلاق طلاقان‘ سے بھی دو طلاق کی اجازت ثابت ہو سکتی تھی مگر ’مرتان‘ ایک ترتیب و تراخی کی طرف مشیر ہے، جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ دو طلاقیں ہوں تو الگ الگ ہوں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی شخص کسی کو دو روپئے ایک دفعہ دے دے دے تو اس کو دو مرتبہ دینا نہیں کہتے، الفاظِ قرآن میں دو مرتبہ دینے کا مقصد یہی ہے کہ الگ الگ طہر میں دو طلاق دی جائیں۔بہ ہر حال! دو طلاقوں تک قرآنِ حکیم کے الفاظ ثابت ہیں، اس لیے بہ اتفاقِ ائمہ و فقہاء یہ طلاق ِسنّت میں داخل ہے یعنی بدعت نہیں۔

دو طلاق کے بعد

جس شخص نے یہ دو درجے طلاق کے طے کر لیے، اس کے لیے یہ ہدایت دی گئی:

فاِمساک بمعروف أو تسریح باِحسان۔

اس میں’فامساک بمعروف‘ کے لفظوں میں دو حکم بتلائے گئے؛

(۱) اول یہ کہ عدت کے دوران رجعت کر لینا نکاحِ جدید کا محتاج نہیں بلکہ صرف امساک یعنی طلاق سے رجعت کرکے روک لینا کافی ہے، اگر ایسا کر لیا تو سابق نکاح ہی کی بنیاد پر تعلقِ زوجیت بہ حال ہو جائے گا۔

(۲) دوسرے اس میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی کہ اگر اس کا ارادہ اصلاحِ حال اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی گذارنے کا ہے تب تو رجعت پر اقدام کرے ورنہ چھوڑ دے کہ عدت گذر کر زوجیت ختم ہو جائے، ایسا نہ ہو کہ بغیر ارادۂ اصلاح کے محض عورت کو پریشان کرنے کے لیے رجعت کرے، اس کے بالمقابل ’أو تسریح باِحسان‘ فرمایا۔ ’تسریح‘ کے معنی کھول دینے اور چھوڑ دینے کے ہیں،ا س سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ قطعِ تعلق کے لیے مزید کسی عمل کی ضرورت نہیں بغیر رجعت کے عدت ختم ہو جانا ہی تعلقاتِ زوجیت ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔

طلاقِ بدعت

تیسری طلاق کے غیر مستحسن ہونے کی طرف تو خود اسلوبِ قرآن میں واضح اشارہ پایا جاتا ہے، اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں اور حدیث میں رسولِ کریمﷺ کے ایک ارشاد سے تیسری طلاق کا خصوصیت سے مبغوض و مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے، اسی بنا پر حضرت امام مالکؒ اور بعض دوسرے ائمۂ فقہاء نے تیسری طلاق کو مطلقاً ناجائز اور طلاقِ بدعت قرار دیا ہے۔ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ’الطلاق مرتان‘ فرمایا، تیسری طلاق کا یہاں کیوں ذکر نہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’تسریحٌ باحسان‘ جو بعد میں مذکور ہے، وہی تیسری طلاق ہے۔

مطلب اس کا جمہور علما کے نزدیک یہ ہے کہ جو کام تعلقاتِ زوجیت کے کُلّی انقطاع کا تیسری طلاق سے ہوتا ہے، وہی کام اس طرزِ عمل سے ہو جائے گا۔۔۔اگر کسی نے تیسری طلاق دے ہی ڈالی تو اب اس نے شریعت کی دی ہوئی ساری آسانیوں کو نظر انداز کر کے بلاوجہ و بلا ضرورت ختم کر دیا، جس کی سزا یہ ہے کہ اب وہ رجعت کر سکتا ہے نہ بغیر اپنی بیوی کی دوسری شادی کے اُس سے نکاح کر سکتا ہے۔

تین طلاق کا وقوع

نیز کسی فعل کا جرم و گناہ ہونا اس کے مؤثر ہونے میں کہیں بھی مانع نہیں ہوتا۔ قتلِ نا حق جرم و گناہ ہے مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا گیا ہے، وہ قتل ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت تو اس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقے سے۔ چوری کرنا بہ اتفاقِ مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کر دیا گیاہو وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔ اسی طرح تمام معاصی اور جرائم کا یہی حال ہے کہ ان کا جرم و گناہ ہونا اُن کے مؤثر ہونے میں مانع نہیں ہوتا۔اس اصول کا مقتضی یہی ہے کہ شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرنا اور بلا وجہ اپنے سارے اختیاراتِ طلاق کو ختم کرکے تین طلاق تک پہنچنا اگرچہ رسول اللہﷺ کی ناراضی کا سبب ہوا اور اسی لیے یہ فعل غیر مستحسن اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجود جب کسی نے ایسا اقدام کر لیا تو اس کا وہی اثر ہونا چاہیے جو جائز طلاق کا ہوتا یعنی تین طلاق واقع ہو جائیں اور رجعت ہی کا اختیار نہیں، بغیر ایک خاص صورت کے نکاحِ جدید کا اختیار بھی سلب ہو جائے اور رسول اللہﷺ کا فیصلہ اس پر شاہد ہے کہ اظہارِ غضب کے باوجودآپﷺ نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا، جس کے بہت سے واقعات کتبِ حدیث میں مذکور ہیںاور جن علماء نے اس مسئلے پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان میں ان واقعات کو جمع کر دیا ہے۔ (ماخوذ از معارف القرآن:1/563)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here