ہم مسلمانوں کو کسی بھی مو قع پر سختی اپنانے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا چاہیے
مولانا شاہد معین قاسمی
دوسرے پارے کے شروع سے لیکر آیت ۱۵۲؍تک کعبہ کو مسلمانو ں کاقبلہ بنادیئے جانے پر لوگوں کے اعترا ض کا جواب اور مسلمانوں کوان کے اعترض کی پرواہ نہ کرنے کی نصیحت ہے ۔جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قبلے پہ اعتراض کرنے والے ناسمجھ ہیں دنیا جہاں کی ہر چیز اور دنیا کی چاروں سمتیں سب اللہ کی ہیں اللہ جس چیز کو جو مرتبہ دینا چاہیں انہیں حق ہے بندوں کا کام تو صرف اللہ کے حکم کو ماننا ہے ۔اور قبلے کی تبدیلی بھی یہی دیکھنے کے لئے ہے کہ کون اللہ اور ان کے رسول کے حکم پہ ہر حا ل میں عمل کرتا ہے۔کون کسی جگہ اور جہت کو اس لئے قبلہ بناتا ہے کہ وہ پہلے سے اس کے باپ دادا کا قبلہ تھی اور کون اس لئے کہ وہ اللہ کا حکم تھا۔مسلمانوں کو کی گئی نصیحت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اس تبدیلی کو اپنے مذہب کی عدم پائید اری نہ سمجھ کر اسے اپنے لئے باعث عزت سمجھیں کہ اللہ تعالی نے سب سے مبارک گھر کو جو سب سے پہلے اللہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا ان کا قبلہ بنادیا اور اللہ نے اس کے علا وہ بھی مسلمانو ں کو بہت سی خصو صیات سے نوازاہے چنانچہ مسلمانوں کوایک اعز از یہ بھی بخشا کہ جب قیامت میں دوسرے انبیاء کی امتیں ان کو جھٹلا رہی ہوں گی تو مسلمان ان کے حق میں ان جھٹلانے والوں کے خلاف گواہی دیں گے۔اور ہر عمل وعقیدے میں مسلمانوں کو زیادتی اور کمی سے محفو ظ رہنے والی امت بنایا۔ جب کہ خو د محمد ﷺ کو ان میں بھیجا جو اسلام کو تفصیل کے ساتھ اپنے قول وعمل کے ذریعے سے سمجھا تے ہیں اور زندگی کے حقیقی راز واسرار کا ان سے انکشاف کرتے ہیں۔اس لئے دوسرے لوگوں سے ڈرنے کی بجا ئے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے کعبے کی طرف منھ کر کے نماز پڑھیں۔
اسکے بعد آیت: ۱۶۳؍تک صبر و نماز کو مسائل کے حل کا ذریعہ بتایا گیا ،شہیدوں کا خاص مرتبہ بتایا گیا کہ انہیں مردہ نہ سمجھا جائے ،صفا و مروہ کا اللہ کے شعائر میں ہونا بتایا گیااور اللہ تعالی کی نافرمانی اور جان بوجھ کر اللہ کے دین کے دلائل کو جھٹلا نے پر عذاب سے ڈرایا گیا۔آیت: ۱۶۴؍سے ۱۶۷؍تک انسانوں کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ زمین وآسمان کی پیدائش ،ہواؤوں کے چلنے ،رات و دن کے بدلنے اور بارش وغیر ہ کے نظام میں غور کرکے اللہ کو پہچانیں !آیت:۱۶۷؍سے ۱۷۶؍ تک محض اپنے فضل وکرم سے انسا نو ں کے لئے اپنی طرف سے پیداکردہ اچھی اور پاکیزہ غذاؤو ں کو شکریہ کے ساتھ کھا نے کا حکم دیا جن میں گوشت بھی ہے اور ان میں سے کسی کو بھی اپنے لئے حرام کرنے کو نادانی اور شیطانی دھوکہ بتلایا اور ساتھ ہی جوغذانسانوں کے لئے خطرناک ترین تھیں (جیسے خنزیر ،مردار اور خون وغیرہ)ان کی ایک لسٹ بھی پیش کردی جو انسانی دنیا پر بڑا حسان ہے ۔ساتھ ہی دین کی صحت و حقانیت کو سمجھ نے میں عقل کے صحیح استعمال کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ جولو گ اللہ کے صحیح دین کو نہیں سمجھ رہے ہیں وہ اپنی عقل کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں اور اس کا صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں۔جب کہ آیت: ۱۷۶؍سے۱۸۲؍تک ایک تو ایک بار پھر قبلے کی تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں سے کہا کہ انسانیت اوردینداری چہروں کو پچھم یا پورب کی طر ف پھیر لینا ہی نہیں ہے کہ تم نے اس کے لئے اتنا ہنگامہ کھڑا کررکھا ہے بل کہ اللہ کے وجو د کو ماننا اور اللہ کے نبی کی اطاعت کرنا ، مال کی ضرورت اور اسے لگا ؤ کے با وجود اسے دوسرے ضرورت مند اور کمزور رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں پہ خرچ کرنا ،وعدے کو پورا کرنا ،کسی کو دھوکہ نہ دینا،ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرنا اوران کے فیصلے سے خوش رہنا یہ بھی دین کا بہت ہی اہم حصہ ہے جس کی تم پر و اہ نہیں کرتے۔ بہر حال اس حکم سے پوری انسانیت کو اور خاص کر مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی گئی کہ غیر ضروری چیزوں میں الجھنا ، دین کے کسی ایک خاص مسئلے کو پکڑ کربیٹھ جا نااور اس کے لئے فتنہ وفساد کرنا یہ دین کے منافی ہے اور خاص کر جب مقصد بھی فتنہ پھیلانا ہو تو پھر دین ہو نے کا سوال ہی کیا پید ہو تا ہے؟۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو کسی بھی مو قع پر سختی اپنانے سے پہلے ہزار بار یہ سوچ لینا چاہئے کہ کیا وہ مسئلہ اتنی سختی کا متقاضی بھی ہے یا نہیں جس کے ہم شکار ہورہے ہیں؟ اور اگرہے تو کیا ایسا تو نہیں کہ اس ایک مسئلے کے پیچھے پڑکر بہت سے اہم دینی اور دنیو ی کاموں کی انجام دہی سے ہم اجتماعی یا انفرادی طورپر محروم ہو جارہے ہیں؟ اور کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارے اس ایک چیز میں سختی سے ہمارے بھائیوں کی دلچسپی مثبت کی بجائے منفی ہو جا ئیگی ؟اور فائدے کی بجائے ہما ری دنیا اور آخرت کا نقصان ہی زیادہ ہو جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اپنے کسی غیر اہم مو قف میں تشدد برتنے سے اسلام کے بارے میں لوگوں کے ذہن بدگمانی اور نفرت کا شکار ہو ں گے ؟ ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالی نے کھلے طورپہ اعلان کیا کہ اسلامی سز ائیں اور خاص کر قصاص اس لئے ہے کہ دنیا کو ظلم وزیادتی سے بچایا جائے انسانی جان ومال کی ارزانی سے حفاظت کی جائے اور جب انسا ن اسلامی سزاؤو ں میں غور کرے گا تو یہ حقیقت اسے سمجھ میں آجا ئے گی ۔اسی کے ضمن میں مرنے والوں کو اپنے مال کے بارے میں وصیت کا حکم فرمایا جو بعد میں مکمل طورپر باقی نہیں رہا۔
آیت :۱۸۳؍سے لیکر ۱۸۸؍تک روزے کی فرضیت، اس کے فوائد اور اس میں بندے کی طاقت کاتصورسے بالا حدتک رعایت کا ذکر ہے۔فوائد کا خلا صہ یہ ہے کہ اللہ تعا لی نے روزے اس لئے فرض کئے تا کہ بندہ سال بھر کی عبادت اور پر ہیز گاری کے لئے ان کے ذریعے سے تربیت حاصل کرے اور اپنے آپ کو دنیوی اور دینی ،بدنی اور روحانی دونوں طرح کی مصیبتوں سے بچا سکے ۔جب کہ ۱۸۸ سے لیکر ۲۱۰؍تک اسلامی کیلنڈر کی اہمیت ،اشہر حرم میں عام حالات میں جنگ نہ کرنے کی تاکیداورہر اس عمل سے کلی اجنتا ب کا حکم دیا گیا ہے جس سے انسان اپنے آپ کو پر یشانی میں ڈالے چاہے وہ دیکھنے کے لحاظ سے کتنا بھی دینی کیوں نہ ہو ۔ موجو دہ حالات میں اس آیت پہ غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے اجتماعی اور انفرادی کو شش کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔پھر حج کے احکام بیان کئے گئے ہیں اور دنیا وآخرت کی ہر طرح کی بھلا ئی کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے اسلام اور قرآن کا مزا ج معلوم ہو تاہے کہ اسلام نہ صرف آخرت میں انسانو ں کی ترقی چاہتا ہے بل کہ اس دنیا میں بھی ہر طر ح کے آرام وسکون کو انسانی زندگی کے لئے پسند کرتا اور اس کے لئے انسانی کو ششوں کو سرا ہتا بھی ہے اس کے بر خلاف جو لو گ بلا ضرورت اپنے آپ کو دنیا میں پریشان رکھنا چاہتے ہیں یا آرام وسکون کے لئے اپنی سی کو شش نہیں کرتے وہ اسلام و قرآن کی نظر میں اچھے اور پسندید ہ ا نسان نہیں قر ار پاتے۔ پھر بھلا قر آن دہشت گردی کی مذمت کیو ں نہ کرتا ؟ اسے انسانیت کے خلاف ناقابل معافی جرم کیو ں نہ گردانتا ؟چناں چہ اس نے ا یک ہی ساتھ دنیا میں فساد پھیلا نے والو ں کودنیا کے بدترین انسان ہو نے کا درجہ قر ار دیتے ہو ئے یہ اعلا ن کردیا کہ یہ لو گ شیطانی طاقتوں کے آلہ کا ر ہیں اور جہنم ہی ان کاٹھکانہ ہے اور بس۔ لہذ ا مسلمانوں کو ہر طر ح کی دہشت گردی کے عمل سے نہ صرف دور رہنا چاہئے کہ بل کہ اپنی طاقت بھر اس کے خلا ف پر امن اقدامات کرنے چاہئیں۔اس کے سا تھ ہی باری تعالی نے کسی بھی بہانے سے دین میں اعتقاد یا عمل کے لحا ظ سے کمی کرنے سے منع فرمایا اور ایسا نہ کرنے کو بڑا خسارہ بیان فرمایا۔
پھر آیت: ۲۱۰؍سے ۲۲۵؍تک کی آیتوں میں باری تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل سے پو چھیں کہ اللہ تعالی نے انہیں کس قدر انعامات سے نوزا تھا؟پھر مذاہب کے اختلاف کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایک ہی دین اتارا تھا اور شروع میںایک ہی دین کو تمام انسان مانتے بھی تھے پھرجان بوجھ کرانہوں نے اپنے اپنے دین الگ الگ بنا لئے ۔اور خاص حالت میں مسلمانو ں سے یہ کہا گیا کہ جس طر ح پہلے کے لو گوں پر حصول جنت کے راستے میں پر یشا نیاں آئیں تمہیں بھی وہ پر یشانیاں آئیں گی اس لئے تمہیں ان سے غافل نہیں رہنا چاہئے ۔ پھر ما ل کا مصرف بیان کرتے ہو ئے قریبی رشتہ داروں کو مقدم رکھنے کا حکم فرمایا،ناگوار حالات سے نہ گھبر انے کی وصیت فرمائی ،محترم مہینوں میں جنگ کا حکم بیان کیا ،شراب ْ،جوئے اور خنزیر کے گوشت کی صریح حرمت اور ان کے نقصانات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ،غیر مسلم کے ساتھ نکاح کو منع فرماتے ہو ئے اسے خلاف شرافت قرار دیا۔پھر آیت :۶ ۲۲؍سے ۲۴۲؍ تک نکاح و خلع کا وہ نظام بیان فرمایا جو کسی بھی معاشرے کی بقاء اور صحت کے لئے نسخہ ٔ کیمیا ہے۔اور جن کا مطالعہ ہر معاشرے اور نظام کے لئے بے حد مفید ہے ۔
اس کے بعد پارے کے اخیر تک دو اہم و اقعے کا تذکرہ ہے :
پہلے کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں طاعون کے ڈرسے کچھ ہزار لو گ اپنی بستی چھوڑکر نکلے تو اللہ تعالی نے انہیں راستے میں ہی مو ت دیدی پھر بہت دنوں کے بعد ایک نبی کا اس جگہ سے گذر ہو اتو انہوں نے ان کی چمکتی ہو ئی ہڈیوں کو دیکھر اللہ سے دعاء کی کہ اے اللہ انھیں زند ہ کردے تو اللہ تعالی نے انہیں دو بارہ زند ہ کردیا …
دوسرے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسی ؑ کے بعد یہود کچھ دنوں تک ٹھیک رہے ا س کے بعد پھر شرارت شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں ان کے دشمن ان پہ قابض ہو ئے اور ان کے پا س جو انبیاء ؑ کی برکت کی چیزیں تھی وہ بھی ان سے چھین لے گئے ۔اس پہ ان لو گوںنے اس وقت کے موجودہ نبیؑ سے ایک بادشاہ کی درخواست کی لیکن جس کو انہوں نے اللہ کی طرف سے باد شاہ مقرر کیا اسے یہ لو گ بادشاہ ماننے کے لئے تیا ر نہیں تھے اللہ کے نبی نے کہا کہ اس کے تمہارے بر حق بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ جو تابوت تم سے چھین گیا تھا وہ تمہارے پاس آجائے گا اور یہ ہی ہو ا کہ فرشتے اس تابوت کو لیکر طالوت کے پاس آ گئے پھر یہ بادشاہ تسلیم کرلئے گئے اور لشکر لیکر یہودیوں کے دشمن بادشاہ کے خلاف نکلے ،راستے میں نہر پڑنے والی تھی جس کا پانی پینے سے منع کیا گیا تھا لیکن اسی ہزار میں سے ۷۶ہزار نے ا س سے پانی پی کر نافرمانی کا ثبوت دیا ۔اب بچے ہوئے لو گ بھی اپنی تعداد کے کم ہو نے کی وجہ سے دشمن سے لڑائی کرنے میں کتر ارہے تھے لیکن انہیں نصیحت کی گئی کہ تعد اد کے کم یازیادہ ہونے سے شکست اور فتح کا تعلق نہیں ہے تو یہ لوگ آگے بڑھے اورتھوڑی تعداد کے باوجود اللہ نے انہیں فتح سے نوازا ۔�