ڈونیشن
معاشی تنگی کے چلتے انظر بارہویں کے بعد آگے کی تعلیم کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔ دوستوں کے مدد کرنے اور سمجھانے پر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور جیسے تیسے فیس کی رقم جمع کی۔ تب تک کالجوں میں داخلے مکمل ہو چکے تھے ۔ تاخیر ایک دن کی ہوئی تھی، لیکن دلالوں اور کالج کے ٹرسٹیوں نے اس تاخیر کی قیمت بیس ہزار روپے طے کی تھی۔ کسی نے بتایا کہ کالج کے ٹرسٹی کے سفارشی لیٹر سے کام بن سکتا ہے ۔ انظر دن بھر کی محنت کے بعد ٹرسٹی کا لیٹر لینے میںکامیاب ہو گیا۔
وہ بہت تھک چکا تھا، لیکن خوش تھا کہ صبح اسے داخلہ مل جائے گا۔صبح ہوتے ہی وہ کالج پہنچ گیا۔
اس کا نمبر آنے پر کھڑکی کے اس طرف بیٹھے کلرک نے کہا : ڈونیشن کے بیس ہزار روپے پیچھے تامبے سر کے پاس جمع کرا دو۔داخلہ فارم پہ ان کے دستخط لے کریہاں فیس جمع کرنا۔
انظر : ڈونیشن کیسا ؟
کلرک :تم دو دن لیٹ ہو نا !
انظر : لیکن یہ ٹرسٹی صاحب کا سفارشی لیٹر ؟
کلرک : سیٹ نہیں ہے کالج میں!ایڈمیشن چاہیے کہ نہیں!
سوچھ بھارت
سومیہا پیلٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس نے دیکھا ایک شخص کچھ کھانے کے بعد بچا ہوا کاغذ لیے اِدھر اُدھر کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
پھر وہ بڑبڑاتا ہوا بیٹھ گیا:’ڈسٹ بن تو لگاتے نہیں، بولتے ہیں بھارت سوچھ ابھیان!‘
برا وقت
کیا یار بہت دن ہو گئے ، تم تو کبھی یاد ہی نہیں کرتے !عامل نے فیاض کو فون پر کہا۔
فیاض : کیا بتاؤں یار! میرے جس موبائل میں نمبر سِیو تھے ، وہ اب نہیں رہا۔
عامل: کیوں بھئی کیا ہوا اُسے ؟
فیاض : ابھی کچھ دن پہلے میںاسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں کھڑا تھا۔ ایک آدمی نے آکر مجھ سے ٹائم پوچھا۔ جب سے موبائل آیا ہے، گھڑی کون پہنتا ہے ؟ میں نے ٹائم دیکھنے کے لیے جیسے ہی جیب سے موبائل نکالا، اس نے چھپٹا مارا اور دیکھتے ہی دیکھتے غائب۔
عامل: اوہ سوری (sorry) یار! یعنی وہ ٹائم پوچھنے نہیں تیرا برا ٹائم بن کے آیاتھا۔
انکار
روشن سنگھ کے چار بیٹے ہیں۔ انش، ونش اور ساحل کی شادی ہو چکی تھی۔آہل -جو ساحل کا جڑواں بھائی ہے – کی شادی باقی تھی۔ اس کا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں۔ روشن نے دلال سے بات کی اورساحل کو دکھا کر آہل کے لیے بہو بیاہ لایا۔ بہو گھر آئی اور اسے سچ معلوم ہوا تو اس کے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اگلے دن مایکے والے اسے لیے لینے آگئے تھے ۔ وہ ان کے ساتھ چلی گئی۔ اس کے بعد سسرال والوں نے بہو کو واپس لانے کی بہت کوشش کی، لیکن اس نے آنے سے صاف انکار کر دیا۔