Fani Badayoni – shakhsiyat o fun

یہ زندگی کی ہے رودادِ مختصر فانیؔ
ندیم احمد انصاری
(لیکچرر شعبۂ اردو، اسماعیل یوسف کالج،ممبئی)

 شوکت علی خان فانی بدایونی 13 ستمبر 1879 ء کو اسلام نگر تحصیل، بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے مورثِ اعلیٰ اصالت خاں شاہ عالَم کے زمانے میں کابل سے آکر دربارِ دہلی سے وابستہ ہوئے ، جہاں انھیں اعزاز و اکرام سے نوازا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں پر زوال چھا گیا، جس کا ذکر فانی نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں 13 سمتبر 1879ء کو دنیا میں لایا گیا۔اب تک کہ دسمبر 40ء ہے ، زندہ سمجھا جاتا ہوں۔ نسلاً پٹھان ہوں، اصلی وطن کابل ہے ، اس طرح کہ شاہ عالَم بادشاہی کے زمانے میں میرے مورثِ اعلیٰ صالت خاں نامی ہندوستان آئے ۔ دربارِ دہلی نے انھیں اور ان کے جانشینوں کو بہت نوازا، ممتاز عہدوں پر فائز کیے جانے کے علاوہ جاگیرات، خطابات، منصب وغیرہ سے سرفراز کیے گئے ۔ نواب بشارت خاں میرے پردادا تھے ، صوبۂ بدایوں کے گورنر تھے ۔ تقریباً دو سو مواضعات پر ان کی جاگیر مشتمل تھی، مگر زمانے کے انقلاب نے رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچا دی کہ میرے والد شجاعت علی خاں صاحب جو مورثِ اعلیٰ سے چھٹی پُشت میں تھے‘ پولیس کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ، چناں چہ قلیل آمدنی کے سہارے پر مرحوم نے اپنی ساری زندگی شرافت، دیانت، غیرت اور جرات کے ساتھ گذار دی۔ میری جوان لڑکی نے 33ء میں انتقال کیا، میرے دو لڑکے سعادت علی خاں اور وجاہت علی خاں کے نام سے موسوم ہیں۔مذہباً حنفی ہوں۔ میں نے 1901ء میں بی اے اور 1908ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔23ء تک لکھنؤ میں اور اس کے بعد 32ء تک آگرہ میں پیشۂ وکالت ذریعۂ معاش رہا۔ کچھ سال بدایوں اور بریلی میں بھی وکالت کرتا رہا، 32ء سے 39ء تک حیدرآباد، دکن میں صدر مدرس رہا، 39ء کے بعد سے اب تک بے کار ہوں، آیندہ کیا ہوگا معلوم نہیں۔ مختصراً ننگ خاندان ہوں اور بارِ زمین بھی۔ میری ہستی کسی اور کے لیے تو کیا مفید ہوتی، خود میرے لیے نہیں۔(آپ بیتی نمبر، نقوش) شوکت علی خان فانی بدایونی 13 ستمبر 1879 ء کو اسلام نگر تحصیل، بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے مورثِ اعلیٰ اصالت خاں شاہ عالَم کے زمانے میں کابل سے آکر دربارِ دہلی سے وابستہ ہوئے ، جہاں انھیں اعزاز و اکرام سے نوازا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں پر زوال چھا گیا، جس کا ذکر فانی نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں 13 سمتبر 1879ء کو دنیا میں لایا گیا۔اب تک کہ دسمبر 40ء ہے ، زندہ سمجھا جاتا ہوں۔ نسلاً پٹھان ہوں، اصلی وطن کابل ہے ، اس طرح کہ شاہ عالَم بادشاہی کے زمانے میں میرے مورثِ اعلیٰ صالت خاں نامی ہندوستان آئے ۔ دربارِ دہلی نے انھیں اور ان کے جانشینوں کو بہت نوازا، ممتاز عہدوں پر فائز کیے جانے کے علاوہ جاگیرات، خطابات، منصب وغیرہ سے سرفراز کیے گئے ۔ نواب بشارت خاں میرے پردادا تھے ، صوبۂ بدایوں کے گورنر تھے ۔ تقریباً دو سو مواضعات پر ان کی جاگیر مشتمل تھی، مگر زمانے کے انقلاب نے رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچا دی کہ میرے والد شجاعت علی خاں صاحب جو مورثِ اعلیٰ سے چھٹی پُشت میں تھے‘ پولیس کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ، چناں چہ قلیل آمدنی کے سہارے پر مرحوم نے اپنی ساری زندگی شرافت، دیانت، غیرت اور جرات کے ساتھ گذار دی۔ میری جوان لڑکی نے 33ء میں انتقال کیا، میرے دو لڑکے سعادت علی خاں اور وجاہت علی خاں کے نام سے موسوم ہیں۔مذہباً حنفی ہوں۔ میں نے 1901ء میں بی اے اور 1908ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔23ء تک لکھنؤ میں اور اس کے بعد 32ء تک آگرہ میں پیشۂ وکالت ذریعۂ معاش رہا۔ کچھ سال بدایوں اور بریلی میں بھی وکالت کرتا رہا، 32ء سے 39ء تک حیدرآباد، دکن میں صدر مدرس رہا، 39ء کے بعد سے اب تک بے کار ہوں، آیندہ کیا ہوگا معلوم نہیں۔ مختصراً ننگ خاندان ہوں اور بارِ زمین بھی۔ میری ہستی کسی اور کے لیے تو کیا مفید ہوتی، خود میرے لیے نہیں۔(آپ بیتی نمبر، نقوش) یہ ہے فانی کی درد و کرب سے بھری داستانِ زندگی، جو ان کی شخصیت و فن پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے ،اسی لیے کہا گیا کہ اک بے کراں درد، اک بے پایاں یاس و نا امیدی، ہڈیوں تک پگھلا دینے والا ایک غم، ایک جاں کنی کی سی کیفیت (ع: مری عمرِ فانی نزع کے عالم میں گزری ہے)، ایک مسلسل آہ، یہی سب کچھ فانی کی زندگی کا سرمایہ ہے ، مگر فانی کے کلام میں صرف یہی نہیں، بلکہ وہ وارداتِ انسانی کے کام یاب مصور بھی ہیں۔ ان کے کلام کی ایک اہم خصوصیت شعریت ہے ، وہ فن کی افادیت کے قایل نہیں تھے ، فن براے فن میں یقین رکھتے تھے ، اس لیے لفظوں کے انتخاب، ان کی ترتیب اور تراش خراش کی طرف اتنی توجہ کرتے تھے کہ ان کے یہاں ایک خاص قسم کی رعنائی و دل کشی پیدا ہو گئی، اسی لیے ان کے شعروں میں بلا کی تاثیر ہے ۔(تاریخِ ادبِ اردو، نورالحسن نقوی) ملاحظہ ہو  ؎دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالمبستی بسنا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے ٭بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھامل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا فانی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ماہر القادری کا یہ اقتباس بھی قابلِ مطالعہ ہے :فانی مرحوم خوش پوشاک اور خوش خوراک تھے ، اوقات کی پابندی کا بہت لحاظ رکھتے ۔ مذہبیت ان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک زمانے میں نماز اورتلاوتِ قرآن کے بہت پابند تھے ، مذہبیت کی چنگاری مرتے دم تک اپنا کام کرتی رہی۔ انقلابی قسم کی ملحدانہ شاعری سے ان کو انتہائی نفرت تھی۔(فانی کی شاعری) اس بیان پر ثبوت ملاحظہ ہو:تونے دل دے کے بس اک شانِ ہوس پیدا کیان کا بندہ ہے، وہی شان بھی لا تجھ کو پھبتا نہیں اسلام کا دعویٰ فانیورنہ وہ غیرتِ اسلام بھی لا، آن بھی لا ان کے کلام کی طباعت کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ چار مجموعے : (1) دیوانِ فانی 1921ء (2) باقیاتِ فانی 1922ء(3) عرفانیاتِ فانی 1938ء(4)وجدانیاتِ فانی1940ء میں شائع ہوئے ،اور ان کی وفات کے پانچ سال بعدیعنی (1946ء) میں حیرت بدایونی نے کلیاتِ فانی شائع کیا، لیکن فانی نے اپنی خود نوشت میں بیان لکھا ہے : میری موجودہ تصنیفات دیوانِ فانی، مطبوعہ نقیب پریس، بدایوں 25ء، باقیاتِ فانی، مطبوعہ آگرہ اخبار پریس، آگرہ 26ء اور عرفانیاتِ فانی مطبوعہ 39ء ہیں، باقی تصنیفات تلف ہو گئیں۔(آپ بیتی نمبر، نقوش) خیر! اس بحث سے قطعِ نظر  ؎ہمیں ابھی تیرے اشعار یاد ہیں فانیترا نشاں نہ رہا اور بے نشاں نہ ہوا آخر ان کے اشعار کیوں نہ یاد رہیں جب کہ فانی نے انھیں اپنی وارداتِ قلبی کا حقیقی آئینہ بناکر پیش کیا ہے جس میں ان کے غم و اندوہ کی جھلک ہی نہیں صاف و شفاف تصویر بھی نظر آتی ہے ، بلکہ یہ تصویر اس قدر اصل معلوم ہوتی ہے کہ دیکھنے والا اس میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کلامِ فانی میں دوسرا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ قاضی عبد الغفار لکھتے ہیں:میں کسی دوسرے شاعر کو نہیں جانتا جس نے اپنی شاعری کو اپنی زندگی کے تاثرات ، اپنی حقیقی وارداتِ قلب اور تمام تر انسانی احساسات کا اس قدر صحیح آئینہ دار بنایا ہو۔ فانی کی شاعری یک سرخود فانی کی مجروح روح ہے ! اس شاعری کو فانی کی روح سے الگ کر لیجیے یا فانی کی شاعری کو اس سے خارج کر دیجیے تو رہ بھی کیا جاتا ہے ان اوراق میں سوائے ایک وحشت زدہ اور ویران خلا کے ۔( کلیاتِ فانی ) فانی کی شاعری میں موت ، کفن ، قبر اور میت کاذکر بار بار آیا ہے ، جن سے وہ خود متوحش ہیںنہ دوسروں کو وحشت میں مبتلا ہونے دیتے ہیں، بلکہ وہ اس وحشت کے سامان کو بھی اس طرح قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں، گویا مدتِ مدیدہ سے اس کے منتظر ہوں  ؎تو کہاں تھی اے اجل اے نا مُرادوں کی مُرادمرنے والے راہ تیری عمر بھر دیکھا کیے  سچ ہے کہ فانی کی زندگی کی افسردگی ان کے کلام میں پوری طرح نمایاں ہے ، جس میں وہ اس فانی دنیا کے رنج و الم کو لافانی کرتے نظر آتے ہیں۔ انھیں ایک طرف معاش کا غم ستاتا ہے تو دوسری طرف اپنوں کی بے وفائیوں اور غریب الوطنی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، آخرش وہ مجبور ہو کر کہتے ہیں  ؎فانی کی زندگی بھی کیا زندگی تھی یا ربموت اور زندگی میں کچھ فرق چاہیے تھا اسی لیے انھوں نے غمِ حیات کو سینے سے لگانے میں ہی عافیت سمجھی اور تازہ رنگ کے پھولوں کو فریبِ رنگ و بو قرار دے دیا  ؎اگلے برس کے پھولوں کا کیا حال انھیں معلوم نہیںکلیوں کا یہ طرزِ تبسم یہ شادابی کیا کہیے  فانی خوشی و نشاط کو فانی مان کر غم کو ترجیح دیتے اور اس کا جواز بھی پیش کرتے ہیں   ؎غم بھی گذشتنی ہے ، خوشی بھی گذشتنیکر غم کو اختیار گذرے تو غم نہ ہو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here