پتنگ بازی میں خرابیاں ہی خرابیاں ہیں

مولانا ندیم احمد انصاری

مکر سنکرانتی ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جو بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کے بیش تر علاقوں میں متفرق ثقافتی شکلوں میں منایا جاتا ہے۔ یہ ایک فصلی تہوار ہے، جو نیپالی تقویم (ہندو شمسی تقویم) کے ماگھ مہینے میں واقع ہوتا ہے۔یہ ہمیشہ جنوری کی چودہ یا پندرہ تاریخ ہی کو پڑتا ہے کیوں کہ اسی دن سورج خطِ قوس سے گزر کر خطِ جدی میں داخل ہوتا ہے، لہٰذا یہ تہوار اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ سورج مکر (جدی) میں داخل ہو رہا ہے۔ اس دن کو بھارت میں موسمِ بہار کی آمد کا دن اور نیپال میں ماگھ مہینے کا آغاز سمجھا جاتا ہے، چناں چہ اس لحاظ سے یہ ایک روایتی تقریب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔تمل ناڈو میں یہ تہوار پونگل کے نام سے مشہور ہے، جب کہ کیرالا، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں اسے محض ’سنکرانتی‘ ہی کہتے ہیں۔[وکی پیڈیا]

مکرسنکرانتی میں پتنگ بازی کو لازم سمجھا جاتا ہے،قطعِ نظر اس کی مذہبی حیثیت کےپتنگ بازی کئی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اس سے انسانوں اور پرندوں کو بہ طور خاص نقصان پہنچتا ہے۔ پتنگ عام طور سے چھتوں یا اونچی جگہوںپر چڑھ کراڑائی جاتی ہے، اس سے بہت سے جانیںبھی ہلاک ہو جاتی ہیں، نیز اس کی ڈور اور مانجھے سے انسانوں اور پرندوں کو نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی بہ طور کھیل اس میں حصہ لینے لگے ہیں، اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ مسلمان بھائیوں کے سامنے اسلامی نقطۂ نظر سے اس کی خرابیوں کا تذکرہ کیا جائے، تاکہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی آل و اولاد کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔

اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا

اوپر چڑھ کر پتنگ اڑانے میں بعض مرتبہ جان تک چلی جاتی ہے، مانجھے میں کانچ کا چورا ملا ہونے کے سبب اس سے بھی حادثات پیش آتے ہیں، ان سب کے پیشِ نظر پتنگ اڑانا گویا خود اور دوسروں کی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔[النسا] نیز رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ نے تو بے منڈیر کی دیوار پر سونے سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے، تو محض ایک کھیل کی خاطر اپنی جان جوکھم میں ڈالنا کیوں کر رَوا ہو سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی گھر کی ایسی چھت پر سویا، جس کے اردگرد رکاوٹ (دیوار یا منڈیر ) نہ ہو تو اس سے ذمہ بری ہوگیا۔[ابوداود]

آپسی لڑائی اور اللہ سے غفلت

پتنگ بازی میں مشغولیت اللہ تعالیٰ اوراس کے اوامر سے غفلت نیز اس کھیل میں ہونے والی ہار جیت اور ایک دوسرے کی پتنگ اور ڈور لوٹنا وغیرہ آپسی لڑائی کا سبب بنتا ہے۔جب کہ قرآن مجید میں ہے: اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ؀ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے، اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے ؟ [المائدہ]

لوگوں کو نقصان پہنچانا

ہر شخص کی نیت (یہ ہوتی ہے) کہ دوسرے کے کنکوّے (پتنگ) کو کاٹ دوں اور اس کا نقصان کر دوں، سو کسی مسلمان کو ضَرر پہنچانا حرام ہے، اس حرام فعل کی نیت سے دونوں گنہ گار ہوتے ہیں۔ [اصلاح الرسوم]علاوہ ازیں پتنگ اڑانے سے دوسرے لوگوں کو متعدد نقصان پہنچتے ہیں، مثال کے طور پر مانجھا اور ڈور کہیں الجھ جائےتو بدن کی کھال تک کٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا؀اور جو لوگ مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انھوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔ [الاحزاب]حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا : (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور (کامل) مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں۔ [ترمذی]

مال برباد کرنا

پتنگ بازی میں شامل ایک بڑا گناہ مال کو ضایع کرنا ہے۔ شوق شوق میں اس کھیل میں بہت سا مال برباد کر دیا جاتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اسے گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا؀یقین جانو کہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ [الاسرا]حضرت ابن مسعودؓسے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گےجب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے:(۱)عمر کس چیز میں صَرف کی (۲) جوانی کہاں خرچ کی (۳)مال کہاں سے کمایا(۴)مال کہاں خرچ کیا (۵)جو علم کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟ [ترمذی]

آج یہ واویلا تو ہر شخص کی زبان پر ہے کہ مسلمان تباہ حال ہیں، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس مال کی اتنی کمی نہیں ہے جتنا شور وغل ہے، ہاں خرچ زیادہ ہے، اس کی کمی کرنی چاہیے، اور اس کے لیے معیارِ شریعت سے اچھا کوئی بھی نہیں ہے۔ شریعت کے موافق چلیے، دیکھیےپھر کتنی شکایت کم ہوجاتی ہے۔ غرض کہ مال غنیمت سمجھو اور اس کو عطیۂ الٰہی خیال کرو، جس کے خرچ کا حساب دینا ہوگا۔ بےدھڑک اور بےسوچے سمجھے خرچ مت کرو۔۔۔ مُبَذِّرِيْن کو اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِفرمایا اور شیطان کی صفت كَفُوْر فرمائی تو مبذرین کے لیے بھی یہ صف کفوثابت ہوگئی۔[اشرف التفاسیر]

پتنگ کے پیچھے بھاگنا

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ کبوتر کے پیچھے پیچھے دوڑا چلا جا رہا ہے، تو آپ ﷺنے فرمایا کہ ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے چلا جا رہا ہے۔[ابوداود]یہی حکم پتنگ کے پیچھے بھاگنے کا بھی ہوگا، اس لیے کہ علما نے ان دونوں کا یکساں حکم بیان کیا ہے۔حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ تحریر فرماتےہیں کہ بعض لوگ پتنگ بازی اور کبوتر بازی پر روپے کی ہار جیت کھیلتے ہیں، یہ کھیل خود بھی ناجائز ہیں اوران میں روپے پیسے کی ہار جیت دوسرا مستقل گناہ اور حرامِ صریح ہے۔[جواہر الفقہ]

پتنگ اور ڈور لوٹنا

پتنگ اور اس کی ڈور لوٹنے کو بھی آج کل برا نہیں سمجھا جاتا، جب کہ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔[بخاری]

اس حدیث کے خواہ کچھ معنی ہوں، مگر ظاہراًتو پیغمبرﷺ نے ایسے شخص کو خارج از ایمان فرما دیا۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اس لوٹنے میں تو مالک کی اجازت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ یہ وعید متعلق نہیں ہے، جواب اس کا یہ ہے کہ یہ بالکل غلط بات ہے، مالک کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی۔ چوں کہ عام رواج اس کا ہو رہا ہے، اس لیے خاموش ہو جاتا ہے۔ دل سے ہرگز رضامند اور خوش نہیں۔ اگر اس کا بس چلے تو خود دوڑے اور کنکوّا (پتنگ) ہرگز بھی دوسرے کو نہ لینے دے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کنکوا کٹ جاتا ہے، تو وہ بڑی کوشش سے جلدی جلدی ڈور کھینچتا ہے کہ جو ہاتھ لگ جائے، غنیمت ہے۔ڈور کو لوٹ لینے میں ایک اعتبار سے کنکوے سے بھی زیادہ قباحت ہے، کیوں کہ کنکوّا تو ایک ہی کے ہاتھ آتا ہے، سو ایک ہی آدمی گنہ گار ہوتا ہے، اور ڈور تو بیسیوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ بہت سے آدمی گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور باعث ان تمام آدمیوں کے گنہ گار ہونے کے وہی کنکوّا اڑانے والے ہیں، تو حسبِ وعدہ ان سب کے برابر اس اکیلے اڑانے والے کو گناہ ہوتا ہے۔ [اصلاح الرسوم]

پتنگ اڑانے اور بیچنے کا شرعی حکم

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اس میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ پتنگ بازی لہو و لعب کا آلہ ہے،اس سے دینی یا دنیوی کسی قسم کا کوئی فایدہ نہیں، اس لیے اس کا شوق پالنے اور اسے خریدنے بیچنے سے احتراز لازم ہے۔[شامی]علما نے لکھا ہے کہ جس کھیل میں دین یا دنیا کا کوئی بھی فایدہ ہو اور شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی ہو تو ایسا کھیل کھیلنا جائز ہے، پتنگ اڑانے میں نہ تو دین کا کوئی فایدہ ہے اور نہ دنیوی کوئی فایدہ حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کی مشغولیت کی وجہ سے نمازیں قضا ہو جاتی ہیں اور جان و مال کی ہلاکت اور فضول خرچی اور بے پردگی جیسے گناہ ہوتے ہیں ، اس لیے پتنگ اڑانا یا کٹی ہوئی پتنگ کا لوٹنا سب ناجائز ہے، لہٰذا پتنگ بنانا اور اس کی تجارت کرنا سب گناہ کے کام میں مدد ہے اور ناجائز ہے۔[فتاوی دینیہ]

فاضلِ بریلوی مولانا احمد رضاکا موقف
مولانا احمدرضاخان بریلوی بھی اسی کے قائل ہیں، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ کنکیّا(پتنگ)اڑانے میں وقت،مال کاضایع کرناہوتاہے،یہ بھی گناہ ہے،اورگناہ کے آلات کنکیّا، ڈوربیچنابھی منع ہے۔[فتاوی رضویہ]

چھوٹے بچّوں کے لیے خاص حکم

یہ حکم رائج الوقت پتنگ بازی کا ہے، جس میں مندرجہ بالا مفاسد یقینی طور پر پائے جاتے ہیں، جس کا ہر آدمی مشاہدہ کر سکتا ہے، بلکہ یہ مفاسد روز بہ روز ترقی پر ہیں۔ لیکن اگر کوئی بچّہ ہلکا پھلکا رنگین کاغذ دھاگے میں باندھ کر پتنگ کی طرح ہوا میںاڑا لے، جس میں یہ خرابیاں موجود نہ ہوں جو اوپر تحریر کی گئیں تو پھر اس کا وہ حکم ہوگا جو چھوٹے بچّے کے لیے غبارہ اڑانے کا ہے کہ گو وہ مفید نہ سہی، مگر ناسمجھ بچوں کے لیے اس میں شرعاً کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ [کھیل کود اور تفریح کی شرعی حیثیت]

[مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیرکٹر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here