Jitni bando ki zarurat hai Allah ta’ala utni zaroorat utarte hain

جتنی بندوں کی ضرورت ہے اللہ تعالی اتنی ضرور اتارتے ہیں

مولانا شاہد معین قاسمی

چودہویں پارے کے شروع یعنی سورہ ٔ حجر کی دوسری آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ خود کافر بھی مسلمان ہونے کی تمناکریںگے (یا توموت کے وقت یا پھر جہنم میں پہنچ کر )جب کہ آیت :۳،۴؍ میں پیغمبروں سے عذاب کا مطالبہ کرنے والوں سے یہ کہاگیا ہے کہ ہر بستی اور قوم کے عذاب کا وقت متعین ہوتا ہے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں خود ہی انجام کو پہنچ جاؤگے اور عذاب کا مزہ چکھ لوگے ۔آیت :۶سے ۹؍تک یہ بیان کیاگیا ہے کہ مکہ کے کافروں نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ مجنون ہیںاگر آپ سچے ہیں تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے اللہ تبارک وتعالی نے جواب دیا کہ فرشتے یاتووحی لیکر آئیں گے یا پھر عذاب لیکر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہم نے ہی قرآن کریم کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریںگے اور جب ہم قرآن کی حفاظت کریں گے تو قر آن والے کی بھی حفاظت کریں گے اس سے آپ ﷺ کو تسلی ہو گئی کہ یہ مخالفین آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اور آپ کی حفاظت خو د اللہ تعالی کریںگے ۔پھر آیت: ۲۵؍تک اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا بیا ن فرمایاہے جس میں ایک خاص بات یہ فرمائی کہ ہرچیز کا خزانہ میر ے ہی پاس ہے او رمیں ضرور ت کے مطابق ہی اتارتا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی کسی چیز کی کوئی کمی نہیں رہے گی جتنی بندوں کی ضرورت ہے اللہ تعالی اتنی ضرور اتارتے ہیں اور اگر کہیں کچھ کمی دکھرہی ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کے خزانے میں کوئی کمی ہوگئی ہے، نعوذ باللہ اللہ تعالی بخیل ہوگئے ہیں یا اس لیے کہ اللہ کے فرشتوں نے خود اللہ تعالی کو چکمہ دیکر گھوٹا لہ شروع کردیاہے ہر گز نہیں! بل کہ صرف اس وجہ سے کہ بندوں نے ہی اس کی تقسیم اور حفاظت میں بڑی کارستانیاں مچائی ہیں اور اس سلسلے میں سب نے ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ عوام الناس نے سہل انگاری ،بزدلی یا تھوڑے سے وقتی فائد ے کے لیے اس کی دیکھ ریکھ اور تقسیم کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو دیدی جو پہلے یہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد میںاس کا استعمال کرلیں اور جو بچ جائے وہ یا عوام کے پاس پہنچے یا ضائع ہوجائے دونوں برا بر ہیں چناں چہ: ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ہندوستان میں ۲۰۰۹ء میں بارش سے حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری گداموں میں اکسٹھ ہزار ؍ٹن اناج پڑا سڑتارہا مرکزی وزیرِ غذا اور فو ڈ کارپوریشن آف انڈیانے یہ مشوردیا تھاکہ پچاس لاکھ ٹن اناج غریب ترین اضلاع کے عوام میں تقسیم کرادیا جائے لیکن بااخیتار وزراء کے غروپ نے اسے مسترد کردیا کیوں کہ ایسا کرنے سے پانچ ہزارکروڑ فوڈسبسیڈی بڑھ جاتی۔(انقلاب اداریہ ۹؍اگست۲۰۱۰ )
راشٹر یہ سہار ممبئی کے محترم اڈیٹر لکھتے ہیں: ہمارا ملک خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے ہمارا مرکزی اسٹاک ۲۸،۶۰۴لاکھ ٹن تک پہنچ چکاہے۔لیکن اس میں سے ایک سو اٹھہتر (۱۷۸؍)لاکھ ٹن گہوں کے لیے ہمارے پاس رکھنے کی مناسب جگہ نہیں ہے وہ یا تو کھلے آسمان کے نیچے سڑرہا ہے یا چوہے انہیں برباد کررہے ہیں،…جس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ملک کی عدالت عالیہ نے غریبی سے نیچی سطح پر زندگی گزارنے والے لوگوں میں انہیں تقسیم کرنے کی بات کہی ہے عدالت عالیہ نے جمعہ کے روز پیپلس یونین فورسول لبرٹیز (پی یوسی ایل) کی درخواست پر کہا کہ خوراک کی ضمانت اور کسانوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے مناسب مقدار میں غلے کی خریداری اور ان کا اسٹاک ضروری ہے …نوبرس پہلے بھی عدالت نے پی یوسی ایل کی مفاد عامہ کی عرضی پہ سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلے کی حفاظت کے تعلق سے تمام ریاستوں کے تمام اضلاع میں نہیں تو ہر ریاست اور ہر ڈیو یزن میں ایف سی آئی کا کم ازکم ایک بڑا گودام بنانے کی ضرورت ہے…(اداریہ راشٹریہ سہارا ؍۳۱ اکتوبر ۲۰۱۰ء )
الہ باد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں جمعہ کو اتر پردیش میں دوہزار ایک سے دو ہزار سات تک ہوئے پینتیس ہزار کروڑ روپے کے اناج گھوٹالے پر دیئے گئے اپنے فیصلے میں بدعنوانی پر اپنا تبصرہ درج کیا ۔بنچ نے کہا کہ بدعنوانی اس قدر ہے کہ اس سے ملک کے اتحاد پہ خطرہ پیدا ہوسکتاہے۔کیا عدلیہ کو خاموش رہنا چاہیے دونوں ججوں نے کہا کہ اگر عدلیہ خاموش رہی اور لاچار ہوگئی تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گا۔حکومت نے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھایاتو ملک کی عوام قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے اور بد عنوانوں کو سڑکوں پہ دوڑادوڑا کر مارا جائے گا۔بدعنوانی میں ملوث لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اتنظامیہ میںبدعنوانی عام ہے جب کہ ایمانداری صرف باتیں بن کر رہی گئی ہے بدعنوانی پہ عام آدمی کی حالت بلی کی گلے میں گھنٹی کون باندھے کی سی حالت ہوگئی ہے بدعنوانوں نے خود کو بچانے کے لیے کچھ ایسے طریقے اپنائے ہیں جس سے ان کی کھال بچی رہی ہے ۔عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں یہ بھی تبصرہ کیا ہے کہ انتظامیہ او پر سے نیچے تک بدعنوانی میں ملوث ہے ۔(سہارا ممبئی چار دسمبر دوہزار دس صفحہ تین)
پروفیسر ڈاکٹر ارون کمار،معاشیات جواہر لال نہرو یونیورسیٹی جو ہندوستان میں کالی معیشت نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں،میکسیسے، انعام یافتہ حق اطلاعات کے کارکن مسٹرارون کچری وال او ردستاویزی فلم ساز نیز سی ایف ٹی وی نیوز کے ایڈیٹر مسٹر سوہس بوکر وغیرہ نے ایک سیمنار میں کہا کہ ہندوستان میں کالاد ھن مجموعی پیداوار۵۰ فی صدکے برابر ہے ۔پروگرام کا انعقاد ورکنگ گروپ آن الٹرنیٹ اسٹرٹیجیز نے کیا تھا ۔(سہارا ،۱۲؍ اکتوبر۲۰۰۹ء ص۵) بہر حال رپورٹوں کی ایک جھلک سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ اللہ کے خزانے میں کمی نہیں بل کہ بندے اسے ضائع کردیتے ہیں۔
آیت: ۲۶ سے ۴۴؍ تک اس بات کا بیا ن ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنی قدرت سے انسانو ں کوایک کھنکھانا تی اور سنی ہوئی مٹی سے پیدا کیا جب کہ جنات کو لو والی آگ سے پید اکیا ۔پیدائش کے بعد فرشتوں سے کہا کہ آدم کا سجدہ کرو فرشتوں نے سجدہ کیالیکن شیطان نے یہ کہکر انکا ر کردیا کہ ہم ایسے انسان کا سجد ہ نہیں کرسکتے جسے آپ نے کھنکھناتی اور گوند ھی ہو ئی مٹی سے پید ا کیا ہے یہ سنتے ہی اللہ تبار ک وتعالی نے اسے اپنے یہاں سے دھتکار دیااور فرمایا کہ قیامت کے دن تک تم پہ لعنت ہی لعنت ہو گی ۔شیطان نے کہا اے رب مجھے قیامت تک کے لئے چھوٹ دیدیجئے کہ میں انسانوں کے برے کاموں کو ان کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کروں اور انہیں گمر اہ کروں لیکن آپ کے نیک بندوں کو گمراہ نہیں کرسکوں گااللہ تبارک وتعالی نے فرمایا تجھے بالکل اختیار ہے میر ے نیک بندے تمہارے پھندے میں نہیں آسکتے اور جو آئیں گے ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہو گا ۔یہاں پہ ایک بات شیطا ن نے کہی ہے جو ہمارے لئے سوچنے کی ہے کہ وہ برے کاموں کو ہمارے سامنے خوبصور ت بناکر پیش کرے گا نقصان دہ کاموں کو فائدہ مند بتلائے گا گندی چیزوں کوتفریحی سامان سمجھائے گا اور لوگوں کے فیشن میں تباہ ہونے کو ان کا نجی مسئلہ منوائے گا اس لئے ہم انسانوں کے پاس ایک ہی معیار ہے کہ جوکام اللہ تبارک وتعالی نے پسند کیا ہے ہم بھی وہی پسند کریں اور جسے ناپسند کیا ہے ہم بھی اسے ہی ناپسند کریں اور بس ۔پھر آیت: ۷۷؍تک اللہ تبارک وتعالی نے نیک بند وں کی جنت کے بارے میں بیان فریا اس کے بعدآیت: ۸۴؍تک فرشتوں کا قوم لوط کوہلاک کرنے سے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آنا بیان کیا گیاہے اور ساتھ ہی حضرت صالح کی قوم ،ثمود کا بھی تذکر ہ فرمایا جب کہ آیت: ۸۵؍ میںبیان فرمایا گیاکہ د نیا بے مقصد نہیں بنائی گئی ہے بل کہ قیامت آئیگی اور حساب وکتاب ہوکر رہے گا آیت :۸۷،۸۸ ؍میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو دنیا کی سب سے بڑی دولت بتلاتے ہوئے اپنے نبی سے فرمایا کہ اگر چہ آپ کے پاس مال ودولت نہیںہے اوربعض دفعہ آپ کو کافی دقت کا سامنا ہوجاتاہے لیکن آپ کے پاس قر آن پاک اورسورہ ٔ فاتحہ یہ ایسی دولت ہے جس کا مقابلہ دنیاکی کوئی دوسری دولت نہیںکرسکتی ا س لئے آپ غمگین نہ ہوں اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیکر لوگوں کو دین پہنچاتے رہیں اور اپنے بارے میں یہ اعلان فرمادیں کہ میر ا کام صرف دین پہنچادیناہے اور اللہ کے حکم کو بلا کسی جھجک کے صاف صاف بیا ن کردیا کریں اور اگر ان کی باتوں سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے تواللہ کی تسبیح پڑھ لیا کر یں اور مرتے دم تک اللہ کی عبادت سے نہ رکیں۔
سورہ ٔ نحل میں باری تعالی نے اپنی مختلف قدرتوں اور احسانات کو بیا ن فرماکر اپنی عبادت کی طرف بلایا ہے آیت :۲۷سے ۳۹ ؍تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ کافر لوگ تو دین کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کرتے ہیں لیکن اللہ تبارک و تعا لی ا نہیں ایک دم سے ناکام بنا دیتے ہیں اور جس طرح غیر وں کاعمل ہر زمانے میں سازش کے بڑ ے بڑے شیش محل تیا ر کرنا رہا ہے اسی طر ح اللہ تبارک وتعالی کابھی عمل ہرزمانے میں ان شیش محلوں کوپارہ پارہ کرکے پیوندِ زمین کردینا رہا ہے پھر ان کے بنانے والوں پر عذاب بھی ہوتاہے جو موت کے وقت سے ہی شروع ہوجاتاہے اور موت کے وقت اپنے اس عمل کاانکار کردیتے ہیں اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی براکا م نہیں کیا لیکن جواب ملتا ہے کہ تم نے جو کیا وہ سب اللہ کو معلوم ہے اب تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔اس کے برعکس جب ایمان والوں سے سوال ہوتا ہے کہ تمہارے رب نے تم پے کیا اتارا تو وہ کہتے ہیں کہ بہت اچھا دین اتارا پھرانہیں دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی ملتی ہے اورفرشتے انہیں سلام کرتے ہیں۔نہ ماننے والو ں کے عمل سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ انہیں موت کا انتظار ہے یہی طریقہ ہر زمانے کے انکار کرنے والوں کارہا ہے اور ہرزمانے میں انہیں عذاب کا مزہ بھی چکھنا پڑا ہے۔ ایک خا ص بات یہ بیان کی گئی ہے کہ کافر یہ بھی کہیں گے کہ اللہ تعالی اگر نہیں چاہتے توہم اللہ کے علاوہ کسی کی عباد ت نہ کرتے جس کے جواب میں اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ انبیا تو ہر زمانے اور ہر قوم میں آتے رہے ہیں سب نے یہی کہا کہ تم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو تو کچھ لوگوں کو ہدایت ملی اور کچھ لوگ جنہوں نے اس کاانکار کیا ان کے لئے گمراہی متعین ہو گئی پھر لاڈلے نبی ؑسے یہ کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ آپ چاہے جتنابھی ان کے پیچھے پڑجائیں اورجتنی بھی ان کے لئے کوششیں کرلیں اللہ تعالی انہیں ہدایت دینے والے نہیںہیں کیوں کہ انہوں نے جان بوجھ کر انکار کیا ہے۔آیت: ۴۱،۴۲؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے مہاجرین مسلمانو ں کے اجر وثواب کا تذکر ہ فرمایا ہے۔آیت :۴۳،۴۴؍ میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے جتنے انبیا آئے تھے وہ سب بھی انسا ن ہی ہوتے تھے فرشتوں کو اس کام کے لئے کبھی نہیںبھیجاگیا پھر آیت: ۴۵ ، ۴۶ ، ۴۷؍ میں دین کے خلاف سازشیں رچنے والوں کو زمین میں دھنسادیئے جانے کی دھمکی دی گئی ہے اور آیت: ۴۸،۴۹،۵۰؍میں یہ بتلایا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اپنے اپنے لحاظ سے اللہ کاسجدہ اور ان کی اطاعت کرتی ہے ۔آیت: ۵۶؍تک میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کو نہیں مانتے ان کی عباد ت کو خالص نہیں کرتے وہ سب کے سب اللہ ہی کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیںاور جب مصیبت آتی ہے تو بھی اللہ ہی کو یاد کرتے ہیںپھر اللہ کے ساتھ دوسرے کو جوڑنے کاکیا مطلب ؟یہ لوگ ایک دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ اللہ کے دیئے ہوئے رزق میںسے اپنے معبودوں کا حصہ لگادیتے ہیں ۔آیت: ۶۰ ؍تک فرشتوں کو اللہ تبارک تعالی کی بیٹیاں قرار دینے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ تو خود بیٹی کا نام سنتے ہی شرم سے پانی پانی ہونے لگتے ہیں اوراسے اپنے لئے ذلت کا سامان بتلاتے ہیںتو اللہ تبار ک وتعالی کی ذات سے بیٹیوں کوکیسے جوڑتے ہیں؟جو بیٹیاں (اِن کے لحاظ سے)ان کے لئے شرم کاذریعہ ہیں وہ اللہ کے لئے کس طرح فخر کا ذریعہ بن جائیں گی؟پھر آیت: ۷۲؍ تک نہ ماننے والوں کوعذاب سے ڈراتے ہوئے گوبر اور پیشاب کے بیچ سے جانوروںکا خالص دودھ عطا کرنے ،شہدکی مکھیوں سے شہد بنوانے ،انسانوں میں سے کچھ کو آخری عمر تک زندہ رکھنے اور انسانوں کے لئے بیویوں اور شوہروں کوپیدا کرنے جیسی نعمتوں کاتذ کرہ ہے جب کہ آیت: ۸۳؍ تک کفر کے غلط ہونے کو دومثالوں سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی سب سے زیادہ علم والے ہیں ،انہوں نے جن چیزوںکی خبریں دی ہیں ،وہ سب برحق ہیں اور وہ ہو کر رہیں گی ۔ اگردنیا میں کسی کے پاس کوئی علم ہے، تووہ انہی کا دیا ہو ا ہے ا ور وہ بھی بہت تھوڑاہے۔ (سو رہ ٔ بنی اسرائیل: آیت؍ ۸۵ )علم کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے ،جس میں کوئی بھی انسان اللہ کے برا بر ہو جائے ۔لیکن آجکل کچھ لوگوں نے اللہ تعالی کے علم کو چیلینج کرنا شروع کردیا۔ وہ اللہ تعالی کی بتلائی ہو ئی باتوں کو پرانی باتیں بتلانے لگے ۔اور کچھ سائنسد ا ں تو ایسے بھی نکل گئے ،جو صرف اس لئے اللہ تعالی کے وجود ہی کا انکار کر بیٹھے کہ ان کو’’ خود‘‘ اللہ تعالی کی پیداکی ہوئی کچھ چیزوں کے بارے میں تھوڑی سی جانکا ری، دوسرے لو گوں سے پہلے حاصل ہو گئی یا یہ کہ انہوں نے اللہ تعالی کی پیدا کی ہو ئی کچھ چھپی چیزوں کو ڈھونڈ نکا لا اور چند الگ الگ چیزوں کو آپس میں ملاکر ان سے کوئی نیا نتیجہ نکال لیا جو پہلے سے اللہ تعالی کو منظور تھا۔ جیسے الگ الگ قسم کے لوہے اور دھاتوں وغیرہ کو ملا کر گاڑیوں اور ہو ائی جہاز کی ایجاد کردی گئی۔ کچھ کو زمین کے اوپر ،نیچے دوڑا یا گیا اورکچھ کو فضا میں اڑا یا گیا ۔ اللہ تعالی انسان کی لاعلمی کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں جب انسان پیدا ہو تا ہے تو اسے کسی چیز کاعلم نہیں ہو تا۔ کیا یہ سچائی نہیں ہے کہ ایک انسان جب پیدا ہو تا ہے، تو اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہو تا کہ وہ کہاں تھا، کہاں سے کہاں او رکیسے آیا ہے ،اس کے ارد گرد کیا او ر کو ن ہیں ؟او ر کیایہ حقیقت نہیں کہ دنیا کے جتنے بڑے بڑے سائنسداں ہیں، سب کی طالب علمی کی زندگی ،ان کی تاریخ اور سیرت کابڑا حصہ بنتی ہے، جو ایک وقت میں شروع ہو کر دوسرے وقت میںختم ہوجاتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو جتنا ہی بڑا ہو تا ہے ،اس کے بارے میں اتنی ہی تفصیل کے ساتھ یہ لکھا اور بیان کیا جاتاہے کہ ا تنی عمر سے سیکھنا شروع کیا او راتنے سالوں کے بعد سیکھنا مکمل کر لیا جناب نے فلاں؍فلاں اسکول وکولج میں، فلاں ؍فلاں استاذہ سے علم حاصل کیا ۔بڑے محنتی تھے اوررات و دن پڑھ تے ہی رہتے تھے۔ لیکن اگر کوئی ٹھنڈے دل سے سوچے تو اسے ضرورسمجھ میں آجائے گا کہ اس دنیا میں آنے کے بعد تعلیم شروع کرنا ،اسے مکمل کرنااور اس کا بہت محنتی طالب علم ہو نا وغیرہ ہی یقین کے ساتھ چند چیزوں کی گواہی دیتا ہے :٭پہلے سے وہ کچھ بھی نہیں جا نتا تھا ۔٭وہ سیکھنے کا محتاج تھا، تبھی تو اس نے سیکھنا شروع کیا ۔٭اس کاسیکھا ہو ا علم بھی بہت تھوڑا تھا۔٭کیوں کہ سیکھنے کا محتاج ہونے کی وجہ سے بغیر سیکھے اسے کچھ آ نہیں سکتا تھا اور وہ نہ سب کچھ سیکھ سکتا تھا نہ سیکھا۔ لہذا اسے سب کچھ کا علم ہو سکتاتھا اور نہ ہو ا۔اللہ تبارک وتعالی ایسے لوگو ں سے ایک اور سوال کر تے ہیں کہ ہم نے مانا کہ اللہ تعالی نے تمہارے ـــ’’کانوں‘‘ ،’’ آنکھوں‘‘ اور’’دل وماغ‘‘ کو بنا کر، کوئی بڑاسائنسی کارنامہ انجام نہیں دیا اور نہ تم پر کوئی احسان کیا ،بل کہ تم نے ہی محض اپنی صلاحیت سے گاڑیوں کوچلایا اور ہو ائی جہاز کو اڑا یا۔ لیکن ذرا یہ تو بتاؤکہ:پر ندوں کوکون اڑا تا؟فضامیں گرنے سے انھیں کون بچا تا ہے ؟ یہ کس پٹرول سے اڑتے ہیں ؟یہ کس ایر پورٹ سے رننگ کرکے اڑان بھر تے ہیں؟ ان کیلئے کس نے لائنیں بچھائی ہیں؟ان کو اتر نے کیلئے کو ن لائن کلیر دیتا ہے ؟کیا آج تک تا ریخ میں کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ ایک پرندہ دوسرپرندے سے ٹکڑا گیا او ردونوں یا کوئی ایک اس لئے مر گیا کہ فضا میں بناہوا راستہ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھول گیا تھا؟ جب کہ تمہارے بنا ئے ہوئے نظاموں میں آئے دن حادثے ہو تے رہتے ہیں،جن کا شکا ر ہوا ئی جہاز بھی بنتے ہیں چناں چہ(جمعرات ۲۶؍فروری ۲۰۰۹ء کی خبر کے مطا بق ٹرکش ایر لائنس کا ہوائی جہاز ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈے پر اتر تے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا اور اس کے ایک نہیں بل کہ تین ٹکڑے ہو گئے اور اس طرح کے حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں )۔اللہ تعالی فرما تے ہیں :’’کیا میرے موجود اور ایک ہو نے کا انکا ر کرنے والے پرندوں کو نہیںدیکھتے کہ آسمان کی فضا میں مُسخّر ہورہے ہیں۔ان کو اللہ کے علاوہ کو ئی او رنہیں تھامتا؟۔ا س میں ان لو گوں کیلئے بہت ساری نشانیا ں ہیںجو ایمان لاتے ہیں،،۔( سو رہ ٔ نحل: آیت؍ ۷۹) مشہور مفسرِ قرآن، حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیںکہ چند نشانیا ں اسلئے فرمایا کہ : ’’ پرندوں کو اسطرح پیدا کرنا کہ جس سے اڑنا ممکن ہو ایک دلیل ہے ۔پھر فضاکو اس طر ح سے بنانا کہ اس میں اڑنا ممکن ہو یہ دوسری دلیل ہے۔پھر ان کا سچ مچ اڑلینا ایک تیسری دلیل ہے‘‘۔
اسی طرح جانوروں کے چمڑوں سے گھروں کا بنانا،ان کے اون ،روئیں اور بالوں سے گھر وں کا انتظام کرنا اور سایوں کا پیدا کرنا بیان فرمایا گیا ہے۔پھر آیت: ۸۹؍تک مرنے کے بعد نہ ماننے والوں کی بری حالت کا تذ کرہ ہے جب کہ آیت :۹۷؍تک انصاف کرنے ، وعدوں کو پورا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ اعلان فرمادیا گیاہے کہ اسلام پہ چل کرایک انسا ن دنیا اور دین دونوں میں ہی کامیاب اور خوشحال رہے گا۔آیت:۰۵ ۱ ؍قرآن کریم کی تلاوت کا ادب بیان فرمانے کے بعد قر آن پر کیے گئے چند غلط اور بے بنیاد سوالوں کے جوابات دئیے گئے ہیں۔جب کہ آیت: ۱۱۱ ؍تک اسلام سے پھر نے والوں کے لئے سخت عذاب کا تذ کرہ ہے اور یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ اگر ایک انسا ن دل سے اسلام کو مانتاہو( اوررائی کے دانے کے برابر بھی اسلام کی عظمت میں کمی نہ محسوس کرتاہو) لیکن کہیں پہ اسے کھولنے اور خود کو مسلمان کہنے میں جان کا خطرہ ہو تووقتی طورپر اسے چھپا کر اپنی جان بچا لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ آیت :۱۱۲،۱۱۳؍ مکے شریف کے بارے میں یہ فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالی تبارک وتعالی نے اس کے رہنے والوں کو امن وسکون کی زندگی عطا کی تھی بہت ہی آسانی سے انہیں اپنا رزق حاصل ہو جاتاتھا لیکن جب انہوں نے اللہ کے نبی کی دعوت قبول کرنے کی بجائے ان کی بے عزتی کی تو ان پہ بھوک مری اور ڈر کا عذ اب بھی آیا۔ آیت :۱۱۹؍ حلال وحرام غذ اؤں کی فہر ست بیان فرما کر حلال کو کھا نے پرابھار اگیا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیاہے کہ کچھ حلال غذائیں بھی عذاب کے طورپہ یہودیوں کے لئے حرام کردی گئی تھیں اس کے بعد: ۱۲۴ ؍تک حضرت ابراہیم کے ایمان وعبادت کابیا ن فرماتے ہوئے دنیا اور آخرت میں ان کی کامیابی کا ذکر کیا گیاہے اور یہ بھی بیا ن کیا گیا ہے کہ ہر قوم کے لئے ہفتے میں ایک دن خاص عباد ت کا متعین کیا گیا تھا۔ آیت:۱۲۵؍ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ لوگوں کو اسلام اور اسلامی اعمال کی طرف اچھے انداز سے بلانا چاہئے کہ انہیں قبول کرنے میں جھجک محسوس نہ ہواور اخیر کی آیتوں میں قصاص میں (اگر لیا جائے تو )برابری کا حکم ہے ورنہ معاف کرنے کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ ��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here