افسانچے

ندیم احمد انصاری

کھاری

پھیری والے نے بیکری کے مالک سے شکایت کے انداز میں کہا : سیٹھ کھاری کی ڈمانڈ بہت ہے ، مال کیوں نہیں بناتے؟ سیٹھ نے منشی کو آواز دی : مقصود ! سنیے بھیّا، دیکھ یو کیا کہہ ریا ؟ مقصود آیا تو پھیری والے نے اس کے سامنے بھی اپنی شکایت دوہرادی۔ مقصود نے سیٹھ سے کہا : اتنے کاری گروں میں جتنا مال بن سکے ، اُتّا بنا تو رئے! اس سے جادہ نہ بننے کا۔ آدمی ہیں گے، مشین تھوڑی ہیں۔ سیٹھ نے قضیے کا حل پیش کرتے ہوئے کہا: ایک کام کر یار، گھی کم کر دے!

ڈر

مشتاق پینٹر یو پی کے کسی گاؤں سے آکر ممبئی میں کام کیا کرتا تھا۔ بیوی بچے سب گاؤں میں تھے ۔وہ ہر سال عید کے دو دن پہلے روانہ ہو جاتا، تاکہ اپنے بچوں کے ساتھ عید منا سکے ۔ آج عیدکی نماز سے میں واپس آیا تو دیکھا کہ وہ بڑا اُداس سا بیٹھا تھا۔ میں نے سلام کیا اور پوچھا : ارے مشتاق بھائی ! خیریت تو ہے ؟ گاؤں نہیں گئے اس بار؟ ٹکٹ نہیں ملی کیا ؟ نہیں یار! بس ایسے ہی۔ آج کل موب لنچنگ ونچنگ کی خبریں آرہی ہیں۔ اکیلے سفر کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ میں خاموش ہو گیا، جیسے میرے پاس الفاظ ہی ختم ہو گئے ہوں۔

انسان

آج کل کے سیاسی لیڈر کام وام تو کچھ کرتے نہیں، صرف مال بٹورنے میں لگے رہتے ہیں۔جنتا سوال کرے ، اس سے پہلے ہی دھرم کے نام پر الگ الگ مسائل میں الجھا دیتے ہیں۔ آشیش نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ باتیں اپنے دوست طالب سے کہیں تو طالب بولا : ہاں نا بھائی۔ اپن لوگ کے بچپن میں اتّا بے کار نہیں تھا یار! پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب تو ! مصیبت کے وقت انسان ہی انسان کے کام آتا ہے ۔ تو دیکھا نہیں، پچھلے ہفتے بدھ کو جب بارش گرنے کی وجہ سے لوکل بند ہو گیا تھا، کیسے لوگ سڑکوں اور ریلوے ٹریک پہ کھڑے ہو کردوسروں کی مدد کر رہے تھے ۔ایسے ٹائم پے کوئی کسی کا مذہب دھرم دیکھتا ہے کیا؟ زمین والے بھلے ہی پھوٹ ڈالیں، پر اوپر والا جوڑتا رہتا ہے ۔

ایئر ہوسٹس

مڈل کلاس گھرانے میں جنمی چھے سالہ عائشہ سے جب کوئی پوچھتا کہ آپ بڑی ہو کر کیا بنوگی ؟ وہ تپاک سے جواب دیتی : مجھے تو ایئر ہوسٹس بننا ہے ۔ سبب پوچھنے پر اس کا جواب ہوتا کہ مجھے مفت میں پلین میں جانے ملے گا۔ آج گاؤں میں اس کے ابّو کی دادی کے اچانک انتقال کی خبر ملنے پر وہ اپنے ابو کے ساتھ فلائٹ میں پہلی دفع سفر کر رہی تھی۔ حسبِ روایت فلائٹ میں جل پان سیوا شروع ہوئی تو ائیر ہوسٹس نے آکر سواروں سے ان کی طلب معلوم کی ان کی مطلوبہ اشیا لا لا کر دیتی رہیں۔ کچھ دیر بعددو ائیر ہوسٹس ایک بڑی سی تھیلی لیے ہوئے لوگوں کا پس خوردہ اور دوسرا کچرا وغیرہ لینے آئیں تو عائشہ نے معصومیت سے کہا: ابو جی ! ائیرہوسٹس کو یہ سب بھی کرنا پڑتا ہے ؟ ابو نے جواب دیا: ہاں بیٹا۔ وہ بولی: میرے کو ائیر ہوسٹس نہیں بننا ۔

سادی شادی

فہیم کے بیٹے کی شادی ہونے والی تھی۔ جب سے رشتہ ہوا، تبھی سے اس نے گھر پر اور سب کو یہ کہہ رکھا تھا کہ سیدھی سادی شادی کریں گے، کوئی فالتو کام یا خرچہ نہیں۔ بارات میں چار لوگ جا کر نکاح پڑھوا کے بہو لے آئیں گے۔ میں نے کل اُسے فون کیا: کیا حال ہے بھائی؟ کچھ نہیں یار! بس شادی کے لیے ہال وغیرہ دیکھ رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ میں نے کہا: جب تم سیدھی سادی شادی کر رہے ہو تو اتنے مہمان تو ہوں گے نہیں، پھر ہال کی کیا ضرورت؟ وہ بولا: چار پانچ سو لوگ تو ہو ہی جائیں گے یار! شادی کون سی روز روز ہوتی ہے! میں اس کی پہلی اور اس بات میں کچھ ربط سمجھ نہیں پایا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here