شبِ قدر کیا اور کیوں ؟ ندیم احمد انصاری
اللہ تعالیٰ‘ جو کہ خالق ِ کائنات ہے،اس نے خود اپنی مخلوق میں افضل و مفضول کا نظام جاری فرمایا ہے۔اس فیاض داتاکا مزید احسان یہ ہوا کہ اس نے اس شرف و امتیازکی اطلاع اپنے بندوں کو بھی عنایت فرمائی ،جس سے اس کی خوشنودی حاصل کرنا سہل ہو گیا۔اس ربِ کائنات کا یہ نظامِ قانون تمام مخلوقات میں جاری ہے، چناں چہ بعض زمانوں کو بعض زمانوں پر ، بعض مکانوں کو بعض مکانوں پر فضیلت وبرتری سے نوازا گیا۔تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف بنایا،تمام انسانوں میں انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو برگزیدہ قرار دیا،تمام نبیوںمیںحضرت محمدﷺ کے سر پر سیادت کا تاج رکھا،تمام فرشتوں میں حضرت جبریل ؑ کے مرتبے کو بلند کیا،تمام زمانوں کے اعتبار سے خاتم الانبیاء کے زمانے کو سب سے بہتر بنایا،تمام مہینوں کے اعتبار سے رجب ،شعبان ،رمضان اور محرم کو افضل بنایا،دنوں کے اعتبار سے جمعہ کو تمام دنو ںکا سردار منتخب کیااور اسی طرح تمام راتوں میں شبِ قدر کو افضلیت سے نوازااور اس ربِّ کائنات نے اس نظام ِ کائنات کو ہمیشہ ہمیش کے لیے باقی رکھا ۔
ایک عظیم ترین رات جسے ’شبِ قدر ‘ کہتے ہیں، بہت ہی خیر وبرکات والی رات ہے۔اس کی برکت و افضلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اللہ رب العزت نے ایک مکمل سورت اس عنوان سے نازل فرمائی اور اس رات کی خیر وبرکت بیان کرتے ہوئے اسے ہزار مہینوں سے بھی بہتر قرار دیا۔گویا کوئی شخص اس ایک رات کو عبادت میں گزار دے تو وہ ایسا ہے جیسے ایک ہزار سال سے زائد عبادت کی ہو،پھر یہ رات ہزار سال سے کتنی بہترہے ؟ اس کی بھی کوئی حد مقرر نہیں۔بندے کے اخلاص پر خدا جتنا چاہے اس کے حق میں اس مبارک رات کی برکتوں کو بڑھاتا جائے۔ایک ہزار سال کا ہی حساب کیجیے تو تقریباً 83؍سال اور 4؍ماہ سے زیادہ کا زمانہ بنتا ہے۔
قدر کیا ہے ؟
’قدر‘ مصدر ہے ’قدرت‘ کااور ’قَدَر‘ و’قَدْر ‘دال کی حرکت اور اس کے سکون کے ساتھ دونوں ایک ہی معنیٰ ہیں ، مگر فرق یہ ہے کہ بالسکون مصدراور بالفتح اسم ہے۔واقدی ؒ فرماتے ہیں:قدر کے معنیٰ لغت میں ’اندازہ کرنا‘اور’ شرف ومنزلت ‘کے بھی آتے ہیں۔لفلان قدر عند فلان یعنی فلاں شخص کے نزدیک قدر یعنی عزت ہو۔اب دونوں کے معنی کے لحاظ سے اس رات کو لیلۃ القدر یا شبِ قدر کہتے ہیں۔اس کی علماء نے کئی وجہیں بیان کی ہیں؛
(۱)حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں سال بھر میں نازل ہونے والی بلائیں،عالم ِ بالا میں مقدور ومعین کی جاتی ہیں۔کسی کا مرنا ،بیمار ہونا ،رزق کی فراغ دستی ،عزت وذلت جو کچھ سال بھر میں اس جہاں میں ظاہر ہونے والا ہے،وہ سب اس رات میں ،عالم ِ بالا میں مشہور کردیا جاتا ہے اور ہر ایک کام پر ملائکہ معین کر دیے جاتے ہیں۔
(۲)یہ کہ اس رات ،عالم ِ بالا کے روحانی فرشتے اس قدر زمین پر آتے ہیںکہ گویا زمین میں تنگی ہو جاتی ہےاور مزید گنجائش نہیں رہتی،کیوں کہ تنگی کے معنی میں بھی یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ومن قدر علیہ رزقہ۔(الطلاق:7)
(۳)زہریؒ کہتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں نیک بندوں کی خدا تعالیٰ اور عالم ِ بالا کے لوگوں(یعنی فرشتوں) کے نزدیک نہایت قدر ومنزلت ہوتی ہے،بلکہ وہ فرشتے اہل ِ صفا سے مصافحہ بھی کرتے ہیں اور عام ایمان والوں کو بھی مس ّ کرتے اور چھوتے ہیں،گو ان کو محسوس نہ ہو۔جس کا اثر ان کے دل میں رقّت اور گناہوں پر رونا اور دعا کرنا ہوتا ہے نیز ان کے اعمال کی بڑی قدر ومنزلت ہوتی ہے۔(فتح المنان بتغیر)
ابو بکر وراق ؒ نے فرمایاکہ اس رات کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر وقیمت نہ تھی ،اس رات میں توبہ واستغفار اور عبادت کے ذریعے وہ صاحبِ قدر وشرف بن جاتا ہے۔(معارف القرآن)
(۴)ابوبکر وراق ؒ ہی فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے کتابِ قابلِ قدر،امتِ قابلِ قدرکے لیے ،رسولِ قابلِ قدرکی معرفت نازل فرمائی اور اسی لیے یہ لفظ اس سورت میںتین بارآیا ہے اور اس لیے بھی کہ اس رات کی قدر کرنی چاہیے۔(فتح المنان)