محرم الحرام کا مہینہ
مولانا ندیم احمدانصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔
اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (سورہ التوبہ)
ادب واحترام والے مہینے
یہ جو ارشاد فرمایا گیا:{ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ}ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے (ادب کے) ہیں۔ ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب (دیگر ایام کے بالمقابل) زیادہ ملتا ہے۔ ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام وادب اور ان میں عبادت گزاری کا (خصوصی) اہتمام، اسلام میں بھی باقی ہے۔حجۃ الوداع کے خطبۂ یوم النحر میں رسولِ کریمﷺ نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے (تو) مسلسل ہیں، ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔ (معارف القرآن)
چار مہینوں کی عبادت کا ثواب
تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں: ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب میں ہر عبادت کا ثواب اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔ (معارف القران)
امام جصاصؒ نے احکام القران میں فرمایا:اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔ (معارف القرآن، احکام القرآن)
ماہِ محرم کے پہلے عشرہ کی فضیلت
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں:ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے۔ ایک رمضان المبارک کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔نیز فرماتے ہیں: بعض نے کہا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کے لیے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا، وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دس محرم الحرام کے دن باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آگے فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی، اس کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے۔(لطائف المعارف)
محرم میں تقریبات کا حکم
بعض لوگ محرم الحرام میں نکاح کو معیوب سمجھتے ہیں، لیکن یہ خیال درست نہیں ہے ۔ حضور ﷺ کا اپنا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محرم میں ہوا اور اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محرم ہی میں ہوا ۔ (اشرف الفتاویٰ)
ماہِ محرم میں روزہ کی فضیلت
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ’’محرم‘‘ کے ہیں۔ (رواہ مسلم، ابوداؤد)
نعمان بن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپؓ رمضان کے علاوہ مجھے کس مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو رسول اللہﷺ سے سوال کرتے ہوئے سنا، میں اس وقت آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ (ترمذی)
ایک روایت میں ہے کہ جس نے محرم الحرام کے مہینہ میں ایک دن کا روزہ رکھا، اس کو ہر ایک روزہ کا ثواب، تیس دنوں کے روزوں کے ثواب کے بقدر دیا جائے گا۔ (الترغیب والترہیب للمنذری)
عاشوراء کا پسِ منظر
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تا آنکہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو یومِ عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: (اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔(بخاری،مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، تو آپﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: پھر ہم موسیٰ سے تمہاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا۔(بخاری، مسلم)
اس سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت گزر چکی کہ مشرکینِ قریش زمانۂ جاہلیت ہی سے اس دن روزہ رکھتے تھے، غالباً یہ کسی نبی اللہ کی باقیات میں سے ہوگا، اور رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کو بھی اس کا حکم دیا تھا۔روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عیسائی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعتوں میں اس دن کا روزہ مشروع تھا۔ (تفہیم البخاری)
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت واحکام
رسول اللہﷺ سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔(مسلم، ابو داؤد)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: جب آنحضرت ﷺ نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: انشاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لیکن آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وفات پاگئے۔ (مسلم، ابن ماجہ)
اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔(شامی، وانظر نصب الرایہ)البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ فرماتے ہیں کہ: ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث)
یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے لگے۔ بلکہ گناہوں پر نادم ہو اور پاکباز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں انشاء اللہ مددگار ثابت ہوںگی۔
عاشوراء کے دن اہل وعیال پر وسعت
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔(شعب الایمان)
یومِ عاشوراء میں مسلمان کیا کریں؟
عاشوراء کہ موقع سے لوگوں نے بہت سی واہی تباہیں باتیں ایجاد کر رکھی ہیں۔ علامہ ابن تیمیہؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں:اس سلسلہ میں نہ حضرت نبی کریمﷺ سے کوئی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے اور نہ کسی صحابی سے( کوئی اثر)۔ اسے ائمہ مسلمین، بشمول ائمۂ اربعہؒ و غیرہم نے مستحب گردانا ہے اور نہ کسی مستند کتاب میں اس کا تذکرہ منقول ہے۔ حضرت نبی کریمﷺ ، صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ سے اس کے متعلق کوئی روایت نہیں۔ نہ صحیح ، نہ ضعیف۔ نہ کتبِ صحاح میں اس کا ذکر ہے اور نہ کتبِ سنن میں، اور خیر القرون سے بھی ایسی کوئی روایت معلوم نہیں ہوتی (جن میں ان کا تذکرہ ہو)۔ (مجموع الفتاویٰ)