نکاح کرنا اور کروانا دونوں کارِ ثواب اور ضروری عمل
ندیم احمد انصاری
اسلام کی نظر میں نکاح کو ایک عظیم عبادت کی حیثیت حاصل ہے ، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نکاح سنتِ رسول بھی ہے اور توالد و تناسل نیز نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ بھی۔انسانی طبیعت میں جو جنسی تقاضا و میلان فطری طور پر رکھا گیا ہے ، اسے پورا کرنے کا واحد ذریعہ شریعت کی رو سے نکاح ہی ہے ۔بایں وجہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے ، تواس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے ، پس اسے با قی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقو یٰ اختیا ر کرنا چاہیے ۔(الترغیب) نیزحضرت علقمہؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انھوں نے کہا: ہم حضرت نبی کریمﷺکے ساتھ تھے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص نکاح کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے ، اس لیے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرم گاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے ، اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے ، اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے ۔(بخاری، مسلم)
باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمھارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انھیں بے نیاز کردے گا، اور اللہ بہت وسعت والا ہے ، سب کچھ جانتا ہے ۔(النور) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں مجرد ہیں خواہ عورت ‘ خواہ مرد ‘ خواہ بیوہ ‘ خواہ ناکتحذا، ان کا نکاح کر دو۔ لفظ ایامی سب کو شامل ہے ،اور آں حضرتﷺنے فرمایا کہ جب تم سے وہ شخص کہ جس کے دین اور خلق سے تم خوش ہو، نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کر دو، ورنہ زمین پر بڑا فتنہ اور سخت فسادہوگا۔علما کے نزدیک یہ امر مندوب و استحباب کے لیے ہے ، بعض کہتے ہیں وجوب کے لیے ، فیصلہ یہ ہے کہ جہاں زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور نکاح کرنے پر قادر بھی ہو، تو نکاح کرنا واجب ہے ، ورنہ مستحب ہے ۔نیز فرمایا گیا: والصالحین من عبادکم و اماء کم کہ اپنے غلام لونڈیوں میں سے بھی جن کو نیک دیکھو، ان کے بھی نکاح کردو، کیوں کہ نیک ہی نکاح اور خدمتِ مولیٰ کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں، یا صالحین سے مراد وہ کہ جن کو نکاح کی صلاحیت ہو۔ (تفسیرِ حقانی)معلوم ہوا نکاح کرنا حکمِ خداورسول کی تعمیل اور ثواب کا باعث ہے ، اس لیے نکاح کروانا بھی یقیناًکارِ ثواب ہوگا۔ کما قال تعالیٰ:تعاونوا علی البر و التقویٰ۔ (المائدہ)یعنی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور وانکحواسے ضرورت مند کا نکاح کروانے کا باعثِ ثواب ہونا خصوصی طور پر معلوم ہو گیا۔یہی وجہ تھی کہ سماج کے بڑے بوڑھے اور اہلِ فہم و شعور اس طرف بہت متوجہ رہتے تھے ، جس کا مشاہدہ دس بیس سال قبل تک خوب ہوتا تھا۔ اردو زبان میں اس قبیل سے ایک کہاوت بھی موجود ہے کہ چھان(چھپّر)کو ہاتھ لگانا بھی ثواب ہے ، جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتاہے کہ کسی کی اولاد نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں جو بن پڑے ، تعاون پیش کرے ۔
ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے ، اور اس سے غفلت بھی۔ ضرورت بڑھنے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب سے نیو کلیر (Nuclear)فیملیز کا کانسپٹ آیا ہے ، اور لوگ خاندان و رشتے داروں سے کٹنے شروع ہوئے ہیں، تب سے اچھا و مناسب رشتہ ملنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہو گیا ہے ۔ اول تو مناسب جوڑ نہیں ملتا، اور کوئی ملتا ہے تو اس کے مطالبات کی لسٹ کافی لمبی ہوتی ہے ۔ اسی سب کے چلتے میریج بیورو اور نکاح کروانے والے دلال جیسی اصطلاحیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جنھیں مناسب جوڑ سے کہیں زیادہ جلد ازجلد دلالی اینٹھنے کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ نکاح کروانے کی جانب لوگوں کی غفلت کی وجہ دنیوی زندگی میں انتہائی انہماک و مشغولی اور کسی حد تک خود غرضی ہے کہ کوئی کیوںکسی کا ٹینشن اپنے سر لے ۔ اس رجحان نے بہت سے ضرورت مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا ہے ، جس کا نتیجہ بہت سے فحاشی و حرام کاری کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ ایسے میں اصلاحِ معاشرہ کے نام پر محض جلسے جلوس کرنا کیسے سود مند ہو سکتا ہے ؟
طرّہ یہ کہ ان نوجوانوں سے لوگ یہ پوچھتے نہیں تھکتے کہ شادی کب کر رہے ہو؟ بریانی کب کھلا رہے ہو؟ جو کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے یا کم از کم ایسے ارمان جگانے کے مترادف ہے ، جن کو پورا کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے زیادتی ہے ۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒنے حج کے تعلق سے لکھا ہے کہ اکثر لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ حج کے بعد ہر مجلس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، حالاں کہ جن پر حج فرض نہیں ہے اور ان کا جانا بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ ان کی نہ مالی استطاعت ہے اور نہ مشقت پر صبر و تحمل ہو سکے گا، ان کے سامنے تشویق و ترغیب (شوق دلانے اور رغبت پیدا کرنے والے ) قصّے اور مضامین بیان کرنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے ان کو حج کا شوق پیدا ہوگا اور سامان ہے نہیں، نہ ظاہری، نہ باطنی، تو خواہ مخواہ وہ دقت اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے ، جس سے ناجائز امور کے ارتکاب کا بھی اندیشہ ہے ، اس لیے ایسے لوگوں کے سامنے حج کی تشویق اور ترغیب کے مضامین بیان کرنا جائز نہیں۔(اغلاط العوام)کیسی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے ،جسے لوگوں نے طاق پر رکھ دیا۔ یا للعجب!
عرض یہ کرنا ہے کہ جب کسی کو نکاح کے اسباب ووسائل میسر ہی نہیں، تو بار بار اسے چھیڑنا چہ معنی؟کیا آپ کو اس سے وحشت نہیں ہوتی کہ بار بار آپ کے اس ذکر کے باعث اس کے دل میں ارمان مچلنے لگیں اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک جائے ؟اور پھر وہ شہوت کے غلبے میں وہ کسی ناجائز اور غلط طریقے کو اختیار کر لے ؟جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:اے امتِ محمدیہ ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہو، اس وقت اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت کسی کو نہیں آتی، اے امت محمدیہ ! جو کچھ میں جانتا ہوں، تم بھی جان لو تو ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ۔(بخاری ، مسلم مطولاً)نیز حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابنِ آدم کے جسم کے ہر جوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے ، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے ، اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے ، اسے برائی سے روکنا صدقہ ہے ، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے ، اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے ، تو کیا یہ شہوت کی تکمیل اس کے لیے صدقہ ہوگی ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو کیا گناہ گار نہ ہوتا ؟ الخ(ابوداؤد)
اس آخری الذکر حدیث سے بھی نکاح کرنا اور کروانا دونوں کا کارِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے ۔اس لیے اگر آپ کو کسی کے حالات سے پوری واقفیت ہے اور آپ اس کی فضیحت کے بجائے واقعی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں ، تو اس کے مناسب جوڑ کی رہنمائی کے ساتھ اسے نکاح کی ترغیب دیجیے ، تو آپ کا یہ عمل ان شاء اللہ ضرور بالضرور صدقۂ جاریہ ہوگا، کیوں کہ نیکی صرف وہی نہیں، جسے ہم اپنی سمجھ میں نیکی سمجھتے ہیں، بلکہ قرآن و احادیث میں جس خیر کا بھی صراحتاً یا اشارتاً ذکر آیا ہے ، اسے انجام دینا، اس پر رہمنائی کرنا،اور اس میں تعاون پیش کرنا، سب کچھ نیکی ہے ، اور جسے کوئی نعمت میسر نہ ہو، اس کے سامنے بار بار محض اس کا ذکر کرنا، اس کا دل دکھاناہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے ۔آمین