صحابۂ کرامؓ کا نکاح اور ولیمہ

مفتی ندیم احمد انصاری

اسلامی شریعت میں نکاح و ولیمہ مسنون ہے۔حضرت نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا عملی نمونہ امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ اور آپ کے وفادار اور جاں نثار صحابۂ کرامؓکا اسوہ صرف پڑھنے سننے کے لیے نہیں عمل کرنے کے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا نکاح وو لیمہ سادگی سے کیا اور آپ کے صحابۂ کرامؓنے آپ کی پیروی کی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے محبوبِ کبریا کے طرز پر نکاح و ولیمہ کر کے امت کو یہ سبق دیا کہ مومن کی خوشی اسی میں ہے کہ ہر موقع پر اپنے نبی سے محبت و وفاداری کا ثبوت دے۔ اس مضمون میں چند مثالوں کے ذریعے ہم دیکھیں گے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے صحابۂ کرامؓکس طرح نکاح و ولیمہ کیا کرتے تھے۔

حضرت علیؓ کا نکاح

حضرت عبداللہ بن بُریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمر ؓنے حضرت فاطمہؓسے نکاح کے لیے پیغام بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابھی وہ چھوٹی ہیں۔ پھر حضرت علیؓنے پیغام بھیجا تو آپ ﷺ نے ان سے ان کا نکاح کردیا۔[نسائی]

حضرت فاطمہؓ کی شادی کے انتظامات

اُم المومنین حضرت عائشہؓاور اُم المومنین حضرت امِ سلمہؓکہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حضرت فاطمہ ؓکو تیار کریں اور حضرت علیؓکے پاس بھیجیں۔ ہم گھر میں گئیں اور میدانِ بطحا کے کناروں سے نرم مٹی لے کر اس گھر میں بہ طور فرش بچھا دی، پھر دو تکیوں میں کھجور کی چھال بھری اور اسے اپنے ہاتھوں سے دُھنا۔ پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلائے اور میٹھا پانی پلایا، اور ایک لکڑی گھر کے ایک گوشے میں لگا دی تاکہ اس پر کپڑا ڈالا جاسکے اور مشکیزے لٹکائے جاسکیں۔ ہم نے حضرت فاطمہؓکی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی۔[ابن ماجہ]

حضرت فاطمہؓ کا جہیز

حضرت علیؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ میرے اور فاطمہؓکے پاس آئے، ہم دونوں ایک سفید اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے جو آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓکو جہیز میں دی تھی، اور ایک تکیہ دیا تھا جس کے اندر اِذخر گھاس بھری ہوئی تھی، اور ایک مشک پانی کے لیے تھی۔[ابن ماجہ]

حضرت علیؓ کا ولیمہ

حضرت حسین بن علیؓنے بیان کیا کہ حضرت علیؓنے فرمایا: غنیمت کے مال میں سے میرے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا اور ایک دوسرا اونٹ مجھے حضرت نبی کریم ﷺ نے خمس میں سے دیا تھا۔جب میرا ارادہ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓکی رخصتی کرا کے لانے کا ہوا تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر گھاس لائیں، کیوں کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے سناروں کے ہاتھ بیچ کر اپنی شادی کے ولیمے میں اس کی قیمت کو لگاؤں۔[بخاری]

ایک نرالا ولیمہ

ابوحازم نے بیان کیا کہ میں نے سہل کو کہتے ہوئے سنا کہ ابواسید ساعدیؓآئے اور رسول اللہ ﷺ کو ولیمے کی دعوت دی۔ ان کی بیوی جو نئی دلھن تھی، وہی مہمانوں کی خدمت کر رہی تھی۔ انھوں نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیا چیز پلائی؟ میں نے آپﷺکے لیے رات ہی میں ایک لکڑی کے پیالے میں چند کھجوریں بھگو دی تھیں۔‏[بخاری] کیا آج یہ ممکن ہے کہ جس کا نکاح ہوا ہو وہی دلھا دلھن ولیمے کی تیاریوں اور مہمانوں کی خدمت میں لگے ہوں اور مہمان ایک سادہ سی چیز پر قناعت کریں؟

حضرت عبدالرحمنؓ نے نبی کو نکاح کی خبر نہیں دی

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓایک جلیل القدر صحابی اور عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔ انھوں نے مدینے میں رہتے ہوئے نکاح کیا اور حضرت نبی کریم ﷺ کو نکاح کی خبر بھی نہیں دی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے میرے اور سعد بن ربیعؓکے درمیان مواخات کا معاملہ کردیا۔ سعد بن ربیعؓنے کہا: میں انصار میں زیادہ مال دار ہوں اس لیے میں اپنا آدھا مال آپ کو دیتا ہوں اور دیکھ لو میری جو بیوی تمھیں پسند آئے میں اسے تمھارے لیے چھوڑ دوںگا، جب وہ عدت سے فارغ ہوجائے تو تم اس سے نکاح کرلینا۔ حضرت عبدالرحمنؓنے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں، کیا یہاں کوئی بازار ہے جہاں تجارت ہوتی ہے؟ انھوں نے بتایا: قینقاع کا بازار ہے! چناںچہ حضرت عبدالرحمنؓوہاں گئے اور پنیر اور گھی لے کر آئے، پھر برابر صبح کو جانے لگے۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ اس حال میں آئے کہ ان پر زردی کا اثر تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیا تم نے شادی کی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ! آپ ﷺنے پوچھا: کس سے؟ انھوں نے کہا: ایک انصاری عورت سے۔ آپﷺ نے پوچھا: مہر کتنا دیا؟ انھوں نے بتایا: ایک گٹھلی کے برابر سونا۔ آپﷺ نے فرمایا: ولیمہ کرو، چاہے ایک بکری ہی ہو۔[بخاری] یہ ان کی سادگی تھی کہ نکاح میںکسی اور کو تو کیا حضرت نبی کریم ﷺ کو بلانا یا بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

ناراض ہوئے بغیر صرف ولیمے کی تاکید

حضرت انسؓکہتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن عوفؓہجرت کر کےہمارے پاس مدینہ آئے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیعؓکے درمیان اخوت کردی – سعد بڑے مال دار تھے-سعد نے ان سے کہا: تمام انصار کو معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ دولت مند ہوں، میں اپنا مال اپنے اور آپ کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دوں گا، نیز میری دو بیویاں ہیں لہٰذا دیکھ لو ان میں تمھیں جو پسند آئے میں اسے طلاق دے دوں گا، جب اس کی عدت گزر جائے تو تم اس سے نکاح کرلینا۔ عبدالرحمن نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ تمھارے مال اور تمھاری گھر والیوں میں برکت دے مجھے اس کی ضرورت نہیں، مجھے تو بازار بتادو! چناں چہ انھیں بازار بتادیا گیا، وہ جب اس روز بازار سے لوٹے تو انھیں نفع میں کچھ گھی اور پنیر مل گیا۔ اس حال میں عبدالرحمن تھوڑے ہی دن رہے یہاں تک کہ ایک روز حضور ﷺ کے پاس آئے اور ان کے لباس پر زردی کے کچھ نشان لگے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کرلیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اسے کتنا مہر دیا ؟ عبدالرحمن نے کہا: گٹھلی برابر سو نا، یا فرمایا: سونے کی ایک گٹھلی۔ حضور ﷺنے فرمایا: ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔[بخاری]

ولیمے کی کوئی حد متعین نہیں

ولیمے کی کوئی حد متعین نہیں، اسراف سے بچتے ہوئے ہر مقدار جائز ہے اور اوسط درجے کا ولیمہ ایک بکری ہے، اسی کا آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓکو حکم دیا تھا کہ ’ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہو‘۔ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے’لو‘ کو تکثیر کے معنی پر محمول کیا ہے یعنی یہ بڑا ولیمہ ہے۔[الکوکب] اور اکثر علما کے نزدیک ’لو‘ برائے تقلیل ہے، اور اگر اس کو متوسط درجے کا ولیمہ قرار دیں تو یہ بھی درست ہے۔[تحفۃ القاری]

حضرت جابرؓ کانکاح اور حضورﷺ کو علم نہیں

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک جہاد سے واپس ہو رہے تھے۔ میں اپنے اونٹ کو- جو سست تھا- تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار مجھ سے آ کر ملا اور اپنا نیزہ میرے اونٹ کو چبھو دیا، اس کی وجہ سے میرا اونٹ تیز چل پڑا جیسے کسی عمدہ قسم کے اونٹ کی چال تم نے دیکھی ہوگی۔ اچانک حضرت نبی کریم ﷺ مل گئے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: جلدی میں کیوں ہو ؟ میں نے عرض کیا: میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نےپوچھا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا: کسی کنواری سے کیوں نہیں کی، تم اس کے ساتھ کھیلتے وہ تمھارے ساتھ کھیلتی۔ انھوں نے بیان کیا کہ جب ہم مدینے میں داخل ہونے والے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ اور رات ہوجائے تب داخل ہونا، تاکہ بکھرے بالوں والی کنگھا کر لے اور جن کے شوہر موجود نہیں تھے وہ اپنے بال صاف کرلے۔[بخاری] معلوم ہوا کہ حضرت جابرؓ نے مدینے میں رہتے ہوئے نکاح کیا اور کوئی تام جھام نہیں کیا، یہاں تک کہ حضور ﷺ کو بھی نہیں بلایا۔ حضورﷺ سے ملاقات ہوئی تو دورانِ گفتگو نکاح کا علم ہوا۔

حضرت جابرؓکا حکیمانہ فیصلہ اور حضور کی تصویب

ایک روایت میںہے: حضرت جابر بن عبداللہ ؓنے کہا، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: جابر! کیا تم نے نکاح کرلیا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کنواری سے کرتے تو وہ تمھارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد احُد میں شہید ہو گئے اور نو بیٹیاں اپنے بعد چھوڑیں لہٰذا نو بہنوں کی موجودگی میں یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی طرح ایک اور نادان لڑکی کا ان میں اضافہ کردیا جائے، میں نے چاہا کہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی کنگھی چوٹی اور خدمت کرسکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اچھا کیا۔[بخاری]اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو سوچ سمجھ کر مناسبِ حال رشتہ کرنا چاہیے۔

[کالم نگار دارالافتا، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here