Iddat se Mutalliq, Awaam mein Mashhoor Chand Galat Baatein, Maulana Nadeem Ahmed Ansari

imageعدّت سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں

مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، ممبئی، انڈیا)

لفظی اعتبار سے ’عدّت‘ کے لفظی معنی شمار کرنے کے ہیں اور شریعت کی رو سے طلاق پا جانے یا شوہر کے انتقال کے بعد ایک خاص مدت تک دوسرے نکاح وغیرہ سے رکے رہنے کو عدت کہتے ہیں۔(نون الف)
عوام میں مشہور ہے کہ اگر شوہر کے مرنے پر اس کا جنازہ گھر سے نکلنے سے پہلے اس کی عورت گھر سے دوسرے گھر چلی جائے تو جائزہے، جنازہ نکلنے کے بعد جائز نہیں ،گویا ان عوام کے خیال میں عدت وفات کے وقت سے شروع نہیں ہوتی بلکہ جنازہ لے جانے کے وقت سے شروع ہوتی ہے یہ محض غلط ہے۔(ص:۱۷۱)
اکثر عوام عدت مطلقاً تین مہینے اور بعضے چار مہینے دس دن سمجھتے ہیں یہ علی الاطلاق غلط ہے۔حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے [یعنی جس شوہر کا انتقال ہو، یا جس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو، اگر اس کی بیوی حاملہ ہے، تو بچہ پیدا ہونے پر عدت ختم جائے گی] خواہ مطلقہ ہو یا اس کا شوہر وفات پاگیا ہو۔ غیر حاملہ عورتوں (کی عدت) میں تفصیل ہے کہ اگر اس کا شوہر وفات پاگیا ہے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہیں اور اگر وہ مطلقہ ہے تو اگر اس کو حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض ہے اور اگر کم سنی (کم عمری یعنی نابالغی) کے سبب ہنوز (ابھی تک) حیض نہیں آیا یا بڑھا پے کے سبب حیض موقوف ہوگیا تو ان دونوں کی عدت تین مہینے ہے ،پس علی الاطلاق سب صورتوں میں ایک ہی قسم کی عدت کاحکم کرنا یہ غلط ہے۔(ص:۱۷۱)
اس زمانے میں تقلیدِ مغرب کی ایک لعنت یہ بھی ہے کہ بیوہ اور وہ عورتیں جن کو طلاق ہوگئی ہو، عدت میں نہیں بیٹھتیں، کھلے عام گھر سے باہر آنا جانا، بازار جانا اور شادیوں اور تقریبات میں شرکت کرنا ہوتا رہتا ہے او راس حکم ِشرعی (عدت میں بیٹھنے) کی قطعاً پرواہ نہیں کی جاتی، یہ سخت غلطی اور گناہِ کبیرہ ہے، اس سے توبہ کریں اور عدت کے حکم کی تعمیل کریں۔(ص:۲۱۴)
عورتوں میں [یہ] جو رسم ہے کہ شوہر کے انتقال پر بیوہ کی چوڑیاں اتار نے کے بجائے توڑ ڈالتی ہیں ،یا وہ [عورتیں اس رواج کے سبب] خود ہی توڑ ڈالتی ہے، یہ ہندئووں کی رسم ہے او رمالی نقصان ہونے کی وجہ سے اسراف بھی ہے، لہٰذا [اس طرح چوڑیاں ] توڑی نہ جائیں بلکہ اتار لی جائیں، تاکہ بیوہ عدت کے بعد پہن سکے، البتہ اگر اتار دینے میں کچھ تکلیف اور دشواری ہو تو مجبوراً توڑ دی جائیں۔(ص:۲۱۴)
ایک کوتاہی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ عدت کے اندر بیوہ سے نکاح کرلیتے ہیں، عدت پوری ہونے کا انتظار نہیں کرتے، پھر بعض لوگ اپنے نزدیک بڑی احتیاط یہ کرتے ہیں کہ نکاح کو تو جائز سمجھتے ہیں مگر اس سے صحبت نہیں کرتے اور میاں بیوی والے تعلقات نہیں رکھتے، یاد رکھنا چاہیے کہ عدت کے اندر نکاح جائز نہیں اگر کرلیا تو منعقد نہیں ہوگا بلکہ عدت میں تو منگنی کرنا اور کھلے الفاظ میں پیغامِ نکاح دینا بھی جائز نہیں، قرآنِ کریم میںاس کی ممانعت آئی ہے۔(ص:۲۱۴)
ایک عام غلطی یہ ہے کہ اگر بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، اس میں اگر ایک یادومہینے انتیس کے ہوں تو اس کمی کے بدلے دس دن عدت میں اور بڑھا دیتے ہیں، یہ غلط ہے، عدت کا حساب خوب یاد کھنا چاہیے۔(ص:۲۱۵)
جب کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو ختمِ عدت پر رسمِ چھ ماہی ادا کی جاتی ہے، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوہ کے یہاں عدت کے ختم پر بہت سی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور یوں کہتی ہیں کہ اس کو عدت سے نکالنے کے لیےآئی ہیںاور بعض عورتیں عدت سے نکلنے کے لیے یہ ضروری سمجھتی ہیں کہ عورت عدت والے گھر سے نکل کر دوسرے گھر جائے اور اس کا بڑا اہتمام کرتی ہیں، یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بیوہ [غیر حاملہ] کی عدت کے جب چار ماہ دس دن گذر جائیں یا(حاملہ کا) وضعِ حمل ہوجائے تو وہ عدت سے خود بہ خود نکل جاتی ہے، خواہ اسی گھر میں رہے۔(ص:۲۱۵)
بعضے لوگ کسی غیر منکوحہ وغیرہ معتدہ (ایسی جس کا نکاح نہ ہوا اور نہ وہ عدت میں ہو) کو زنا سے حمل رہ جائے تو اس کے لیے بھی وضع حمل کو عدت تجویز کرتے ہیں سو یہ بھی غلط ہے، اس پر عدت نہیں ، اس سے نکاح فوراً جائز ہے البتہ صحبت اور اس کے مقدمات بوس وکنار وغیرہ جائز نہیں ، جب تک وضعِ حمل (یعنی بچہ پیدا) نہ ہوجائے ۔(ص:۱۷۱)
بعضے لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اگر کسی عورت کو طلاق ہوگئی یا اس کے شوہر کی وفات ہوگئی اور اس کو ایک مہینے بعد خبر ہوئی تو بعضے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدا عدت کی خبر پہنچنے کے وقت سے ہوگی، حالاں کہ ایسا نہیں بلکہ طلاق یا وفات ہی کے وقت سے عدت کا شمار ہوگا۔(ص:۱۷۱-۱۷۲)
بعضے لوگ سمجھتے ہیں کہ نابالغہ کا شوہر اگر مرجائے تو اس پر عدت نہیں ، سو یہ بھی غلط ہے۔(ص:۱۷۲)
مسئلہ: بعضے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عدت کے اندر گھر سے نکل آئے تو اس پر پھر از سرِ نو عدت واجب ہوگی اور پہلی عدت ٹوٹ گئی ،سو یہ بالکل غلط ہے، یہ تو ضرور ہے کہ بلا عذر گھر سے نکلنا معتدہ (عدت گزارنے والی ) کو جائز نہیں[لیکن اس سے جاری عدت ٹوٹتی نہیں]۔(ص:۱۷۲)
[بالفاظِ دیگر] بعض ناواقف حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بیوہ عدت میں بغیر کسی عذر کے گھر سے باہر آجائے تو از سر نو عدت واجب ہوگی پہلی عدت ٹوٹ گئی، یہ بالکل غلط بات ہے، اس طرح عدت نہیں ٹوٹتی، البتہ بلا عذرِ شرعی عدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں، بڑا گناہ ہے۔ (ص:۲۱۴)
بعض عورتیں یوں سمجھتی ہیں کہ عدت گزرنے کے بعد عدت سے نکلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس گھر سے دوسرے گھر جائے اور اس کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے، سو یہ بالکل غلط ہے (یاد رکھو کہ) جب وہ مدت گزر گئی، پس عورت عدت سے نکل گئی، گو اسی گھر میں رہے۔ (ص:۱۷۲)
اکثر لوگ طلاقِ بائن کے بعد مہر کو تو واجب الادا سمجھتے ہیں، مگر عدت کے اندر نفقہ بھی واجب ہے، البتہ عدتِ وفات کا نفقہ کسی کے ذمّے واجب نہیں ہے اور اسی طرح خلع میں عورت اگر نفقۂ عدت کو تصریحاً ساقط کردے تو اس میں بھی ساقط ہوجاتا ہے۔(ص:۱۷۲)
عدت میں بعضے تو طلاقِ بائن میں بھی شوہر سے پردہ نہیں کراتے، حالاں کہ اس وقت پردہ ضروری ہے اور بعضے طلاقِ رجعی میں بھی پردہ کو ضروری سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ ضروری نہیں بلکہ اگر قرائن سے امید رجعت کی ہو تو زینت بھی کرنا جائز ہے بلکہ مستحسن ہے۔(ص:۱۷۲ )
مشہور ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کے جنازے کے سامنے سے (جب کہ جنازہ گھر سے چلنے لگے) نکل جائے تو اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے، سو یہ محض لغو اور باطل ہے، غیر حاملہ کی عدتِ وفات پورےچار ماہ دس دن ہے۔(ص:۱۷۲)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here