Musalmano ka aapsi ittehaad Allah ki taraf se un par inaam hai

مسلمانوں کا آپسی اتحاد اللہ کی طرف سے ان پر انعام ہے !

مولانا شاہد معین قاسمی

دسویں پارے کی پہلی آیت یعنی سورہ ٔ انفال کی آیت: ۴۱؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے غنیمت (جنگ میں دشمنوں سے حاصل ہونے والے مال)کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پورے مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا جائے گاجن میں چار حصے جنگ میں شریک ہونے والے لوگوں کو ملیںگے جب کہ پانچویں حصے کو پھر پانچ حصوںمیں بانٹا جائے گا جن میں آپ ﷺ ،آپ کے رشتہ دار ،یتیم ،غریب ،اور مسافر کو ملے گا۔ اس کے بعد آیت:۴۲ سے ۴۴؍تک جنگ ِبدر کے وقو ع کے لئے غیبی طور پہ تدابیر فرمانے اور خاص طور سے مسلمانوںاور کفار ِمکہ دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں کم دکھا کر جنگ کے لئے ابھارنے کا بیان ہے جس کا کچھ تذکرہ تیسرے پارے میں بھی آگیاہے ان دونوں آیتوں میں جنگ سے پہلے دونوں فوجوں کے ٹھہر نے کی جگہوں کے بیان کے لیے جو پیارا اندز اختیار کیا گیاہے اس کی تفصیل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
پھرآیت:۴۶؍تک جنگ کی نوبت آجانے پر جنگ میں جمے رہنے ،اللہ کاذکر خوب دل سے کرنے ،اللہ اور ان کے رسول کے حکم کو ماننے اور آپس میں اختلاف نہ کرنے اور تکبر سے بچنے کی ہدایت دی گئی ہے۔(اس زمانے میں جب کہ کچھ لوگوں کے ذریعے قرآن کریم اور اسلام سے زبردستی دہشت گردی کی تعلیم کو جوڑنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کسی اور کتاب کے بارے میں غلط فہمی اور اندھیر ے میں رہنے کی تو انسانوں کی کو ئی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن قرآن کریم کے بارے میں یہ مجبوری نہیں ہوسکتی اور اس کے تعلق سے الجھن میں پڑنے کی اس کے سوا دوسری کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ اس تحقیق ومطالعے کی کثرت کے دور میں بھی قرآن کریم کا ذاتی طور پے مطالعہ نہیں کیا جارہاہے جو میر ے خیال میں یقینا قرآن کے ساتھ ناانصافی بھی ہے اور خود اس زمانے کی مایہ ناز خصوصیت کی اہانت بھی کہ تعلیم یافتہ اور قدرت کی طر ف سے علم وفن کی دولت سے مالا مال کی جانے والی شخصیات بھی قرآن کریم کا براہ براست مطالعہ نہیں کرتیںبل کہ یوں کہا جائے کہ اکثر لوگوں کو مطالعے کا داعیہ ہی اس وقت پید اہوتاہے جب کہ وہ کسی انسانیت دشمن اور امن عالم مخالف مصنف کی کسی تصنیف سے متاثر(infected) ہوکر ا س کی طرف سے دیئے گئے عیاری اور چالبازی پہ مبنی حوالوں کو دیکھتے اور اس کی تصدیق کردینا چاہتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ مطالعہ ذاتی اور حصول علم میں ذہنی آزادی کے ساتھ نتیجہ خیزی کے رجحان کے وجود و بقا کے لیے بڑا چیلنج اور اس کے خاتمے کے لیے خطرناک ترین حربہ ہے اور ساتھ ہی کسی بھی مصنف کی کتاب کے خلاف ناانصافی بھی اس لیے علم ودانش کے تمام شہسواروں اور گہرے مطالعہ و باریک بینی کے ذریعے مبنی برحقیقت اور آزاد وشفاف نتیجہ خیزی کے شیدائیوں سے میری یہ دوستانہ درخواست ہے کہ وہ خاص کر قرآن کریم سمیت کسی بھی مذہب کی کتا ب کے ساتھ ایسا کرکے اپنی تحقیق ومطالعے کو محدود نہ کریں اور ایسے لوگوں کے شاگرد ہر گز نہ بنیں جن کی صلاحیت کا شیطانوں نے بدترین استحصال کیا اور جن کے علم سے ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلائی گئی بل کہ کم ازکم ایک مرتبہ پورے قرآن کریم کا ضرور سرسری مطالعہ ہی سہی کرلیں یا اگر ان خوش قسمت شہسواران علم و دانش اور شیدائیان بحث وتحقیق کی مصروفیات نے ان کے لیے اتنا بھی موقع نہ چھوڑا کہ دنیا کی لائبریریوں میں موجودبہترین کتا بوں میں سے اس ایک کتاب کا ایک سرسری نظر سے بھی مطالعہ کرسکیں تو کم ازکم جن آیات کو دیکھنے کے لیے وہ کسی صفحے کو الٹتے ہیںان آیات سے اگلی پچھلی آیات کو تو ضرور ہی دیکھ لیں اگر اتنا بھی کیا گیا تو انشاء اللہ وہ خود بھی اپنے ذہن ودماغ کی شفافیت کو بحال رکھ سکیںگے اور ساتھ ہی دوسرے ان کروڑوں انسانوں کی اس بابت راہنمائی اور دست گیری بھی کرسکیں گے جو علم کی دولت نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے بے حد محتاج ہوتے ہیں)۔
چنا ں چہ سورہ ٔ انفال کی ان ۴۵؍اور۴۶؍ نمبر کی آیا ت میں قرآن کریم نے سب سے پہلی بات تو یہ کہی کہ مسلمانوں کو نہ توجنگ بھڑکانا چاہیے اور نہ ہی اس کی تمنا کرنی چاہیے بل کہ جب کسی قوم کی طرف سے ان پہ جنگ مسلط کردی جائے تو اب اسے وقتی طور پے مجبوری کے درجے میں قبول کرلینا چاہیے اور ساتھ ہی نہ تو دشمن قوم کے خلاف اپنی طاقت کا ناحق استعمال کرنا چاہیے اور نہ ہی اپنی طاقت پہ اترانا چاہیے اس کے بر عکس ہر وقت اللہ تعالی کو حاضر وناظر سمجھتے ہوئے ان سے لولگائے رہنا چاہیے انہیں دل دل میں یا د کرتے ہوئے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ائے اللہ ظالم سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس کہاں طاقت و قوت ہے ہم تو آپ کی دی ہوئی طاقت اور قوت کے محتاج ہیں اور اس کا استعمال بھی آپ کے حکم کے مطابق ہی کرسکتے ہیںاور ہم اپنی خواہش پوری کرنے یا اپنا غصہ اتارنے کے لیے کسی سے لڑنے کا حق نہیں رکھتے ۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ آپس میںتنازع پید انہ کرنا تنازع سے بچنے کے حکم کا مقصد بھی امن کا ہی قیا م ہے اس لیے کہ تنازع اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ کسی قوم کے افراد ا پنی ذات کو برتر ماننے لگتے ہیں اور اپنی اراء کی عدم قبولیت کو اپنی اہانت تصور کر بیٹھتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک فساد اور آزمائش ہے اور ایک دوسری وجہ جو خود آیت کریمہ کے اندر موجود ہے کہ اگر تنازع پید اہو اتو پھر دہشت گر د وں سے مقابلہ مشکل ہوجائے گا اور خود آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی شروع ہوجائیگی تیسری بات میدان جنگ میں صبر سے کام لینے کی کہی گئی ہے اس کا مقصد بھی امن کا قیام ہی ہے اس لیے کہ جب کسی دہشت گرد قوم کی طرف سے ناحق کسی قوم پے جنگ مسلط کردی جائے اور یہ قوم ہمت ہار کر خود کو اس کے سپرد کردے تو اس صورت میں نہ تو صرف یہ ہوگا کہ اس قوم کا ان دہشت گردوں کے ہاتھوں صفایا ہوجائے گا بل کہ ساتھ ہی دہشت گردوں کو دوسر ی معصوم اور کمزور قوموں پے حملے کا مزید حوصلہ بھی ملے گا ساتھ ہی صبر و استقامت کی اہمیت کی تاکید کے لیے یہ کہا گیا کہ تم یہ مت سمجھنا کہ صبر کر کے کہیں پسپائی کے شکار ہوجاؤگے اس لیے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ تما م طاقتوں کے پیداکرنے والے سب سے بڑے طاقتور خود اللہ تعالی ہوتے ہیں ۔پیغمبر ِامن ِعالم محمد ﷺ نے بعض لڑائیوں میں سورج کے ڈھل جانے کا انتظار فرمایا پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے کھڑے ہوکر فرمایامسلمانوں دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرواور اللہ سے امن مانگا کرو پھر جب دشمن سے ٹکراؤ ہوجائے تو اب صبر سے کام لواور یقین رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے(ابن کثیر وغیرہ بحوالہ بخاری ومسلم شریف) ساتھ ہی آیت: ۴۷؍ میں اسی اسلامی نظریہ کو مزید تقو یت بخش نے کے لیے ان دہشت گردوں کی مذمت بھی بیان فرمادی جنہوں نے ان کمزور مسلمانو ں پہ اپنی پے درپے زیادتیوں کے ذریعے جنگ بدر مسلط کی تھی اور انہیں ہلا ک کرنے کے لیے اپنی طاقت پہ اتراتے ہوئے آئے تھے۔ جسے مفسرین اس طرح نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے دشمن قریش مکہ کے اس تجارتی قافلے پہ حملے کے لیے روانگی فرمائی تھی جس کے پاس پچاس ہزار دینا ر کا مال تھا جس کی مالیت اُس وقت تقریبا ۲۶؍لاکھ روپے تھی اور آ ج کے زمانے میں تو ایک ارب کے قریب ہوجائیگی لیکن اس قافلے کے سردار ( جو فتحہ مکہ کے قریب مسلمان بھی ہوگئے حضرت) ابو سفیانؓ کو اطلا ع ہوگئی تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ عرب کے عجیب وغریب اور خطرناک طریقے سے مکہ والوں کو یہ اطلاع کردی کہ اپنے قافلے کو بچا نے کے لیے جتنی جلد ہوسکے مکہ سے روانہ ہوجائیں وہ لو گ سنتے ہی ایک ہزار ،جوان دوسو گھوڑے اور چھ سو ذرہیں اور ترانے گانے والی باندیوں اور ان کے طبلے وغیر ہ کے ساتھ بدر کی طرف نکل پڑے جن کے کھانے کے لیے ہر منزل پہ دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے ۔یہ لوگ راستے میں ہی تھے جب تک کہ حضرت ابوسفیانؓ راستہ بدل کر سمند رکے کنارے کنارے اپنے قافلے کو لیکر مکہ پہنچ آئے اوراس نکلے ہوئے لشکر کو خبر بھیجوادی کہ اب جانے کی ضرورت نہیں اورواپس آجاؤ کیوں کہ جس تجارتی سامان کی حفاظت کے لیے نکلے تھے وہ تو محفوظ آگیا اور ہم صحیح سالم اپنا مال لیکر مکے آچکے ہیں اور دوسرے قریشی سرداروں کی بھی یہی رائے تھی کہ اب مکے واپس لوٹنا چاہیے لیکن ابوجہل جو لشکر کو لیکر نکلا تھا اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اور اس نے قسم کھا لی کہ جب تک ہم بدر کے مقام پہ پہنچ کر اپنی فتح کا جشن نہ منالیں ،اونٹ ذبح کرکے نہ کھا لیں، شرابوں کے جام نہ لنڈھائیںاور گانے والی باندیاں گاکر اپنے سریلے نغموں سے ہمیں مست نہ کردیں اس وقت تک ہم واپس ہونے والے نہیں تاکہ عرب میں ہماری شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اوردنیا ہم سے مرعوب ہوجائے ( ابن کثیرج؍۱ص؍۶۷۸ اور دیگر)
آیت: ۴۸؍اور۴۹؍ میں اسی جنگ کے موقع پر شیطان کے کفار کو پہلے جنگ کے لیے ورغلانے اور عین جنگ کے میدان میں انہیں دھوکہ دیکر بھاگ نکلنے کا تذ کرہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ کے لئے نکلتے وقت اسوقت کفار کے سردار ابو سفیانؓ کو یہ خطرہ نظر آیا کہ اگر ہم مکہ چھوڑکر نکل جاتے ہیں تو مسلمانوں کے علاوہ ہمارے قر یبی دشمن ابوبکر قبیلے کے لوگ ہمارے گھر وں پہ حملہ کر کے ہمارے بچے اور بیویوں کو قتل کر دیں گے ۔اتنے میں شیطان اسی علاقے کے ایک سر دار (سراقہ ابن مالک ) کی شکل میںبڑی شان سے آیا کہ ایک ہاتھ میں جھنڈا لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں بہادر فوج کی ایک جماعت ۔آکر ان لوگوں میں تقریر کی کہ گھبر انے کی ضرورت نہیں ہے ہم تمہارے ساتھ ہیں آج تو بس تم ہی تم ہو جوکوئی بھی تمہارے مقابلے کے لئے آئے گا اس کا خاتمہ طے ہے ۔شیطا ن نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور مدد کے لئے آیا ہوںمیرے علاقے او رقبیلے کے لوگ تمہا رے خلاف نہیں لڑیں گے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور اس نے میدان میں پہنچ کر فرشتوں کے لشکر کو دیکھا تو اس کی حالت خراب ہوگئی اور وہاں سے بھاگ نکلا اس وقت اس کاہاتھ قریش کے ایک جوان آدمی حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا و ہ چلایا اور کہا سراقہ یہ کیا کررہے ہو اپنا وعدہ پورا کرو اس نے کہا میر ے بس میں ہے ہی نہیں اللہ تعالی سے ڈرلگتا ہے اور مجھے جو چیزیں نظرآرہی ہیں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہیں ۔آیت: ۵۰سے ۵۴؍تک میں ایک قول کے مطابق اسی جنگِ بدر کے میدان میں کفارکی پٹائی کے منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ﷺ سے فرمایا جارہاہے کہ اگر آپ دیکھ لیتے تو آپ کو تعجب ہوتا کہ سامنے سے مسلمانوں کی بے پناہ تلواریں پڑرہی تھیں اور بھاگتے بھاگتے اوپرسے نیچے تک پشتوں اور کمر پہ نیزے اور تیر گھونپے جارہے تھے اور فرشتے ان کی خوب مرمت کررہے تھے۔ (ابن کثیر وغیرہ )اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے مستحق تھے اور یہ عذاب تنہا ان کے ساتھ نہیں بل کہ جتنے لوگوں نے اس سے پہلے اس طرح ہٹ دھرمی کی انہیں بھی اللہ تبار ک وتعالی نے اسی طرح سے سزا دی اور یہ ہی اللہ تعالی کا ہمیشہ کے لئے ضابطہ ہے ۔
آیت :۵۵سے ۵۸؍تک جنگ بدر اور احد دونوں میں ہی مدینے میں رہنے والے دو یہودی قبیلے (بنو قریظہ اور بنو نضیر) کی طرف سے معاہدہ توڑنے کا بیان ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ لوگ بلاجھجک بار بار معاہدہ توڑتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ہونے والے معاہدہ شکنی کے دردناک انجام سے ذرا بھی نہیں ڈرتے اس لئے اگر آپ ان پہ کسی بھی جنگ میں قابو پاجائیں تو انہیں ایسی سزا دیں کہ پھر کبھی کوئی معاہدہ توڑنے کی ہمت نہ کرسکے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے مدینے ہجر ت فرماتے ہی دوبہت ہی اہم کارنامے انجام دیئے جو آپ ہی کا حصہ ہوسکتے ہیں پہلا کارنامہ تو یہ تھا کہ آپ نے انصار ومہاجرین کے درمیان اخوت قائم کردی اور خود انصار کو آپس میںملادیا جن کے درمیان صدیوں سے اختلاف چلاآرہاتھا اور وہ ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوجایا کرتے تھے اب یہ بھی بھائی بھائی بن گئے جس کا نقشہ قرآن کریم نے سورہ ٔ انعام کی آیت:۱۰۳ ؍میں بڑے ہی دلکش اور پیارے انداز میں کھینچا ہے۔دوسرا تاریخی اور بڑا ہی انسانیت نواز کارنامہ یہ انجام دیا کہ یہود مدینہ کے ساتھ ایک معاہد ہ کیا جس کا عہدنامہ مفصل لکھا گیا اور اس کی پابندی مدینے کے اطراف کے تمام یہودیوںاورمہاجرین و انصار مسلمانوں پہ ضروری تھی اس معاہدے کا متن البدایہ والنہایہ ابن کثیر اور سیر ت ابن ہشام وغیر ہ میں مفصل موجود ہے جس کا اہم ترین دفعہ یہ تھا کہ مدینہ کے باشندگان میں باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان فیصلہ کریں گے اور وہ آخری فیصلہ ہوگااوردوسرا دفعہ یہ تھا کہ یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی دشمن کی کسی بھی اعتبار سے مدد نہیں کریںگے اور ان لوگوں نے معاہد ے کو قبول بھی کرلیا ۔(میرے خیال میں اس تاریخ ساز معاہدے کے ذریعے اللہ کے نبی ﷺ نے یہ اعلان کردیا کہ مدینہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا شہر ہے اور اس میں سب لوگ اپنے اپنے مذہب پہ آزاد ہو کر عمل کریں گے اور ایک جمہوری شہر کے باشندے کے طور پہ تما م لوگ مدینے کی حفاظت کریں گے ان کے باشندے آپس میں نہ ایک دوسرے کے خلاف سازش کریںگے اور نہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد کریں گے کہ اس سے شہر کمزور پڑ جائے گا اور تمام باشندگان کا نقصان ہوگا لیکن ان لوگوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ہم اسلام لانے والوں کو مدینے میں برداشت نہیں کریں گے چناں چہ) غزوہ بدر سے ہی معاہدہ شکنی اور دھوکہ دہی شروع کردی اور اسی جنگ بدر میں مشرکین مکہ کو اسلحہ اور دوسرے سامان جنگ سے لیس کردیا ا ب حق تھا کہ نبی ﷺ ان کو سزا دیتے یا کم از کم یہ کرتے کہ انہیں دوبارہ معاہدے میںشا مل نہ فرماتے لیکن نبی ٔ کریم ﷺ نے اس عہد شکنی کی کوئی سزا دیئے بغیر دو بارہ معاہدہ کرکے انہیں پھر سے اس میں شریک کرلیا جس کے بدلے میں انہوں نے دوبارہ ایک عہد شکنی تو یہ کی کہ جب آ پ ﷺ قبیلہ ٔ بنو نضیر کے پاس عمر بن اُمیہ ضمیری کے ہاتھوں ہوئے دو شخصوں کے قتل کے خون بہا کے سلسلے میں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو ایک جگہ بیٹھا دیا اور کہا کہ تشریف رکھیں ہم پیسوں کا انتظام کرتے ہیں لیکن آپس میں یہ طے کیا کہ ان کے اوپر سے خوب بھاری پتھر گرادیتے ہیں تاکہ یہیں ختم ہوجائیں جس کے بعد غزوہ بنی نضیر کا واقعہ پیش آیا جو سورہ ٔ حشر کی تفسیر میں ۲۸؍ویں پارے میں آئے گا جب کہ دوسری عہد شکنی اس طرح کی کہ جنگ احد میںجب مسلمانوں کو شکست ہوئی اور اس کا علم انہیں ہوا تویہ بڑے مگن ہوگئے اور اسی قبیلے کا سردار کعب ابن اشرف خود سفر کر کے چالیس یہودیوں پہ مشتمل ایک قافلے کو لیکر مکے پہنچ گیا اور مکے کے مشرکین کو اس بات کے لیے ورغلایا کہ وہ مکمل طور پے مدینے پہ حملے کی تیا ری کریں ہم یہود ِمدینہ ہرطرح سے ساتھ دیںگے پھر اہل مکہ کی طر ف سے ابوسفیانؓ نے(جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) اپنے چالیس آدمیوں کو لیا اور دونوں جماعتوں نے کعبے کا پردہ پکڑکر یہ عہد و پیمان کیا کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور محمد ﷺ کے خلاف مدینے پہ حملہ کریںگے (ابن کثیر اور دیگر)
بہر حال !اس سے یہ اسلامی ضابطہ معلوم ہوا کہ شرارت پسندوں کا ایسا علاج کرنا چاہیے کہ آئندہ نہ خود انہیں اور نہ دوسروں کو کسی شرارت کی ہمت ہوسکے۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمایاگیا کہ معاہدے کا اصل اسلامی ضابطہ تو یہی ہے کہ اسے مدت پوری ہونے سے پہلے توڑا نہیں جائے گا لیکن اگر کبھی ایسا معلوم ہو کہ دوسرا فریق معاہدے میں خیانت کرے گا اور اسے توڑ کر اچانک مسلمانوںپے حملہ کر بیٹھے گا تو ایسی صورت میں اس فریق سے صاف یہ کہدینا چاہیے کہ آپ لوگوں سے خطر ہ معلوم ہو رہا ہے آپ کے اقدامات اور سرگرمیوں سے ہمیں تشویش ہے اس لیے ہم معاہد ہ ختم کرتے ہیں آپ کو بھی ہرطرح کا اختیار ہوگا اور ہمیں بھی پھراس کے بعد ہی کوئی کاروائی کرنی چا ہیے ورنہ معاہدے کو صاف طور پہ ختم کرنے سے پہلے دوسرے فریق پہ کسی بھی طرح کا حملہ یا خاص اس کی تیاری جا ئز نہیں ہے(ابن کثیر اور معارف القرآن) ۔
آیت: ۵۹سے ۶۲؍ تک یہ کہکر مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا گیا ہے کہ ان کے یہ دشمن ان کو شکست نہیں دے سکتے ۔ساتھ ہی دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے قوت وطاقت بنانے اوردشمن کی طرف سے صلح کی پیش کش کے وقت صلح کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دنیا کی ہر قوم کے قانون اور خارجہ پالیسی کا ناگزیر حصہ ہے جس کے آئے دن مظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔آیت: ۶۳ سے ۶۶؍تک یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد اللہ کی طرف سے ان پر انعام ہے ۔لڑائی کے ضروری ہوجانے کی صورت میں یہ کہہ کر اس کا حوصلہ دلایا گیا ہے کہ غیر وں کی بڑی تعداد بھی تمہاری چھوٹی اور معمولی تعداد کو شکست نہیں دے سکتی۔آیت :۶۷سے۶۹؍تک جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہے جس میں آپ ﷺ نے قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑ دیا تھا اور اس شکل کے اللہ کی نظر میں غیر پسندیدہ اور غیر راجح ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ آیت :۷۱؍ ان قید یوں کے بارے میں ہے جو مسلمان ہوگئے تھے آپ ﷺ سے یہ کہا گیا کہ آپ ان سے یہ کہدیں کہ اگر ان لوگوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے تو اللہ تبار ک وتعالی جو دنیا او ر آخرت میں نعمت عطا کریں گے وہ ان کے دیئے ہوئے فدیے سے بہت بہتر ہو گا اور اگر انہوں نے دھوکہ دینے کے لئے اسلام قبول کیا ہے تو اس سے پہلے بھی وہ اللہ تعالی کو دھوکہ دے چکے ہیںاور اللہ تبار ک وتعالی بھی انہیں اپنی گرفت میں لیکر آپ کے ہاتھوں انہیں سزا دلو اچکے ہیں تو جس طرح پہلے ان کی گرفت ہوئی تھی اگر آئندہ غلط کریں گے تو آئندہ بھی گرفت ہوگی ۔
اس کے بعد سورۂ انفال کے اخیر تک ہجرت کے احکام کے ذیل میں میراث کے مسائل بیان کئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی ایک مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے اسی طر ح اس وقت تک جب تک کہ مکے سے مدینے کی ہجرت فرض تھی مہاجر اور غیر مہاجر مسلمان کا بھی فرق تھا کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کی میراث میں شریک نہیں ہو سکتے تھے لیکن ہجر ت کی فرضیت کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی ختم ہوگیا الا یہ کہ ہجرت شرعی کہیں کے مسلمانوں پہ فرض ہوجائے تو اس وقت احکام بدل جائیں گے مفسرین ؒاور فقہاءؒ نے ا س کی تفصیل بیان کی ہے وہاں ان کا مطالعہ کرلیا جائے۔
سورہ ٔ توبہ کی شروع کی پانچ آیات میں فتح مکہ کے وقت مو جو د چار طرح کے لوگوں کا حکم بتلایا گیا ہے جو یہ ہیں :٭وہ جن سے متعین مدت تک لئے معاہد ہ ہواتھا او ر انہو ں نے اسے توڑدیا ۔٭وہ جن سے صلح کا معاہد کسی خاص مدت کے لئے کیا گیاتھااور وہ اس معاہدے پر قائم بھی رہے۔٭وہ جن سے صلح کا معاہدہ تو ہو اتھا لیکن مدت متعین نہیں ہوئی تھی ۔٭وہ جن سے کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔پہلی قسم کے لوگوں کا حکم (آیت :۵؍میں)یہ بیان کیا گیا ہے کہ احترام والے چار مہینوں کے گذرجانے کے بعد یا تو وہ مسلمان ہوجائیں ،یا جزیرۃ العرب چھوڑدیں اگر ان دونوں میں سے کسی کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں تو ان سے جنگ کی جائے۔دوسری قسم کے لوگوں کو کے بارے میں (آیت: ۴؍ میں)یہ کہا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی مدت پوری کی جائے اور انہیں نو ماہ کی مہلت مل گئی ۔ تیسری اور چوتھی قسم کے لوگوں کا حکم(جو پہلی اور دوسری آیت میں ذکر ہے ) یہ بیان فرمایاگیا کہ انہیں چار ما ہ کی مہلت دی جائے۔اس کے بعد جنگ ،معاہد ،صلح اور حج اکبر کے بارے میں کچھ اہم باتوں کا بیان ہے۔پھر پارے کے اخیر تک بیان کر دہ چیزیں کچھ اس طرح ہیں:جو نقض عہد کرتے ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی تعلیم دی گئی ہے ،اسلام وایمان کے بغیر کسی بھی نیک کام کے غیر معتبر ہونے کا اعلا ن کیا گیا ہے،ایمان کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز کو ہیچ بتلایا گیا ہے،غزہ ٔ حنین کا واقعہ انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیاہے ،دین کے احکام کو چھپاکر اور ان میں تبدیلی کر کے عوام کو خوش رکھنے کی مذمت بیان کی گئی ہے ،زکات نہ دینے پر سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے،جنگ میں نکلنے کی رغبت دلائی گئی ہے،زکات کے مصارف بیان کئے گئے ہیں ،زکات کے مصارف کے بارے میں منافقوں کی تنقید کو بے معنی قرار دیتے ہو ئے خود انہیں ہی مفاد پرست بتلایا گیا ہے ۔اور ساتھ ہی جنگ میں پیچھے رہنے وا لے منافقوں کے بیان پر پارہ مکمل ہوگیا ہے ۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here