انتخابات اور اس کا مروج طریقہ، مفتی محمد تقی عثمانی

انتخابات اور اس کا مروّج طریقہ،مفتی محمد تقی عثمانی، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

افادات: مفتی تقی عثمانی
ترتیب: مولانا ندیم احمد انصاری

انتخابات
جمہوری نظام میں یہ ضروری ہے کہ حکومت انتخابات کے نتیجے میں بر سرِ اقتدار آئے، اس غرض کے لیے شروع میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے انتخابات ہوتا ہے، پھر پارلیمانی نظامِ حکومت میں جو جماعت اکثر ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کر لے، وہ حکومت بناتی ہے۔ عام طور سے جمہوریت میں انتخابات کے دو طریقے ہیں:بلا واسطہ یا بہ راہِ راست انتخاب،بالواسطہ انتخاب۔بہ راہِ راست انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ ہر بالغ باشندے کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، اور جو وامید وار اپنے حلقے کے باشندوں کے زیادہ ووٹ حاصل کرلے، وہ منتخب ہو جائے۔بالواسطہ انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے انتخاب کرنے والوں کا انتخاب کریں، یعنی عوام پہلے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، پھر وہ منتخب شدہ افراد مقنِّنہ کے لیے ممبران کا انتخاب کریں۔

دوٹر کی صفاتِ اہلیت
پھر بلا واسطہ انتخابات میں بھی ووٹروںکی صفاتِ اہلیت، جس کی بنا پر ووٹر کو ووٹ ڈالنےکا حق حاصل ہوتا ہے، اس بارے میں یہ بھی مختلف نظام رائج رہے ہیں۔ مثلاً سوئٹزر لینڈ میں چند سالوں پہلے تک عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا، صرف مَردوں کو ووٹ دینے کا حق تھا۔ جب اس پر بحث ہوئی کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق ملنا چاہیے، تو خود عورتوں نے اس حق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ حق نہیں چاہیے، اس لیے کہ اس کے بعد گھروں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے اور گھروں کے اندر سیاست گھس آئے گی، کیوں کہ مرد ایک شخص کو ووٹ دینا چاہے گا اور عورت دوسرے کو ووٹ دینا چاہے گی، تو لڑائی شروع ہو جائے گی، لیکن بعد میں بالآخر عورتوں کو بھی وہاں ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا، اور اب اس وقت پوری دنیا میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا نظام رائج ہے، لہٰذا جو بھی شخص بالغ ہو، وہ ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔

عام طریقۂ انتخاب
پھر عام طریقۂ انتخاب میں جو شخص بھی اکثریت سے ووٹ حاصل کر لے، وہ کامیاب قرار پاتا ہے، لیکن اگر امید وار بہت سے ہوں تو اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی کامیاب قرار پاتا ہے جس نے اپنے حلقے کے ووٹروں میں سے صرف پندرہ فی صد ووٹ حاصل کیے ہوں، اور باقی پچاسی فی صد لوگوں کے ووٹ اس لیے بے کار چلے گئے کہ انھوں نے مختلف امید واروں کو ووٹ دیے، جن میں سے کوئی بھی پندرہ فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکا، اور صرف ایک امیدوار کو سب سے زیادہ یعنی پندرہ فی صد ووٹ ملے۔ اس طرح صرف پندرہ فی صد لوگوں کے ووٹ سے ایک شخص پورے علاقے کا نمائندہ بن کر سامنے آگیا، حال آں کہ پچاسی فی صد لوگ اس شخص کو اپنا نمائندہ بنانا نہیںچاہتے تھے، لیکن وہ اس وجہ سے کامیاب قرار پایا کہ اس نے باقی تمام امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، لہٰذا عام طریقۂ انتخاب عوام کی حقیقی نمایندگی کا عکّاس نہیں وتا، اور بسا اوقات اقلیت والی پارٹی اکثریت پر حکم رانی کرتی ہے۔(اسلام اور سیاسی نظریات ملخصاًبترمیم)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here