تراویح میں پیش آنے والے بعض مسائل

تراویح میں پیش آنے والے بعض مسائل

تین رکعت پڑھادی

ز تراویح کی دو کے بجائے امام نے تین رکعت پڑھی اور سجدۂ سہو کیا تو دوبارہ دورکعت تو پڑھے گا لیکن وہ مقدارِ قرآن جو اس نے ان دو رکعتوں میں پڑھا ہے، کیا اسے دوبارہ پڑھنا پڑھے گا یا اس سے آگے پڑھے گا؟

لاگر دوسری رکعت پر قعدہ کیے بغیر تیسری کے لیے کھڑا ہوگیا تھا اور تیسری پر قعدہ کرکے سلام پھیرا، تو تراویح کی وہ دورکعت معتبر نہ ہوئی۔ اعادہ ضروری ہے۔ اور جو قرآن اس میں پڑھا گیا ہے اس کا لوٹانا بھی ضروری ہے۔ (بحوالہ رد المحتار، فتاویٰ رحیمیہ ۴/۴۲۰)

اگر ایک ہی رکعت ہوئی

زتراویح میں غلطی سے دو رکعت کے بجائے ایک ہی رکعت ہوئی اور اس میں دو تین رکوع پڑھ لیے، پھر نماز نہ ہونے کی وجہ سے دو رکعتیں امام صاحب نے دہرائی، مگر ایک رکعت میں پڑھا ہوا قرآن دہرایا نہیں۔ تو کیا دہرانا لازم ہے اور نہ دہرانے کی صورت میں قرآن ناقص رہے گا؟

لصورتِ مسئولہ میں قرآن مجید کی وہ مقدار بھی لوٹانی پڑے گی، جو ایک رکعت میں پڑھی تھی، ورنہ قرآن مجید ناقص رہے گا۔

تراویح علاحدہ، لیکن عشاء مسجد میں

ز رمضان کی تراویح کے سلسلے میں فتاویٰ کی روشنی میں اتنی تو گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ محلے کی مسجد چھوڑ کر ایک دوسری جماعت الگ سے بنا لی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ حفاظِ کرام کو قرآن سنانے کا موقع مل سکے۔ لیکن اس کے ساتھ مفتیانِ کرام یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ عشاء کی فرض نماز با جماعت مسجد ہی میں سب ادا کریں، اس کے بعد تراویح کی دوسری جماعت کرنے والے چاہیں تو مسجد سے الگ دوسری جگہ اپنی جماعت کرلیں۔ اس سلسلے میں آں جناب کی رائے معلوم ہو جاوے کہ واقعی عشاء کی نماز سب کو مسجد ہی میں پڑھنی ہوگی یا اس میں کوئی گنجائش بھی ہے کہ جہاں تراویح سنانا ہو وہاں عشاء پڑھی جاسکے۔

لعن عبدالله قال: من سره ان یلقی الله تعالیٰ غدا مسلما فلیحافظ علی ھؤلاء الصلوات حیث ینادی بھن، فانّ الله شرع لنبیکم سنن الھدیٰ، وانھن من سنن الھدی، ولو انکم صلیتم فی بیوتکم کما یصلی ھٰذا المتخلف فی بیته لترکتم سنة نبیکم، ولو ترکتم سنة نبیکم لضللتم، وما من رجل یتطھر فیحسن الطھور ثم یعمد الی مسجد من ھذه المساجد الا کتب الله له بکل خطوة یخطوھا حسنة، ویرفعه بھا درجة، ویحط عنه بھا سیئة۔ ولقد رأیتنا وما یتخلف عنھا الا منافق معلوم النفاق، ولقد کان الرجل یؤتی بھا یھادی بین الرجلین حتی یقام فی الصف۔ (مسلم شریف مع فتح الملھم ۲ /۲۲۲) الجماعة سنة مؤکدة للرجال، قال الزاهدی: ارادوا بالتاکید الوجوب …وقیل واجبة، وعلیه العامة ای عامة مشائخنا، وبه جزم فی التحفة وغیرها، قال فی البحر: وھو الراجح عند اهل المذھب۔ (در مختار علی ھامش الشامی)قوله قال فی البحر الخ، وقال فی النھر: ھو اعدل الاقوال واقواھا۔. (شامی ۱ /۴۱۰)
قرونِ شہود لھا بالخیر بلکہ اس کے بعد بھی اسلافِ امت میں غیر مساجد میں بدون عذر اقامتِ جماعت بالخصوص علی سبیل العادۃ کی کوئی نظیر نہیں ملتی، صرف یقینی منافق اور شدید مریض ہی جماعت سے پیچھے رہتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں گذرا … غرضیکہ احادیثِ صحیحہ اور اسلافِ امت کے تعامل اور عباراتِ فقہاء  سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے، البتہ معذورین مستثنیٰ ہیں۔(احسن الفتاویٰ ۳/۲۷۲،۲۷۳) احقر کے نزدیک بھی گھر میں تراویح کی جماعت کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ عشاء کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ ٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here