کسی کا نکاح کروا کر،آدھے دین کی فکر کیوں نہیں کرتے

ندیم احمد انصاری

ہم انسانوں کا بھی حال عجیب ہے۔ جو ذمے داریاں ہماری ذمے عائد ہوتی ہیں، ان کی تو فکر کرتے نہیں، ان چیزوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جن سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ لینے دینے کی بحث بھی خوب چھڑی! جب تک کسی بات میں ہمارا کوئی دنیوی فایدہ نظر نہ آتا ہو، یعنی جس معاملے سے ہمیں کچھ لینا نہ ہو، اس میں ٹانگ اڑانے سے ہم میں سے اکثر لوگ بچتے ہیں۔ جو کچھ کرتے ہیں، کسی دنیوی فایدے کے پیشِ نظر ہی کرتے ہیں۔ اسی لیے اب کوئی کسی کے نکاح اور رشتے کے چکر میں بھی نہیں پڑتا۔ پہلے لوگ کسی کا بیٹا یا بیٹی جوان ہوتے ہی اپنی سماجی ذمے داری کا احساس کرکے ان کے نکاح اور مناسب جوڑ کی فکر میں لگ جاتے تھے اور اکثر شادیاں اسی طرح طے پاتی تھیں۔ لیکن اب اسے لوگ کسی کی زندگی میں ٹانگ اڑانا، یا بے وجہ اپنے گلے میں پھندا ڈالنا کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بھئی ہم کیوں کسی کے معاملے میں پڑیں، خدا نہ خواستہ کل کوئی بات بگڑ گئی، تو کون ذمے دار ہوگا؟

اس سے انکار نہیں کہ ہر سکّے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔یہاں بھی دونوں باتیں ہو سکتی ہیں۔ آپ کا بتایا یا کرایا ہوا رشتہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے اور ناکام بھی! لیکن بھئی یہ تو تمام ہی معاملات میں ہے! اگر آپ جان بوجھ کر کوئی بات چھپائیں گے،تو گنہ گار ہوں گے، ورنہ آپ کیوں ماخوذ ہونے لگے؟ اگر مان لیں کہ آپ اس لیے کسی کے نکاح کی فکر نہیں کرتے کہ کل کچھ غلط ہو جانے پر وہ آپ کا گریبان پکڑ لے گا، تو ایسا کر لیں کہ آپ صرف مناسب جوڑ کی نشان دہی اور رہنمائی کرکے کنارے ہو جائیں، اور صاف کہہ دیں کہ آگے کا معاملہ آپ جانیں، آگے میری کوئی ذمے داری نہیں! لیکن کم سے کم اتنی فکر تو آپ کو کرنی ہی چاہیے۔وہ اس لیے کہ ہمارا دور نیو کلیئر فیملی کا دور ہے، لوگ جوائنٹ فیملی میں نہیں رہتے۔ رشتے داریاں میں بھی کم اور کمزور ہو گئی ہیں۔ ایسے میں مناسب جوڑ مل پانا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ فی زمانہ دو طرح کے لوگوں کی شادی بہ آسانی ہو پاتی ہے۔ ایک تو وہ جس کی رشتے داریاں بہت ہوں، اور کوئی رشتے دار اس کے لیے رشتہ تلاش کر دے۔ یا وہ جو اسکول کالج وغیرہ میں خود ہی اپنا معاملہ سیٹ کر لے۔ اول الذکر کا حال ہم بتا چکے، ثانی الذکر کو شریعت میں درست قرار نہیں دیا گیا۔اس لیے وہ لوگ جنھیں خدا نے سمجھ دی ہے، انھیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

یہ بھی یاد رہے کہ یہ کوشش کرتے وقت آپ مخلص ہونے چاہئیں۔ کسی غرض یا دنیوی منفعت کے لیے ایسا کرنے سے ثواب کی امید باقی نہیں رہتی۔ نیز رشتہ ڈھونڈنے یا رشتہ کروانے میں یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو اپنے لیے پسند کرے، وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے۔ بعض لوگوں کو جب اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے، تو وہ کسی بھی ایرے غیرے یا بالکل نامناسب جوڑ کا نام لے کر اپنے آپ کو سبک دوش خیال کرنے لگتے ہیں۔یہ انتہائی درجے کی اخلاقی پستی ہے کہ جس سے خود آپ یا اپنی اولاد کا رشتہ کروانا گوارا نہ کریں، کسی اور کو اس کی صلاح دیں۔حضرت انس سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی نہ چاہے، جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.(بخاری)

سماج کو ہدایت

صالح معاشرے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ جوان لڑکے لڑکیاں بغیر شادی شدہ نہ رہیں۔ اس لیے کہ نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کے بغیر صالح معاشرہ ممکن نہیں اور نگاہ اور شرم گاہ کی حفاظت نکاح کے بغیر ممکن نہیں۔اس اصول کو سمجھے بغیر کوئی کتنے ہیں اصلاحِ معاشرہ کے اجلاس اور کانفرنسیں کر لے، قابلِ ذکر نتائج ہرگز برآمد نہیں ہو سکتے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ذمے داری کا احساس دلاتا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے گویا پورے سماج کو اس کی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے واضح طور پر ارشاد فرمایا: وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ، وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمھارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انھیں بےنیاز کردے گا، اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ (النور)رسول اللہ ﷺ نے اس عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جس نے کسی کا نکاح کرایا، اللہ تعالیٰ اسے بادشاہوں والا تاج پہنائیں گے۔ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَلَأَهُ اللّهُ أَمْنًا وَإِيمَانًا، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ دَعَاهُ اللّهُ زَادَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَرَكَ لُبْسَ ثَوْبِ جَمَالٍ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ بِشْرٌ:‏‏‏‏ أَحْسِبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَوَاضُعًا، ‏‏‏‏‏‏كَسَاهُ اللّهُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ زَوَّجَ لِلّهِ تَعَالَى تَوَّجَهُ اللّهُ تَاجَ الْمُلْكِ.(ابوداؤد)

نوجوانوں کو ہدایت

رسول اللہﷺ نے ہر ایک شخص کو انفرادی طور پر بھی تنبیہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ہر صاحبِ استطاعت نکاح کر ے۔عبدالرحمن روایت کرتے ہیں،میں علقمہ اور اسود کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انھوں نے فرمایا: ہم جس زمانے میں جوان تھے اور ہم کو کچھ میسر نہ تھا، تو ہم سے ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے نوجوانوں کے گروہ ! جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے، کیوں کہ نکاح پرائی عورت کو دیکھنے سے نگاہ کو نیچا کردیتا ہے اور حرام کاری سے بچاتا ہے، البتہ جس میں قوت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے، کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت کم ہوجاتی ہے۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ والْأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللّهِ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللّهِ ﷺ: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، ‏‏‏‏‏‏مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.(بخاری)اگر کسی کے پاس نکاح کے سامان نہ ہوں، اسے بھی حوصلہ دیتے ہوئےرسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا: تین لو گو ں کا ذمہ اور حق اللہ عزوجل (نے خود)پر (لے رکھا)ہے کہ ان کی مد د کر ے :(۱) وہ غلا م جسں نے اپنے آقا سے رقم مقرّر کر کے آ زا دی حا صل کر نے کا معا ہد ہ کیا ہو، اور وہ اس کے ادا کر نے کا ارا دہ بھی رکھتا ہو (۲) ایسا نکا ح کر نے وا لا، جو نکا ح کے ذریعے عفت وپاک د ا منی کا خو اہا ں ہو اور (۳)وہ شخص جواللہ کے را ستے میں جدو جہد کر نے والا ہو ۔عَنْ اَبِیْ ھُرَ یْرَ ۃَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَا لَ : ثَلاَ ثَۃٌ حَقٌ عَلَی ا للّٰہِ عَزَّوَجَلَّ عَوْنُھُمْ، الْمُکَا تِبُ الَّذِیْ یُرِ یْدُ الْاَ دَاَئَ، النَّاکِحُ الَّذِیْ یُرِ یْدُ الْعَفَا فَ ، وَا لمْجُاَ ھِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (نسا ئی، تر مذی ،ابن ماجہ)

نکا ح کو آدھا د ین قرار دیا

غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ جس چیز کی اتنی فکر فرما رہے ہیں، اس میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ہوں گی۔ دراصل جنسی خواہشات کے نتیجے میں سرزد ہونے والےگناہوں سے انسان کو روکنےوالی صرف دو چیزیں ہیں: ایک خوفِ خدا، دوسرا نکاح۔نگاہ اور شرم گاہ سے بہت سے گناہ سرزد ہوتے ہیں، لیکن جب کسی انسان کا نکاح ہو جاتا ہے تو اس کی نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت کا سامان ہو جاتا ہے۔ اسی لیے رسو ل اللہ ﷺنے ار شاد فرمایا: جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے تواس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے ، پس اسے با قی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقویٰ اختیا ر کرنا چا ہیے۔قاَ لَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ ﷺاِذَا تَزَ وَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ،فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِی النِّصْفِ الْبَا قِیْ۔(التر غیب،شعب الایمان بیہقی) اتنی واضح تعلیمات کے باوجود خدا جانے لوگ کسی کا نکاح کروا کر،اس کے آدھے دین کی تکمیل کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here