رمضان میں خود کو ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچائے
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کے علاوہ تراویح پڑھی جاتی ہے، نفلی عبادتیں ، تلاوتِ قرآنِ کریم،ذکر واذکاراورصدقہ وغیرہ کی کثرت کی جاتی ہے، لیکن زیادہ کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ آدمی اپنے آپ کو ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچائے۔اس لیےکہ نفلی عبادت کاحال تو یہ ہے کہ اگر آپ کریں گے تو اس کاثواب ملے گا ،اورنہیں کریں گے تو کوئی گناہ ہونے والا نہیں ہے،اوراس پر کوئی گرفت اورپکڑ بھی نہیںہوگی، لیکن خدانہ کرےاگرکوئی بھی گناہ کرلیا تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوگی اور عذاب ہوگا۔
ویسے بھی جب رمضان کامہینہ آتا ہے تو کیساہی گیا گزرا آدمی کیوں نہ ہو، وہ بھی نہادھوکر مسجد میں آہی جاتا ہے اورتراویح میں شریک ہوجاتا ہےاور چھوٹی موٹی عبادتیںبھی کرلیتاہے، اگر روزانہ نہیں تو رمضان میں اورجمعہ کے دن وہ بھی اہتمام کرلیتےہیں ،یا بڑی راتیں آتی ہیں تو روزانہ والوں کے مقابلہ میں ایسےلوگ پہلے سے آکرمسجد میںجگہوں پرقابض ہو جاتے ہیں،تو نفلی عبادتوں کااہتمام ہر کوئی کرلیتا ہے لیکن گناہوں سے بچنا بڑی اہم چیز ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا اہتمام کیاجائے۔اس آیت میں﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ کے ذریعہ سے یہی تعلیم دینا مقصود ہےکہ روزوں کے نتیجہ میںتم کوتقویٰ آجائے،اور آدمی اپنی زندگی میں تقویٰ والی صفت پیدا کرلے، گویا روزہ خود ہی تقویٰ کا ایک چھوٹاسا پروگرام اورنصاب ہے۔
ایک حدیث ِ قدسی
عن أَبي هريرة قَالَ : قَالَ رسول الله ﷺ: قَالَ اللهُ -عزوجل-:كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلاَّ الصِّيَام ، فَإنَّهُ لِي وَأنَا أجْزِي بِهِ ، وَالصِّيَامُ جُنّةٌ، فَإذَا كَانَ يَومُ صَوْمِ أحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَصْخَبْ فإنْ سَابَّهُ أحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إنِّي صَائِمٌ . وَالذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ :لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ المِسْكِ . لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ بفطره ، وَإذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ۔ (متفقٌ عَلَيْهِ ، وهذا لفظ روايةِ البُخَارِي ) وفي روايةٍ لَهُ : يَتْرُكُ طَعَامَهُ ، وَشَرَابَهُ ، وَشَهْوَتَهُ مِنْ أجْلِي ، الصِّيَامُ لي وَأنَا أجْزِي بِهِ ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أمْثَالِهَا۔ وفي رواية لمسلم : كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يضاعَفُ ، الحسنةُ بِعَشْرِ أمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ . قَالَ الله تَعَالَى : إِلاَّ الصَّوْمَ فَإنَّهُ لِي وَأنَا أجْزِي بِهِ ؛ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أجْلِي . للصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ . وَلَخُلُوفُ فِيهِ أطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ المِسْكِ )(ریاض الصالحین:۱۲۱۵)
حضرت ابوہریرہنقل کرتےہیں کہ نبیٔ کریم ﷺنےارشاد فرمایاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےارشادفرمایا: انسان کاہر عمل اس کےلیے ہے سوائے روزے کے؛ کہ وہ میرےلیے ہے اورمیںہی اس کابدلہ دیتا ہوں( میرےلیے ہونے کی وجہ دوسری روایت میںیہ آئی ہے)کہ وہ اپنا کھانا پینا اوراپنی شہوت کومیرےلیے چھوڑ دیتا ہے۔ اور روزہ شیطان کے حملہ سے حفاظت کی ڈھال ہے،جب تم میں سے کسی کاروزہ ہو تو وہ بے کار باتیں نہ کرےاورنہ شور مچائے۔ اگر کوئی دوسرابرابھلا کہے یا لڑنے لگے تو اس کوجواب میں کہہ دےکہ میرا روزہ ہے ، پھربھی اگروہ نہیں مانتا تو کم سے کم اپنے دل ہی سے کہہ دے کہ تیرا تو روزہ ہے۔ اورقسم ہے محمد ﷺکی جان کی ! روزہ دار کے منھ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کےلیے دوچیزیں خوشی کی ہیںجن سے وہ بہت خوش ہوگا، ایک تو افطار کےوقت جو کہ افطارسےہوتی ہے، اوردوسری خوشی اللہ تعالیٰ سے ملنے کے وقت ہوگی ۔
دوسری روایت میں ہے کہ( تمام اعمال کے بدلوں کےلیے تو فرشتوں کو بتلادیا گیاہےاوروہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہدایت اوراصول کےمطابق اعمال کا ثواب لکھتے رہتے ہیں)کسی عمل کاثواب دس سے لےکر ستّر گنا تک،اورکسی عمل کاسات سو گنا تک لکھتے ہیں،لیکن روزہ کے ثواب کے متعلق اللہ تعالیٰ نےبتلایا کہ اس کا ثواب مَیںہی دوںگا (گویا اللہ تعالیٰ ہی جانتےہیں کہ اس کاثواب کتنی مقدار میںہے۔اس لیےکہ روزہ میں ایک خاص چیز یہی ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کےتصور سے اور اُسی کے خاطر اپنے آپ کو بھوکااورپیاسارکھتا ہے)۔
[email protected]