مسجد کے متولّی،ٹرسٹی کی حیثیت اور ذمّے داریاں

مولانا ندیم احمد انصاری

افسوس کی بات ہے کہ ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ پورے ملک بلکہ تمام عالَم کا نظام درست ہو جائے اور اپنے محلّے کی مسجد تک کے نظام کو درست کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اکثر مسجدوں کا حال یہ ہے کہ ان پر بعض مخصوص لوگوں، خاندانوں یا جماعتوں کا قبضہ ہے، اللہ تعالیٰ کے نام پر وقف ہوتے ہوئے بھی ان پر حکومت چند لوگ کرتے ہیں۔ وہ بھی ایسے لوگ جو مسجد اور قف کے مسائل تک سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اہلِ محلّہ میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ حق کے لیے آواز اٹھائے اور اپنی ذمّے داری ادا کرے۔ اس لیے اکثر متولی اور ٹرسٹی حضرات مسجد اور وقف کو اپنی پراپرٹی سمجھنے لگے ہیں۔ کسی نے کچھ کہا تو کہتے ہیں کہ تم سوال پوچھنے والے کون ہوتے ہو؟ اس میں تمھارا کیا حصہ لگاہے؟ جب کہ انھوں نے جو چندہ بٹورا ہے، محلّے سے ہو یا محلّے کی مسجد کے نام پر دور دراز کے مال داروں سے، اس میں عوام کو سوال کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، اس کی رکھوالی اور نگرانی کرنے والے کو متولی یا ٹرسٹی کہتے ہیں۔ متولی مسجد کا مالک نہیں خادم ہوتا ہے۔ اس عظیم خدمت کے کچھ تقاضے ہیں، اگر وہ پورے نہ کیے جائیں تو نیکی برباد گناہ لازم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے مسجد کا متولی ایسے شخص کو بنانا چاہیےجو ان تقاضوں کو جانتا اور انھیں پورا کرنے کے لیے کوشاں ہو۔ محض تعلق یا اثر و رسوخ کی بنیاد پر نا اہل کویہ عظیم ذمّے داری سپرد کر دینا درست نہیں۔ اور خدا تعالیٰ جسے مسجد کی تولیت کا شرف بخشے اس کے ضروری ہے کہ پورے اخلاص و فہم کے ساتھ وہ اس ذمّے داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

دو حدیثیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس وقت امانت ضائع کردی جائیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔ سوال کیا گیا؛امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا ؟ آپﷺ نے فرمایا: جب کام نااہل کے سپرد کیا جائے، تو قیامت کا انتظار کرنا۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ۔۔۔ ‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.[بخاری] ایک حدیث میں ہے:حضرت ابن عباس؆سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اسے مسجد کی دیکھ بھال پر مقرر فرمادیتے ہیں اور جب کسی بندے سے ناراض ہوتے ہیں تو اسے حمام جیسی گھٹیا چیزوں پر لگادیتے ہیں۔عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ اذا احب عبداً جعلہ قیم مسجد، واذا ابغض عبداً جعلہ قیم حمام۔ [کنزالعمال]

مسجد میں دعویٰ

مسجد وقف اور خدا کا گھر ہے، کسی اور کی ملک نہیں، دعواے ملک کرنا غلط ہے اور کسی کے دعویٰ کر نے سے وہ اس کی ملک نہیں ہو جائے گی۔ جو شخص متولی ہے، وہ امانت دار ہے، مالک نہیں۔ [فتاوی محمودیہ] مسجد (چندے یا) ذاتی روپیے سے وقف شدہ زمیں میں تعمیر کر کے عام مسلمانوں کو اجازت دے دی اور وہاں اذان اور جماعت پنج گانہ اور جمعے کی نماز شروع ہو گئی، کسی پر روک ٹوک نہیں اور محکمہ اوقاف میں اس کا اندراج مسجد ہی کے نام سے ہے تو بلا شبہ وہ مسجد ہے، اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی، نہ اس پر دعواے ملک صحیح ہوگا، نہ وہاں کسی کو نماز پڑھنے سے روکا جائے گا۔ (اب) جو جائے داد مسجد کی زمین میں بنائی جائے اور اہلِ محلہ چندہ کر کے مسجد کے لیے بنائیں، اس پر کسی خاص شخص یا خاندان کا دعواے ملکیت ہرگز صحیح نہیں۔ [ماخوذ از فتاوی محمودیہ]

متولی/ٹرسٹی کے اوصاف

مسجد کا متولی عالم باعمل ہو، عالم نہ ہو تو دین دار اور دیانت دار تو ضرور ہو۔ غیر عالم فاسق کو متولی بنانا ناجائز ہے۔ خدا پاک فرماتے ہیں: {اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ } مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا ابوالکلام آزاد تحریر فرماتے ہیں؛(اس آیت میں) یہ حقیقت بھی واضح کر دی کہ خدا پاک کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمان کو پہنچتا ہے اور وہی اسے آبادرکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق و فاجر آدمی مساجد کا متولی نہیں ہو سکتا، کیوں کہ دونوں کے درمیان کوئی مناسبت باقی نہیں رہتی، بلکہ متضاد باتیں جمع ہو جاتی ہیں، وہ یہ کہ مساجد خدا پرستی کا مقام ہیں اور متولی خداپرستی سے نفور۔[فتاویٰ رحیمیہ]اس لیے متولی ایسے آدمی کو بنایا جائے جو امین ہو (خائن نہ ہو) دین دار ہو (بے دین نہ ہو)، انتظامِ وقف کی اہلیت اور اس سے دل چسپی رکھتا ہو، اس کو بلا وجہ ہٹا کر یا ابتداء ً کسی فاسق غیر مدین کو متولی بنانا گناہ ہے۔[فتاویٰ محمودیہ]اگر متولی خائن ہے، یا غافل ہے، یا عاجز ہے کہ موافقِ شرع وقف کا انتظام صحیح طور پر نہیں کر سکتا اور اس سے وقف کو نقصان پہنچتا ہے، نیز یہ چیز شرعی شہادت سے ثابت ہے، تو متولیِ مذکور اس تولیت سے علیحدگی کے قابل ہے۔ [ایضاً]

گنہگار شخص کو متولی /ٹرسٹی بنانا

افسوس فی زمانہ صرف مال داری دیکھی جاتی ہے، اگر چہ وہ بے علم و عمل ہو،نماز و جماعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو؛ حا لاں کہ مسجد کا متولی حقیقت میں نائبِ خدا شمار ہوگا، تو ایسے عظیم منصب کے لیے اس کے شایانِ شان متولی ہونا چاہیے، مگر افسوس لائق نالائق فاسق و فاجرسب متولی بننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بڑے بڑے عہدے نا اہلوں کے سپرد کردیے جا ئیں گے، اور قوم کا سردار فاسق بنےگا۔ [فتاویٰ رحیمیہ]متولی کی اصل خدمت انتظام و اہتمامِ مسجد ہے، اس میں ماہر ہونا ضروری ہے، لیکن چوں کہ متولی کو امین اور دیانت دار ہونا بھی لازم ہے اور جو شخص تارکِ فرائض بھی ہے وہ فاسق ہے، اور فاسق کو متولی بنانا جائز نہیں۔ [فتاویٰ محمودیہ] متولّی کے انتخاب میں ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ امانت دار، معتمد، دیانت دار اور متقی ہو، خائن، چور اور مُسرف (فضول خرچ) نہ ہو۔ پھر یہ کہ وہ عاقل و بالغ ہو۔[اسلام کا نظامِ مساجد]

متولی/ٹرسٹی کے فرائض

مسجد کی آبادی اور تمام ضروریات کا انتظام کرنا، حساب صاف رکھنا، مسجد میں غلط کام نہ ہونے دینا، نمازیوں اور امام کی حسبِ حیثیت مسجد سے متعلق تکالیف کو رفع کرنا، ہر ایک کا اس کی شان کے موافق شرعی اکرام کرنا، اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر دوسروں کو حقیر نہ سمجھنا، عہدے کا طالب نہ ہونا، احکامِ شرع کے تحت اپنی اصلاح میں لگے رہنا؛ یہ اوصاف جس متولی میں ہو، وہ قابلِ قدر ہے۔[فتاوی محمودیہ جدید] مصالحِ وقف کی رعایت نہ رکھنے اور خلافِ شرع عمل کرنے کی وجہ سے وہ مستحقِ عزل ہوتا ہے، بعد تحقیق جماعتِ منتظمہ خود یا کسی وقف بورڈ یا حکومت کے ذریعے اس کو معزول کرایا جا سکتا ہے۔ [ایضاً]

متولی/ٹرسٹی کی غفلت

متولی کی وقف کی اصلاح و ترقی سے چم پوشی حد درجے افسوس ناک ہے اور قصداً وقف کے انتظام میں کوتاہی ناقابلِ برداشت۔ عموماً یہ منظر کم و بیش ہرجگہ نظر آتا ہے کہ کافی آمدنی ہوتے ہوئے بھی مسجد کا نظام خراب سے خراب تر ہورہا ہے، نہ مسجد میں صفائی ہے، نہ روشنی کا انتظام۔ فرش ٹوٹ رہا ہے، دیواریں گر رہی ہیں، وضو خانے میں پانی ناپید ہے اور امام و مؤذن وقت کی پابندی سے کام نہیں کرتے ہیں۔ مزید یہ اور غضب ہے کہ وقف نامے کی صراحت کے باوجود امام کا انتخاب صرف مشاہرے کی وجہ سے نامعقول ہے، ایسا امام جو خود مسائلِ ضروریہ سے واقفیت نہیں رکھتا، دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا۔ متولی کو یقین رکھنا چاہیے کہ کل اس کو مرنا ہے، اپنے اعمال و اخلاق کا حساب دینا ہے اور اپنی اس ذمّے داری اور پھر کوتاہی کے سوال کا جواب پیش کرنا ہے۔ اپنے فرائض سے کوتاہی وہ جرمِ عظیم ہے، جس کی گرفت سخت تر ہوگی۔ یہ کیا ظلم ہے کہ وقف کی آمدنی کا نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ اخراجات کے اصول و قواعد، یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمیں کون کام کرنا چاہیے اور کس جگہ خرچ کرنے سے پرہیز۔ وقف کی آمدنی ایسے کام میں خرچ کرنا جس میں نام و نمود مقصود ہو اور وقف کو جس سے کوئی فایدہ نہ ہو، اپنی ذمّے داری کے احساس کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ وقف کی آمدنی بعض اپنی آمدنی میں ملا دیتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ وقف کی چیز میری چیز ہے۔ [اسلام کا نظامِ مساجد]

[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here