=باباے قوم ’گاندھی جی‘ اورمادرِقوم’گائے‘ ! مولانا ندیم احمد انصاری
ہندوستان میں گائے کے احترام کو لے کر چل رہی بحث و تمحیص نے اب نیا رُخ لے لیا ہے، اس لیے کہ اب تک تو صرف اسے ایک محترم جانور سمجھا جا رہا تھا لیکن اب بعض انسان نما لوگوں نے اسے پوری قوم کی ماں ہونے کے شرف سے نوازنے کا مطالبہ کیا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ خود انسان،اپنے شرف و بزرگی کی اس طرح دھجیاں اڑانے کے در پہ ہے۔
خبر یہ ہے کہ 22دسمبر2015کو شیوسینا کے ایک ایم پی نے لوک سبھا میں گائے کو ’’راشٹریہ ماتا ‘‘ کہے جانے کا اعلان کرنے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔شیوسینا کے ایم پی چندر کانت کھرے نے وقفۂ صفر میں اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ گائے کے دودھ، پیشاب اور گوبر کے بہت سے فوائد ہیں اور جس طرح قومی جانور، قومی پرندے کا اعلان کیا گیا ہے اسی طرح گائے کو راشٹریہ ماتاقرار دیا جانا چاہیے ۔ہمیں یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آسکی کہ کسی بھی چیز میں نظر آنے والی مادی فوائد کی بنا پر اس طرح کی باتیں کیسے کہہ دی جاتی ہیں۔
دراصل اس سے ایک دن پہلے ہی بی جے پی ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ نے ’’بھگوت گیتا‘‘ کو ’’قومی کتاب‘ ‘قراردینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب دنیا جہادی دہشت گردی کو لے کر فکر مند ہے، ایسے میں گیتا بہت متعلقہ کتاب ہو گئی ہے۔بھگوت گیتا کے قومی کتاب ہونے کے مطالبے کے ایک روز بعد ہی شیو سینا کے ممبر آف پارلیمنٹ چندر کانت نے منگل کے روز ایوان میں عجیب و غریب طور پر گائے کی اہمیت و افادیت گنواتے ہوئے کہہ دیا کہ گائے کا دودھ ، پیشاب اور گوبر بیش قیمتی ہے اس لحاظ سے گائے کو ‘’’راشٹر ماتا‘‘ قرار دیا جانا چاہیے!
کافی وقت سے گائے کی خود ساختہ اس عظمت کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، جس کے پیشِ نظر کئی ریاستوں میں اس کے ذبح پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور گجرات میں تو بطور خیانت اس کی قربانی ممنوع ہونے کا حکم قرآنِ کریم سے ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی اور جن فوائد کا ذکر شیوسینا ایم پی نے کیا کچھ انھیں فوائد کا حوالہ پر اس موقع پر بھی دیا گیا تھا۔جس کا واقعہ یہ تھا کہ احمدآباد میں ایک پوسٹر لگایا گیا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ قرآنِ کریم میں گئو رکشا کی ہدایت موجود ہے۔ جس پوسٹر میں ایک طرف گجرات کی وزیرِ اعلیٰ آنندی بین پٹیل کی تصویر تو دوسری طرف چاند تارہ بنایا گیا تھا۔ایک انگریزی اخبار کے مطابق اس پوسٹر میں قرآنِ کریم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا تھا : ’اکرم البقرہ، فإنہا سید ۃ البہائمۃ‘ اور اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا تھا کہ گائے کی عزت کرو کیوں کہ یہ جانوروں کی سردار ہے ۔ پوسٹر میں مزید کہا گیا تھا کہ قرآنِ کریم میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جب کہ گائے کا دودھ ، دہی اور گھی صحت کے لیےمفید ہیں،اس لیے ہم سبھی کو گائے کا گوشت کھانے سے بچنا چاہیے اور اس کی عزت کرنی چاہیے ۔ ظاہر ہے یہ ایک افترا ہی تھا جس کا کوئی خاص فائدہ ان لوگوں کو نہیں ہوا، اس لیے اب بالکل نئی اسکیم کے طور پر پارلیمنٹ میں نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔
اس حالیہ واقعے کے علاوہ بھی ملک کے غریب عوام جو کہ انسان ہیں ان سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے بار بار اس طرح کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں، جیسے (۱)گائے بھلےہی کبھی کسی کا کھیت اجاڑ دیتی ہو، کبھی کسی کو سینگ مار دیتی ہو لیکن اسے ماں کا درجہ دیا جائے (۲)گائے کے گوبر کو ہی ملک کے کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کیا جائے اور جو کھاد بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے، اسے بند کیا جائے(۳)گو مُتر (گائے کا پیشاب) استعمال کر دوائیاں بنائی جائیں، اس لیے کہ اس میں تمام بیماریوں کا علاج ہے۔حد تو یہ کہ اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے، جس کا نام Cow’s urine is water of life ہے،جس کا مطلب ہے کہ گویا گائے کا پیشاب آبِ حیات ہے۔
ہمیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کا لباس پہن کر کوئی اس طرح کی باتیں کیسے کر سکتا ہے اور خود کرے تو کرے دوسروں کو کس طرح اس بے شرمی کی ترغیب دے سکتا ہے۔ پھر حالیہ واقعے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ایک طرف تو ہندوستان میں بابائے قوم کا درجہ گاندھی جی کو دیا گیا ہے، دوسری طرف مادرِ قوم کے طور پر گائے کا نام پیش کیا جا رہا ہے، ہماری ناقص عقل ان دونوں کی مماثلتیں تلاش کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں نہ صرف گائے کو عام انسانوں سے افضل بتایا جا رہا ہےبلکہ جس شخص کو وطن میں سب لوگوں میں بلند مقام و منزلت حاصل ہے، اس کے ہم پلہ بھی قرار دیا جا رہا ہے، ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس طرح ڈھکے چھپے انداز میں بابائے قوم کو مانگ کی گئی مادرِ قوم کی صف میں لا کر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو!
جو بھی ہم تو اس موقع پر اتنا ہی عرض کرنا چاہتے ہیں جو کہ تقریباً دو ماہ قبل ہندوستانی عدالتِ عظمیٰ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے بجا طور پر کہا تھا:’’ دیگر جانوروں کی طرح گائے بھی ایک جانور ہے جو کسی کی ماں نہیں ہو سکتی‘‘۔