اسلام میں عورت کی مختلف حیثیتوں پر ایک نظر

اسلام میں عورت کی مختلف حیثیتوں پر ایک نظر

ندیم احمد انصاری

(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

آج ہر طرف حقوقِ نسواں کے نام پر ایک ہنگامہ بپا ہے اور لوگ اس صنفِ نازک کے جذبات سے کھیل کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف انھیں آزادی کے نام پر بر سرِ بازار لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کے حقوق کے نام پر ایسے بے تکے قوانین بنائے جا رہے ہیں، جن سےہر گھر کا چین و سکون غارت ہو گیا ہے۔ ایسے ہی ضمیر فروشوں نے یہ راگ الاپنا بھی شروع کیا ہے کہ اسلام نے عورت کی آزادی صلب کر لی اور انھیں چہار دیواری میں بند کر دیا۔ گو یہ راگ پُرانا ہے اور اس پر متدین حضرات کی جانب سے بہت کچھ عرض کیا جاتا رہا ہے، اس وقت ہمارے پیش نظر بھی اسی غلط دعوے کے ابطال پر چند توضیحات پیش کرنا ہے۔

کسی بھی عورت کی بنیادی طور پر زندگی بھر میں چار حیثیتیں ہوتی ہیں؛

(۱) بیٹی: جب وہ جنم لیتی ہے تو کسی کی بیٹی ہوتی ہے۔

 (۲) بہن: اگر ماں باپ کےکوئی اور اولاد بھی ہو تو اُس سے اِس کا رشتہ بہن کا ہوتا ہے۔

(۳) بیوی: نکاح کے بعد وہ کسی کی بیوی بن جاتی ہے۔

(۴) جب خدا اس کی گود میں اولاد کی نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ ایک ماں ہوتی ہے۔

اسلام نے ان سبھی حیثیتوں میں اسے نہایت اہم درجہ دیا ہے یہ اور بات ہے کہ لوگوں نے اس پر تعصب یا لاعلمی کے پردے ڈال دیے ہیں۔ ہم یہاں عورت کی انھیں حیثیتوں پر اسلام کی رو سے مختصر ترین گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ

بہ حیثیت بیٹی

زمانۂ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے اس لیے وہ لڑکی کے پیدا ہونے پر غضب ناک ہوتے، حالاں کہ وہ بھی جانتے تھے کہ نظامِ کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہےلیکن اس کے باوجود جب ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اسے زندہ در گور کر دیتے۔ قرآن مجید نے ان کے اس قبیح فعل کو اس طرح بیان کیا ہے:

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى، ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا، وَهُوَ كَظِيمٌ۔ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ،أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوْنٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ، أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔

اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصّے میں گھٹتا جاتا ہے۔ وہ (بزعم خویش) اس ’بری خبر‘ کی عار کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے۔ وہ (سوچتا ہے کہ) آیا اس کو ذلت کی حالت میں لیے پھرے یا زندہ زمین میں دفن کر دے۔ خبردار! کتنا برا خیال ہے جو وہ کرتے ہیں۔(النحل: ۵۸-۵۹)

اس طرح اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر روک لگا کر دورِ جاہلیت کی اس رسمِ بد کا قلع قمع کیا۔ وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا، آپﷺ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔

 رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے اور انھیں اپنی حیثیت کے مطابق پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے آگ سے حجاب ہوں گی۔ (ابن ماجہ، ادب المفرد)

ایک روایت میں فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں، جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتا ہو اور اُن کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو اور اُن سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقیناً اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اگر دو ہی (بیٹیاں) ہوں تو؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: خواہ دو ہی ہوں (ان پر بھی یہی بشارت ہے)۔ (ادب المفرد)

یہی نہیں بلکہ اسلام نے سب سے پہلے وراثت میں بیٹی کا حق جاری کیا، ارشادِ ربانی ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ، وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ۔

اللہ تمھیں تمھاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکے کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے۔(النساء:۱۱)

بہ حیثیت بہن

اسلام نے بحیثیت بہن بھی عورت کے حقوق پر توجہ دلائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔ (ترمذی)

بطور بہن عورت کا وراثت میں حق بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:

وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ، فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ۔

اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کی ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچاے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادایگی) کے بعد۔(النساء: ۱۲)

بہ حیثیت بیوی

ٍارشادِ ربانی ہے:

وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے واسطے تمھاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیںتاکہ تم ان کی طرف مائل ہو کر سکون حاصل کرو اور تم میں الفت ومودت پیدا کر دی،جو لوگ غور کرتے ہیں ،ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (الروم:۲۱)

نکاح ایک نہایت پختہ عہد ہے،جس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ نے زوجین کے درمیان ارتباط پیدا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعد فریقین میںسے ہر فرد کو ’زوج‘کہا جاتا ہے،چوں کہ ہر ایک دوسرے کا جوڑ ہوتا ہے۔باری تعالیٰ نے اسی امر کی پُر حکمت تصویر کشی اس طرح کی ہے:

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ۔

وہ تمھارے لیے لباس ہیںاور تم ان کے لیے لباس ہو۔ (البقرہ:۱۸۷)

اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ زوجین کو باہم الفت ومحبت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بن کر رہنا چاہیے۔لباس کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعے پردہ حاصل ہوتا ہے ،اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کا معاملہ کرنا چاہیے۔لباس کا ایک مقصد زینت حاصل کرنا بھی ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ زینت ہونا چاہیے ،چوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں۔میاں بیوی کے تعلق کے یہ دوفائدے نہایت اہم ہیں، اگر بیوی نہ ہو تو شوہر اپنے جنسی تقاضوں کی تکمیل کے لیے نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا پھرے ۔اس آیت سے ایک بات اور سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے قریب ترین ہوتے ہیں۔شوہر وبیوی،دونوں کے حقوق مساوی ہیںبجز ان چند باتوں کے جومَردوں کے ساتھ ان کی فطرت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔

ارشادِ ربانی ہے:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ، وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔

عورتوں کا حق مَردوں پر ویسا ہی ہے،جیسے دستور کے موافق مَردوں کا حق عورتوں پر ہے،البتہ مَردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے۔(البقرہ:۲۲۸)

خیال رہے !اس فضیلت کا مطلب ہرگزیہ نہیں کہ عورت ،مرد کی غلام ہے ،شوہر جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرےبلکہ عورت کے بالمقابل مرد پر زیادہ ذمےداری ڈالی گئی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کا لحاظ رکھے۔

ارشادِ ربانی ہے:

وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسٰى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ۔

مومنو! (اپنی )بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔اگر وہ تمھیں (کسی معاملے میں) ناپسند ہوں،(تو) عجب نہیں کہ تم ایک چیزکوناپسند کرواور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔(النساء:۱۹)

یہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح ہدایت فرما دی کہ بیوی کے حقوق ،کشادہ دلی سے ادا کرتے رہنااور ہر معاملے میں ان کے ساتھ احسان و ایثار کی روِش اختیار کیے رہنا۔

بہ حیثیت ماں

ماں کی حیثیت کا تو پوچھنا ہی کیا،رسول اللہ ﷺ نے اہلِ ایمان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے ارشاد فرمایا؛ جنت ماں کے قدموں تلےہے۔(ابن ماجہ)نیز فرمایا انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق اس کی ماں ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اﷲﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا؛ اے اللہ کے رسولﷺ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمھاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمھاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:تمھاری والدہ۔اس نے عرض کیا:پھر کون؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا:تمھارے والد۔ (بخاری)

بعض حضرات نے اس حدیث کے الفاظ سے ایک مسئلہ نکالاہے کہ کسی شخص پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کرنے کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں،ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے۔جس کی مندرجۂ ذیل تین وجہیں ہیں؛

(۱) وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے۔

(۲) ولادت کی تکلیف ومشقت بردا شت کرتی ہے ۔

(۳)دودھ پلاتی ہے۔

فقہ کی کتابو ں میں لکھا ہے کہ اولاد پر والدہ کا حق والد کے حق سے بڑاہےاور اُس کے ساتھ سلوک و بھلائی اور اس کی خدمت و دیکھ بھال کرنا زیادہ واجب اور زیادہ ضروری ہے اور اگر ایسی صورت پیش آجائے ،جس میں بیک وقت دونوں کے حقوق کی ادائیگی دشوار ہو جائے ؛مثلاً: والدین کے درمیان کسی وجہ سے اَن بَن ہو اور لڑکا اگر ماں کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو باپ ناراض ہوتا ہو اور اگر باپ کے حقوق کا لحاظ کرتا ہے تو ماں آزردہ ہوتی ہوتو ایسی صورت میں یہ درمیانی راہ نکالی جائے کہ تعظیم واحترام میں تو باپ کے حقوق کو فوقیت دے اور خدمت گزاری نیز مالی امداد وعطا میں ماں کو فوقیت دے۔(مستفادمظاہر حق جدید بتصرف )

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here