تجارت و کاروباراور زکوٰۃ کے چند مسائل
تجارتی زمین پر زکوۃ ہے
ززید نے ایک زمین اس نیت سے خریدی کہ اس پرمکانات تعمیر کرکے فروخت کریںگے، چند سال تک وہ زمین خالی پڑی رہی تو ان سالوں میں اس زمین کی زکوۃ نکالنی ہوگی یا نہیں؟
لچوں کہ وہ زمین بھی مالِ تجارت کا ایک حصہ ہے،اس لیے جن سالوں میں وہ خالی پڑی رہی، ان سالوں کی بھی زکوۃ زید پر واجب ہے۔
ہوٹل کے خام مال میں زکوٰۃ
ز ہوٹل کے کاروبار میں ہر وقت ہوٹل چلانے کے لیے دس ہزار روپیے کا خام مال، مثلاً: آٹا، تیل، شکر وغیرہ رکھنا پڑتا ہے، جو حولانِ حول کے وقت بھی ہوتا ہے، تو کیا اِس اسٹاک مال پر زکوٰۃ ہوگی؟ اگر واجب ہوگی تو اجتماعی منافع میں سے سب کی اجازت سے ادا کرنے پر ادا ہو جائے گی؟ یا ہر حصہ دار کو اپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
لخام مال وہی ہے جو فروخت ہوتا ہے، اِس لیے مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے اُس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔لیکن یہ حکم ہر اُس شریک کے لیے ہے جو صاحبِ نصابِ شرعی ہو۔ جن شرکا پر واجب ہے اُن کی اجازت سے اُن کی زکوٰۃ دیگر شریک نے ادا کردی، تو وہ درست ہو جائے گی۔
زکوۃ میں کون سی قیمت کا اعتبارہوگا
زایک دوکان دار ہے وہ اپنے مال کی زکوۃ مال ہی سے نکالنا چاہتا ہے مثلا جوتے کی دکان ہے تو خرید قیمت سے نکالے یا فروخت قیمت سے؟
لسال پورا ہونے پر جس قدر مال موجود ہو، اس وقت اس کی جتنی قیمت ہو، اس کے حساب سے زکوۃ ادا کرے۔(فتاوی محمودیہ ۳/۴۹) قیمتِ ِفروخت کا اعتبار ہوگا۔(احسن الفتاوی ۴/۲۹۹)اگر خود اس مالِ تجارت کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوۃ دے دیا جائے تو کوئی دغدغہ نہیں رہے گا،مثلاًچالیس (جوڑی)جوتوں میں سے ایک(جوڑی) جوتا۔
شرکت والے کاروبار میں زکوۃ
ز ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو دکان کھلوائی ہے، رقم ایک بھائی کی ہے اور چلاتادوسرا بھائی ہے، نفع برابرکا ہے، اُس کی زکوٰۃ کون اداکرے؟ جب کہ یہ کاروبار شرکت میں ہے۔
لپہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جب کسی کاروبار کے لیے مال دیاجائے اور نفع میں حصہ رکھا جائے تو شرعی اصطلاح میں اِس کو ’مضارَبت‘ کہتے ہیں اور ہمارے یہاں عام طور سے اِس کو ’شرکت‘ کہہ دیاجاتاہے۔ اِس کاروبار میں ایک اصل رقم ہوتی ہے اور ایک اُس کا منافع۔ اصل رقم کی زکوۃ اُس کے مالک کے ذمہ ہے اور اُس کے ذمہ منافع کے اُس حصہ کی زکوۃ بھی واجب ہے جو اُسے ملے گا، اور جو نفع پر کام کرتاہے اگر اُس کا نفع نصاب کی مقدار کو پہنچے اور اُس پر سال بھی گزر جائے، تو اپنے حصےکی زکوۃ اُس پر بھی ہوگی۔ جو قِطعہ زمین کا دکان کے لیے خرید ا ہے اُس پر زکوۃ نہیں۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل ۳/۳۵۰)
بیچنے کی نیت سے خریدی ہوئی زمین پر زکوۃ
زایک شخص نے زمین اس نیت سے خریدی کہ اچھی قیمت آنے پر سات آٹھ سال کے بعد فروخت کردوںگا تو کیا اس زمین پر زکوۃ آئے گی؟ ہمارے یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جب تک تم نے مارکیٹ میں اسے نہیں رکھا یا کسی وکیل وغیرہ کو نہیں کہا تب تک زکوۃ فرض نہ ہوئی، تو کیا ان مفتی صاحب کا یہ کہنا درست ہے؟
لاس زمین کا بیچنے کے ارادے سے خریدنا؛ اسی کانام شرعاً تجارت ہے، اس لیے اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔
مشترکہ منافع میں تصرف اور زکوۃ
ززید ایک مشترک ہوٹل کاذمہ دارہے، سالانہ اس کو پچیس ہزار کی رقم منافع میں حاصل ہوتی ہے، جس میں وہ صرف بیس ہزار کی رقم اپنے تصرف میں لاتا ہے، بعض مرتبہ ذمہ دار شرکاء کو اس کی اطلاع کرتاہے اور بعض مرتبہ بلااطلاع ہی ایسا کرتاہے، نیز اطلاع دینے پر شرکاء بعض مرتبہ دل سے اجازت دیتے ہیں اور بعض مرتبہ مصلحتاًدل نہ چاہتے ہوئے اجازت دیتے ہیں یامحض خاموشی سے کام لیتے ہیں، ان تما م صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے؟ نیز ان سب صورتوں میں اس رقم کی زکوۃ کس پرواجب ہوگی؟ اور کس طرح ادا کی جائے گی؟
لاگر شرکا کی اجازت سے تصرف کیاہے تو درست اور اس سے حاصل شدہ منافع بھی حلال ہے، ورنہ نہیں۔(فان فعل ضمن) بالمخالفة (وکان ذلك الشراء له)۔ (قوله الشراء له) وله ربحه وعلیه خسرانه ولکن یتصدق بالربح عندھما وعند ابی یوسف یطیب له اصله المودع اذا تصرف فیھا وربح۔ اتقانی۔ (شامی ۴/ ۵۴۲)جواجازت دل سے نہیں دی گئی ہے وہ معتبر نہیں ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ الا لاتظلموا الالایحل مال امرء الابطیب نفس منه۔ (مشکوٰة: ۲۵۵) جب دل سے نہ دی گئی اجازت کا یہ حال ہے، تو خاموشی کی صورت میں کیسے جائز ہوگا۔ رہی زکوۃ، تو وہ بقدرِحصص نفع ہرایک شریک پرواجب ہوگی، بشرطیکہ دیگر شرائط اس میں موجود ہوں۔فتجب زکاتھا اذا تم نصابا وحال الحول لکن لا فوراً بل عند قبض اربعین درھما من الدین القوي کقرض۔ (درمختار)جب وہ رقم ان کے پاس آجاوے اس وقت زکوٰۃ اداکریں۔٭٭