نکاح و ولیمے کی تقریبات میں بڑھتی بے حیائی اور بے غیرتی

مفتی ندیم احمد انصاری

نکاح کا موسم چل رہا ہے۔ سرما میں کثرت سے نکاح و ولیمے کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر سے نکاح عام حالات میں مسنون ہے، ولیمے کو بھی سنت کہا گیا ہے۔ اس میں بدعات و خرافات کو داخل کر دینا نہایت غیرمناسب عمل ہے۔نکاح کی حیثیت ایک شرعی معاہدے اور عبادت کی ہے، اس کا مکمل طریقہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرامؓنے عملی طور پر سکھا دیا ہے لیکن آج کا مسلمان ایجاب و قبول کی ایک مختصر سی مجلس کے سوا رشتہ طے کرنے سے لے کر ولیمے تک کسی موقع پر بھی اسلامی ہدایات کا پاس و لحاظ رکھنے کو تیار نہیں۔ ایجاب و قبول کی یہ مجلس عام طور پر مسجد میں ہوتی ہےیا کبھی شادی ہال وغیرہ میں، اس میں قاضی مختصر سا خطبہ پڑھ کر حاضرین کی موجودگی میں شرعی اصولوںکے مطابق ایجاب و قبول کروا دیتا ہے، اِس کے بعد اُس کی چھٹّی کر دی جاتی ہے اور شریعت کی بھی۔ اس کے بعد مسلمان ایسا آزاد ہوتا ہے کہ اس کے جی میں جو آتا ہے، کرتا ہے۔ لکھے پڑھے لوگوں میں بینڈ باجے وغیرہ میں تو اب قدرے کمی آ گئی ہے، لیکن بے حیائی و بےغیرتی کی حدیں پار کرنا عام ہوتا جا رہا ہے۔جس مذہب میں احتیاط کے پیشِ نظر خواتین کے لیے مسجد کی جماعت میں حاضر ہونا ضروری قرار نہیں دیا گیا، اس مذہب کے ماننے والے اپنی بہو بیٹیوں کو بیوٹی پارلر سے سجا دھجا کر اجنبی مَردوں کے بیچ لاکر بٹھا دیتے ہیں، پھر نکاح و ولیمے کی سنت کے نام پر شادی ہالوں میں بےپردگی کا وہ ننگا ناچ ہوتا ہے کہ شریف آدمی مجرم بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ خواتین جو اپنے گھروں میں پسینے کی بدبو سے اَٹی رہتی ہے، کئی کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد غیرمَردوں کے لیے بن ٹھن کر آئی ہوتی ہیں۔ جوان مرد و عورتیں ایک دوسرے پر اپنا بدن اور جوانی ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ و رسول کی نافرمانی دل کھول کر کی جاتی ہے۔ کوئی اس بے غیرتی اور بے حیائی پر روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوتا۔خطبے میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ عمل درآمد کرنے کی۔

اقبالؔ نے کہا تھا:

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

نکاح کیا کرو، لیکن!

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نکاح میری سنت ہے، جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، نکاح کیا کرو، تمھاری کثرت پر میں دیگر امتوں کے سامنے فخر کروں گا، جس میں استطاعت ہو تو وہ نکاح کرلے، جس میں استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا۔عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ”. [ابن ماجہ]حضرت عائشہؓسے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو۔عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً.[مسند احمد]

حیا کی اہمیت، بے حیائی کا نقصان

حضرت انسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر دین والوں میں ایک (خاص) خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی خصلت حیا ہے۔عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا،‏‏‏‏ وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ”. [ابن ماجہ]ایک روایت میں ہے؛ حضرت انسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےحیائی جس چیز میں آتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں آتی ہے اسے سجا دیتی ہے۔ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ ” مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ”۔[ترمذی]

بے حیا شخص پر اللہ کا قہر

حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل جب کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیا نکال لیتے ہیں، جب اس سے حیانکل جائے تو تمھیں وہ شخص ہمیشہ اللہ کے قہر میں گرفتار ملے گا، اس سے امانت داری سلب ہوجاتی ہے تو وہ تمھیں ہمیشہ چوری اور خیانت میں مبتلانظر آئے گا، اور جب وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوا تو اس کے دل سے رحم ختم کردیا جاتا ہے، اور جب وہ رحم سے محروم ہوگیا تو تمھیں وہ ہمیشہ ملعون اور مردود نظر آئے گا، اور جب تم اسے ہمیشہ ملعون و مردود دیکھو تو اس کی گردن سے اسلام کی رسّی نکل گئی۔عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ عَبْدًا،‏‏‏‏ نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ،‏‏‏‏ فَإِذَا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ الْأَمَانَةُ،‏‏‏‏ فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الْأَمَانَةُ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ،‏‏‏‏ فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ رِبْقَةُ الْإِسْلَامِ”. [ابن ماجہ]

حیا اور ایمان ساتھ ساتھ

حضرت عمران بن حصینؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حیا خیر ہی لاتی ہے۔‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي السَّوَّارِ الْعَدَوِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ “الْحَيَاءُ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ”۔[بخاری]حضرت ابن عمرؒ نے ارشاد فرمایا : یقیناً حیا اور ایمان دونوں اکٹھے ملے ہوئے ہیں، پس جب ان میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : إنَّ الْحَیَاءَ وَالإِیمَانَ قُرِنَا جَمِیعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الآخَرُ۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

اللہ کے حبیب اور خلیل کا اسوہ

حضرت ابو جعفرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں بہت غیرت والا ہوں، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی غیر ت والے تھے اور غیرت صرف وہ شخص نہیں کرتا جو دیوث یا مخنث ہو۔عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ : إنِّی غَیُورٌ وَإِنَّ إبْرَاہِیمَ کَانَ غَیُورًا ، وَمَا مِنَ امْرِئٍ لاَ یَغَارُ إلاَّ مَنْکُوسُ الْقَلْبِ۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

اللہ نظرِ رحمت نہیں فرمائےگا

حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین انسانوں کی جانب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا؛ (۱)ایک وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرے (۲)دوسرے وہ عورت جو مَردوں کا حلیہ بنائے (۳)تیسرے وہ دیوث جو اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے۔ اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے؛ (۱) ایک والدین کی نافرمانی کرنے والا (۲)دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا (۳)تیسرے احسان کر کے جتلانے والا ۔عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّيُّوثُ وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمُدْمِنُ عَلَی الْخَمْرِ وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَی۔[نسائی]

غیرشوہر کے لیے بناؤ سنگار

حضرت ابوموسیؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر آنکھ زنا کرتی ہے اور وہ عورت جو خوش بو لگا کر (مَردوں کی)کسی مجلس کے پاس سے گزرے، وہ ایسی اور ایسی ہے، یعنی زانیہ ہے۔ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ” كُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةً “. [ترمذی]

مختلف اعضا کا زنا

حضرت ابن عباسؓنے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓکی بات سے زیادہ بہتر کوئی بات نہیں سنی جو وہ حضرت نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کے لیے ایک حصہ زنا کا لکھ دیا ہے جو اس سے یقیناً ہو کر رہے گا، چناں چہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بات کرنا ہے، نفس خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ ﷺ”إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَزِنَا الْعَيْنِ:‏‏‏‏ النَّظَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَزِنَا اللِّسَانِ:‏‏‏‏ الْمَنْطِقُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّفْسُ:‏‏‏‏ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَرْجُ:‏‏‏‏ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ”. [بخاری]

اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین

[کالم نگار دارالافتا، الفلاح انٹرنیشنل کے مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here