’رشحاتِ ابنِ یامین‘اپنے اندر علم وتحقیق اور فکر ونظر کے موتی سمیٹے ہوئے

تاثرات
محمدساجدکھجناوری
مدرس حدیث وفقہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم ومن تبعہم بأحسان الی یوم الدین، امابعد:

خلاقِ عالم نے بنی نوعِ انساں کی تخلیق کرنے کے ساتھ عظمت وشرافت کا تاج نہ صرف اس کے سرپر سجایا بلکہ دنیا وآخرت میں حصولِ سعادت کے لیے آسمانی تعلیمات وہدایات کاجامع دستور اپنے پیغمبروں کی زبانی انسانوں تک پہنچایا۔ بالکل آخر میں خاتم المرسلین ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، آپ کی معرفت ہی دنیائے جنّ وانساں کو راہِ راست پر لانے کی گہار لگائی گئی، قرآن جیسی کتابِ ہدایت سے انھیں سرفراز کیا گیا جس کے سب سے بڑے شارح ومعلّم تو خود رسول اللہ ﷺ ہیں جب کہ اول متعلمین ومخاطبین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنھوں نے وراثتِ نبوی کو سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرنے کے ساتھ اس کی ترسیل وتشریح کا بھی پیغمبری مشن دیانت و امانت کے ساتھ جاری وساری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو قیامت تک کے لیے اس دنیا میں اتارا ہے اور اس کی حفاظت کا ذمّہ اپنے پاس رکھ کر اہلِ علم کو اس کی تبلیغ واشاعت کا ظاہری سبب گردانا ہے، لہٰذا وراثتِ انبیا کے حاملین یعنی علما ئے ربانین آتے رہیں گے اور صراطِ مستقیم کی وضاحت زمان ومکان کے تناظر میں پیش فرماتے رہیں گے۔

ہمارے محبِ نادیدہ محترم مولاناندیم احمد انصاری زیدمجدہم ایسے ہی خوش بخت اہلِ علم کے ردیف ہیں جنھیں زبان وقلم کی دولت بھی میسر ہے اور علم و روحانیت کا چسکا بھی۔ ان کا سینہ تو قلبِ سلیم رکھتا ہی ہے، پرواز بھی ان کی کسی شاہین سے کم نہیں ہے۔ عروس البلاد بمبئی جیسا مصروف ترین شہر ان کا مسکن ہے جہاں کے شیئربازار کی گھن گرج پورے ملک میں صاف سنائی دیتی ہے۔ ملک کے دیگر خطّوں سے وطنی انتساب رکھنے والے بہت سے اہلِ علم یہاں کی تجارتی واقتصادی بھول بھلیوں میں کچھ اس طرح گُم ہوجاتے ہیں کہ ان کا علمی تشخص بے حیثیت ہوجاتا ہے۔ دراہم ودنانیر پانے کا ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو یا نہ ہولیکن قلم وکتاب سے قائم دوستی ضرورکھٹاس میں پڑجاتی ہے،لیکن پیشِ نظر کتاب ’رشحاتِ ابنِ یامین‘ ایک ایسے عالمِ دین کے قلمی افادات ہیں جو بمبئی کے قلب میں رہ کر بھی مادّی چکاچوند سے لاپرواہ ہے، اُسے پیار ہے تو بس کاغذ اور قلم سے ہے۔ دانش وادب کی سلطنت پانے سے ہے۔ بھٹکے ہوئے آہو کو حرم لانے سے ہے ۔کل تلک نہ میں مولانا کو جانتاتھا اور وہ بھی شاید ہی ہمیں اس سے پہلے جانتے ہوں، یہ ساری مہربانی قلم اور کمیونیکیشن کی ہے جو ایک دوسرے سے افادہ واستفادہ کی راہ آسان کررہے ہیں ۔

مولاناانصاری صاحب نے اس سے پیش تر جس کتاب کا مسودہ برائے تأثر مجھے بھیجا تھا تو پہلے پہل ہی نام اور کام دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے برسوں کی شناسائی اور اتحادِ عمل کا یارانہ ہو ۔ بعدازاں ملک کے اخبارات ورسائل میں ان کے دینی علمی اور فکری شہ پاروں پر نظر جمنے لگی۔ موصوف کی دیگر قلمی خوبیوں کے ساتھ ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ خرافاتی موضوعات سے اللہ واسطہ کی دشمنی رکھتے ہیں۔ انھوں نے مقصدی موضوعات کو سامنے رکھ کر فکروتحقیق کی کہکشاں سجائی ہے۔ ایک فرض شناس اہلِ قلم کی اس سے بڑی اور کیا سعادت ہوسکتی ہے کہ اس کا قلم حقیقت بیانی ،انسانیت نوازی ،راست گوئی اور خداشناسی کی وکالت کرتا ہو۔ خالق اور مخلوق کے باہمی مطلوبہ رشتوں پر زور دیتا ہو۔صراطِ مستقیم کی وضاحت اس کا نصب العین اور ابلاغِ دین اس کا وظیفۂ حیات ہو۔ یقیناً ایسا صاحبِ عزیمت انسان داعیِ خیر کہلانے کا بجا طور پر مستحق ہے۔ مولاناندیم احمد انصاری بھی ایسے ہی فردِ خوش نصیب ہیں جس کے لیے بطورشہادت ان کی تحریروں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔

اب آئیے زیرِتذکرہ کتاب’رشحاتِ ابنِ یامین‘کا سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے اندر علم وتحقیق اور فکر ونظر کے موتی سمیٹے ہوئے ہے ۔ مصنف نے پانچ چھے بڑے عنوانات مثلاً ۝۱دینیات۝۲ علمیات ۝۳خصوصی رات ودن ۝۴شخصیات۝۵ متفرقات اور ۝۶حالاتِ حاضرہ کو ذیلی سرخیوں میں تقسیم کرکے اس کی افادیت کو پختگی دے دی ہے۔چناں چہ دوہزار سولہ عیسوی سے لے کر دوہزار اٹھارہ تک دینی، علمی، فکری اور عصری موضوعات پر مولانا نے اپنے قلم کو سلامی دے کر جوصحافتی مضامین ترتیب دیے ہیں اس سے موصوف کی ہمہ گیریت کا عرفان ہوتا ہے۔ انھوں نے دینیات پر بھی لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ مستند معلومات جمع کرکے رواں دواں اسلوب میں بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت انھوں نے کئی مضامین تحریر کیے ہیں جیسے ’صحابۂ کرام پوری امت میں سب سے افضل ہیں‘ ’عشرۂ مبشرہ‘ ’سندِحدیث اور اس کی ضرورت واہمیت‘ ’جب چاند کے معاملے میں اختلاف ہوجائے‘’ صوتی آلودگی :حکومتی قوانین اور اسلامی ہدایات‘ ’میوزک اور گانابجانا‘ وغیرہ ۔اسی طرح علمیات کے ذیل میں ’علمِ دین کی قدروقیمت اور اس کی فرضیت‘ ’علم وہدایت اور شرعی مسائل چھپانا‘ شامل ہیں ۔ایک باب متفرقات کا بھی ہے جس کے تحت ’محبتوں کے ساتھ رہناسیکھیں‘ ’پیڑپودوں کی اہمیت اورماحولیاتی مسائل کاحل‘ پیش کیاگیا ہے۔ایک کالم شخصیات کا بھی ہے جس کے جلومیں حضرت خدیجہ ،حضرت فاطمہ ،امام اعظم ابوحنیفہ اور شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان وغیرہ کے سیرت وکردار کابیانیہ ہے ۔

آخری باب حالاتِ حاضرہ کے عنوان سے ہے، یہ عنوان جن مشمولات پر محیط ہے ان کی افادیت تو چڑھتے سورج کی طرح روشن ہے۔ ملتِ اسلامیانِ ہند جن احوال وظروف سے نبرد آزما ہے اس نے اہلِ عقل وخرد کو مزید بصیرت کے ساتھ حالات کو انگیز کرنے کی دعوت دی ہے۔ کچھ مسائل تو ہمارے اپنے گھروں کی پیداوار ہیں جنھیں گھر کے اندر ہی بیٹھ کر حل کرنازیادہ انسب ہے، جب کہ کچھ احوال ہمارے ملک کی نکمّی سیاست کا لازمی نتیجہ ہیں جن سے راست طورپر نپٹنا ہربھارتی کا فرض بنتا ہے۔ مولاناندیم احمد انصاری نے ملک کے منظرنامہ کا ہمدردانہ مطالعہ کیا ہے اور توجہ طلب مسائل پر پورے انشراح کے ساتھ شفاکن بحث کی ہے۔ انھوں نے ’بھارت میں جمہوریت‘ ’دیوبندی بریلوی ہی نہیں سارے مسلمان متحد ہوں‘ ’ای وی ایم کا مسئلہ حل کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی‘ اور ’حج سبسڈی‘ جیسے محتویات پر مبصرانہ گفتگو کی ہے۔
پوری کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کے لیے مولانا انصاری صاحب قابلِ مبارک باد ہیں۔

۲۱/فروری ۲۰۲۰ء

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here